کبھی دلوں میں کبھی چشمہاٸے تر میں رہے

ثاقب ندیم
کبھی دلوں میں کبھی چشمہاٸے تر میں رہے
ہم ایسے سادہ طبیعت سدا سفر میں رہے
کبھی خیال کبھی خواب کے نگر میں رہے
ہم ایسے لوگ سدا گوشہِٕ نظر میں رہے
یہ دورِ قحطِ تمدن ہے سو دعا کیجے
سلامت اپنے بڑوں کا طریقہ گھر میں رہے
وہ ایک شخص جو خودکو خداسمجھتاہے
اسے کہو وہ بشر ہے، حدِ بشر میں رہے
حصارِ ذات سے اپنی نہ ہم نکل سکے اور
ہمارے نام کےیاں چرچے بحر و بر میں رہے
بتاٶگے ہمیں کیا داستان درد و الم
کہ صدیوں ہم غم و آلام کے نگر میں رہے
بنے ہیں مصلح مرشد یہاں پہ وہ ثاقب
شریک برسوں جو تنظیم فتنہ گر میں رہے
ثاقب ندیم
Comments are closed.