مدارس کے نظام میں حکومتوں کی مداخلت دستورِ ہند کی خلاف ورزی: مولانا احمد بیگ ندوی

آل انڈیا امامس کونسل کے قومی صدر مولانا احمد بیگ ندوی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ: ”مدارس اسلامیہ کے خلاف اترپردیش و آسام حکومت کی جارحانہ پالیسی قابل مذمت ہیں، طرح طرح کے بے جا الزامات لگاکر مدارس کو نشانہ بنانے اور مداخلت کرنے کی روش یہی بتلاتی ہے کہ ایک مخصوص نظریے کی حکومتیں جہاں جہاں ہیں ان کا واضح ایجنڈا مسلم شناخت پر ڈاکہ ڈالنا ہے، مدارس ہی کیوں نشانے پر؟ دوسری کمیونٹی کے بھی اسکولس وکالجز ہیں، ان کی عبادت گاہیں ہیں، حالانکہ ہم کسی کمیونٹی کے ادارے اور عبادت گاہوں کے خلاف نہیں ہیں، لیکن مرکزی وصوبائی حکومتوں سے یہ سوال ضرور ہے کہ جن چیزوں کو بنیاد بناکر وہ مسلم کمیونٹی کی عبادت گاہوں اور مدارس کو نشانہ بنارہی ہیں، کیا حکومت یہ بتاسکتی ہے کہ کیا وہ اسباب دوسری کمیونٹی کے اداروں اور عبادت گاہوں میں نہیں پائے جاتے ہیں، بالفرض حکومت کے دعوے کے مطابق مدارس اور مساجد کی زمین یا نقشے میں کوئی خامی وکمزوری ہے، تو سوال یہ ہے کہ اس سے ہزار گنا زیادہ خامیاں تو دوسری کمیونٹی کے اداروں اور عبادت گاہوں میں پائی جاتی ہیں، پھر ان کے خلاف کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا جاتا، وہاں بلڈوزر کیوں نہیں چلایا جاتا، بلکہ بعض اسکولوں میں مبینہ طور پر ہتھیاروں کی ٹریننگ کی بھی خبریں منظر عام پر آتی رہی ہیں، اس کے باوجود حکومتیں خاموش رہتی ہیں، یہ دوغلی پالیسی ملک کے سیکولر دستور کے خلاف ہے۔“
قومی صدر نے کہا کہ: ”آسام حکومت ہو یا یوپی حکومت دونوں کو اپنی منفی پالیسی سے باز رہنا چاہیے، عوام کے اصل مدعوں پر دھیان دینا چاہیے، منافرت کی پالیسی ملک کو کمزور کرےگی۔
مسلمانوں سے مطالبہ ہے کہ وہ تحمل سے کام لیں اور دستوری طریقے اختیار کر کے حکومت کے اس طرح کے جارحانہ اقدامات کو روکنے کی ہر ممکن تدبیر کریں۔“
میڈیا ڈیسک:
آل انڈیا امامس کونسل
جامعہ نگر، نئی دہلی
Comments are closed.