مرکزعلم ودانش علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعلیمی وثقافتی سرگرمیوں کی اہم خبریں

’سرسید اور جدیدیت‘ پر سمپوزیم کا انعقاد
علی گڑھ، 15 اکتوبر: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے سنٹر فار ایڈوانسڈ اسٹڈی، شعبہ تاریخ میں انیسویں صدی کے عظیم سماجی مصلح اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خاں کے 205ویں یوم پیدائش کی مناسبت سے ”سر سید احمد خاں اور جدیدیت” پر ایک سمپوزیم کا انعقاد کیا گیا۔
پروفیسر شافع قدوائی (شعبہ ترسیل عامہ) نے سرسید کی صحافتی خدمات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سرسید پہلے مسلم عوامی دانشور تھے جنہوں نے ہندوستانیوں کو بالعموم اور مسلمانوں کو بالخصوص درپیش مسائل پر توجہ دلائی۔
انھوں نے کہا، ’’سرسید کا بنیادی مقصد معاشرے میں بیداری پیدا کرنا تھا اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور تہذیب اخلاق کے نام سے دو جرائد شر وع کیے، جنہوں نے ہندوستانی معاشرے کی اصلاح میں بڑا کردار ادا کیا‘‘۔
پروفیسر شافع نے کہا کہ سرسید کا صحافت کا ماڈل سچائی کے انکشاف پر مبنی تھا اور انہوں نے ہمیشہ منطق اور عقلیت کی بنیاد پررائج تصورات پر گفتگو کی۔ انھوں نے کہا ’’یہی وجہ ہے کہ ولیم میور کی پیغمبرؐ اسلام پر گستاخانہ کتاب کے خلاف احتجاج میں شامل ہونے کے بجائے سرسید نے انگلستان کا دورہ کرنے کا انتخاب کیا اور اس کے خلاف جوابی تحریر لکھی، جو بعد میں خطبات احمدیہ کے نام سے شائع ہوئی‘‘۔
پروفیسر محمد ظفر محفوظ نعمانی (شعبہ قانون) نے ’’سرسید کے قانونی نظریات اور قانونی افکار‘‘ پر اپنے خطاب میں کہا کہ سرسید کے قانونی نظریات بنارس ایجوکیشن کمیٹی کی رپورٹ اور قانونی خدمات کے ساتھ ان کی طویل وابستگی کے دوران پروان چڑھے۔
انھوں نے مزید کہا ’’سر سید نے قانون پر ایک کتاب تصنیف کی اور ان کی اہم خدمات میں قاضی ایکٹ، انڈین وقف ایکٹ وغیرہ کی تدوین شامل ہے۔ وفاقیت ، بنیادی حقوق اور بنیادی فرائض کے بارے میں ان کے تصورات اس زمانے کے جدید دستور سازوں سے بہت آگے تھے۔ انھوں نے لوگوں میں صحت کے تئیں شعور بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور صحت عامہ کے قوانین کے نفاذ کی وکالت کی‘‘۔
پروفیسر محمد عاصم صدیقی (شعبہ انگریزی) نے زور دیتے ہوئے کہا کہ سرسید جدیدیت کی تمام خوبیوں کا مجسمہ تھے اور انھوں نے ہمیشہ عقلیت، منطق اور اظہار رائے کی آزادی کے استعمال پر زور دیا۔
پروفیسر محمد عاصم نے کہا ”اپنی تمام تحریروں میں سرسید کی رہنمائی منطق سے ہوئی اور ان کی عقلیت میں مستشرقین نے بڑا کردار ادا کیا۔ دہلی کی نشاۃ ثانیہ سے متاثر ہو کر، سر سید نے ہمیشہ ہر طرح کی آزادی کے لیے کام کیا۔ وہ یقینی طور سے معذرت خواہانہ ذہن نہیں رکھتے تھے یا انگریزوں کے حامی نہیں تھے‘‘۔
اپنے صدارتی کلمات میں پروفیسر گلفشاں خان (چیئرپرسن، شعبہ تاریخ) نے کہا کہ سرسید بنیادی طور پر ایک مذہبی مفکر، عظیم اسکالر اور اچھے محقق تھے۔ اس نے اصل مآخذ سے رجوع کرنے کے بعد ہی ولیم میور کی کتاب کی تردید لکھی۔
پروگرام کنوینر پروفیسر پرویز نذیر نے شکریہ کی تجویز پیش کی۔ ڈاکٹر محمد نذر الباری نے نظامت کے فرائض انجام دئے۔
