پاکستان: سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس میں متوقع پیشی،پولس کاخصوصی سیکورٹی انتظامات

آن لائن نیوزڈیسک
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت آج ہو گی۔ اس سلسلے میں پولیس نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے اطراف سیکیورٹی کا خصوصی پلان تشکیل دیا ہے۔
عمران خان پر خاتون جج زیبا چوہدری کو دھمکانے کا مبینہ الزام ہے جس پر انہیں توہین عدالت کیس کا سامنا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ اس کیس کی سماعت کرے گا۔
اسلام آباد پولیس کے مطابق عمران خان کی متوقع پیشی کے موقع پر عدالت کے احاطے میں صرف اسلام آباد ہائی کورٹ سے اجازت نامہ حاصل کرنے والے افراد کو ہی داخلے کی اجازت ہو گی۔
عمران خان نے توہین عدالت کیس میں پیش ہونے سے قبل اظہارِ وجوہ کے نوٹس کا تحریری جواب اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرادیا ہے۔ اپنے تحریری جواب میں انہوں نے خاتون جج زیبا چوہدری سے متعلق اپنے متنازع الفاظ واپس لینے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔
عمران خان نےوکیل حامد خان کے توسط سے منگل کو عدالت میں بیان جمع کرایا تھا۔ تاہم انہوں نےاظہارِ وجوہ کے نوٹس پر معافی نہیں مانگی ۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ رجسٹرار ماتحت عدلیہ کے جج کے ریفرنس کے بغیر توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار نہیں رکھتا۔”آپ سب شرم کریں” کے الفاظ کسی اور انداز میں ادا کیے گئے تھے، جسے رجسٹرار نے توہین آمیز سمجھا ہے۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ ریلی سے خطاب میں اگر اس طرح کے الفاظ ادا ہوئے جو عدالت کو نامناسب لگے تو وہ اپنے ان الفاظ کو واپس لینے کے لیے تیار ہیں۔ البتہ ان کی نیت توہینِ عدالت کی نہیں تھی ، اس لیے اظہارِ وجوہ کا نوٹس واپس لیا جائے۔
عمران خان نے جواب میں کہا ہے کہ انہیں غلط فہمی ہوئی تھی اور وہ سمجھے تھے کہ زیبا چوہدری جوڈیشل افسر نہیں بلکہ ایگزیکٹو سول مجسٹریٹ ہیں جو وفاقی حکومت کی ہدایات پر کام کر رہی ہیں۔
سابق وزیرِاعظم کے مطابق انہوں نے توہین عدالت نہیں کی ہے بلکہ ان کی تقریر کو سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا گیا ہے۔رجسٹرار نے صرف چند الفاظ نوٹ کیے۔
ان کے بقول یہ بیان میڈیا میں ایسے رپورٹ ہوا جیسے وہ قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا ارادہ رکھتے ہیں جب کہ انہوں نے پوری زندگی قانون اور آئین کی پابندی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس اخبار کا حوالہ دیا گیا ہے وہ میرا سب سے بڑا ناقد ہے۔
عمران خان نے اپنے جواب میں کہا کہ اس جواب کو عارضی سمجھا جائے کیوں کہ ماتحت عدالت کا ریکارڈ نہیں مل سکا، اس لیے محدود معلومات کی بنیاد پر جواب تیار کیا ہے۔

Comments are closed.