٭٭٭٭٭٭
شعبہ اردو میں بزم شہریار کے تحت سرسید تقریبات کا آغاز
علی گڑھ۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں بزم شہر یار کے تحت سرسید تقریبات کا آغاز کیا گیا۔
صدر شعبہ اردو پروفیسر محمد علی جوہر نے سرسید احمد خاں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسی ہمہ جہت شخصیت تھے جنہوں نے قوم کو سربلند کیا۔یہ سر سید تقریبات کا آغاز ہے اس لیے ان کی تحریر و تقریر پر توجہ مرکوز کی گئی ہے تاکہ ان کا پیغام ان کی زبان میں نئی نسل تک پہنچے اور عام ہو۔
صدر جلسہ، سابق صدر شعبہ اردوفکشن رائٹر پروفیسر طارق چھتاری نے سر سید کے منتخب مضامین کی پیش کش پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سرسید کے پیغام کو عام کرنے کا یہ طریقہ بہت اچھا اور خوبصورت ہے۔سرسید کی تحریروں اور ان کی راہوں کو دیکھ کر ہمیں اپنی راہ کا تعین کرنا ہے۔اس ضمن میں ان کے مضمون ’خوشامد‘ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سرسید نے خوشامد کرنے والوں سے تخاطب کے بجائے خوشامد کروانے والوں کو مخاطب کیا ہے۔یہ ان کی بصیرت تھی کہ انہوں نے برائی کی جڑ پر حملہ کیا۔پروفیسر طارق چھتاری نے کہا کہ سرسید نے ہمیں یہ راہ دکھائی کہ ہرزمانے کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں جنہیں پورا کرنا چاہیے۔سرسید نے اپنے زمانے کے تقاضے پورے کیے اور آج ہمارے زمانے کے جو تقاضے ہیں سرسید سے روشنی لے کر ہمیں ان کو پورا کرنا ہے۔یہی سرسید کا سب سے بڑا اور اہم پیغام ہے۔
پروفیسر قمر الہدی فریدی نے کہا کہ سر سید نے ایک چراغ روشن کیا تھا جس کی روشنی آج ہمیں روشن کر رہی ہے۔انسان کی عظمت کی دلیل یہ بھی ہوتی ہے کہ جتنا اپنے زمانے میں یاد کیاجائے اس سے کہیں زیادہ اگلے زمانوں میں یاد کیا جائے اور سرسید کو دیکھیے آج بھی وہ کتنی عقیدت و محبت سے یاد کیے جاتے ہیں جو ان کی عظمت کی دلیل ہے کیونکہ انہوں نے ایک راستہ بنایا اور اسے روشن کیا جس سے زندگیاں اور نسلیں منور ہو رہی ہیں۔
پروفیسر سید سراج الدین اجملی نے سرسید تقریبات کے آغاز و اہتمام پر ڈاکٹر خالد حیدر(خالد سیف اللہ) کو مبارک باد پیش کی اور سر سید کے قوم پر احسانات کا ذکر کیا۔
اس سے قبل ڈاکٹر امتیاز احمد نے پروگرام کا تعارف کراتے ہوئے سرسید کی ہمہ جہت شخصیت پر روشنی ڈالی۔ڈاکٹر معید الرحمن نے اپنا مقالہ ’سرسید کی تفسیر: ایک مطالعہ‘ پیش کیا۔انہوں نے کہا سرسید کا یہ موقف تھا کہ قران پاک میں ہر دور کے مسائل کا حل موجود ہے، اسی کو بنیاد بناکر انہوں نے اپنی تفسیر لکھی۔
شعبہ اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر معید رشیدی نے نظامت کرتے ہوئے سرسید کی زندگی پر مختصر روشنی ڈالی اور بتایا کہ کن جانفشانیوں سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو قائم کیا اور ہندوستان ہی نہیں برصغیر کے مسلمانوں کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔
نسیم سید نے سر سید احمد خاں کی حیات و خدمات پر تقریر کی،محمد مرشد حسین نے اقبال کی نظم طلبائے علی گڑھ کے نام، محمد اسامہ نے سر سید کا مضمون خوشامد، عفان احمد اور انضمام الحق نے ’’عیدکے دن کا مکالمہ ‘‘اوراحتشام الحق نے سرسید کا مضمون کاہلی پیش کیا۔جبکہ انضمام الحق نے اقبال کی نظم سید کی لوح تربت، اکرام اعجاز نے سرسید کا نظریہ قومیت پر مضمون پڑھا۔ریسرچ اسکالر صبا منور نے سر سید کا مضمون ’عورتوں کے حقوق‘ پیش کیا۔حالی نے اپنی کتاب حیات جاوید میں سر سید کے کچھ خواب نقل کیے ہیں جنہیں عفان احمد، محمد عارش اور نسیم نے پیش کیا۔محمد فرید نے سرسید کا مضمون’’ ہمارے بعد ہمارا نام رہے گا‘‘ پڑھا۔اسامہ اور فرید نے مختار مسعود کی کتاب ’سفر نصیب‘ سے سر سید احمد سے متعلق اقتباسات سنائے۔ سرسید تقریبات کا اختتام 17 اکتوبر کو ڈنر پر ہوگا۔پروگرام آرگنائزر ڈاکٹر خالد حیدر نے حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔
٭٭٭٭٭٭
عبداللہ اسکول میں یوم سرسید کی تقریب
علی گڑھ، 15 اکتوبر: عبداللہ اسکول، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی طالبہ ادیبہ کو عبداللہ اسکول میں سر ڈے کی تقریبات کے دوران پانچویں جماعت میں بہترین تعلیمی کارکردگی کے لیے 5000 روپے کا ‘توحید قمر’ نقد ایوارڈ دیا گیا۔
ابھے سسودیا کو 3000 روپے نقد کے ساتھ دوم انعام ا اور شکیب جمیل کو 2000 روپے پر مشتمل سوم انعام دیا گیا ۔
فاتحین کو عبداللہ اسکول اولڈ بوائے مسٹر ناصر قمر نے یہ ایوارڈ تقسیم کئے جنہوں نے اپنے مرحوم والدین مسٹر اور مسز قمر حسین کی یاد میں یہ ایوارڈ شروع کیا ہے۔
اس موقع پر چارٹ سازی کے مقابلے میں، نشا خان (اے ایم یو اے بی کے اسکول-گرلز) پہلے نمبر پر رہیں۔ ایان خاں (اے ایم یو اے بی کے اسکول-بوائز) دوسرے اور سمیحہ (عبداللہ اسکول) تیسرے نمبر پر رہیں۔
وویک کمار (اے ایم یو ایس ٹی ایس اسکول) نے اے ایم یو کی کسی بھی عمارت یا یادگار پر پوسٹر بنانے کا مقابلہ جیتا جس میں ایان خاں (اے ایم یو اے بی کے اسکول-بوائز) اور عاشقہ پروین (اے ایم یو اے بی کے اسکول-گرلز) بالترتیب دوسرے اور تیسرے مقام پر رہے۔
اے ایم یو کے ڈائریکٹر، اسکول ایجوکیشن پروفیسر اصفر علی خاں نے اے ایم یو کے بانی سر سید احمد خاں کی زندگی اور خدمات پر گفتگو کی اور طلباء کو نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی تحریک دی۔ پروفیسر شائستہ افروز نے صلاحیت و مہارت کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ عمرہ ظہیر (اسکول سپرنٹنڈنٹ) نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا اور لبنیٰ امتیاز نے شکریہ ادا کیا۔
٭٭٭٭٭٭
ویمنس کالج کے زیر اہتمام اوپن ڈسٹرکٹ ٹورنامنٹ اختتام پذیر
علی گڑھ، 15 اکتوبر: ویمنس کالج، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے فزیکل ایجوکیشن سیکشن کے زیر اہتمام دو روزہ بیڈمنٹن اوپن ڈسٹرکٹ ٹورنامنٹ کے فائنل میچوں میں آج جونیئر زمرہ میں سیمیکس انٹرنیشنل اسکول کی مانیتا شرما نے فتح حاصل کی، جبکہ سینئر زمرہ میں ویمنس کالج کی شوبھا کو فاتح قرار دیا گیا۔ کے وی ایس اسکول کے کاکُل چودھری کو حریف کھلاڑی کی عدم موجودگی کی وجہ سے واک اوور دیا گیا اور وہ جونیئر زمرہ میں تیسرے نمبر پر رہیں۔
مانیتا شرما نے اننیا بھردواج کو سیدھے مقابلے میں 21-13 اور 21-11 سے شکست دی۔ جبکہ سینئر زمرے کے سنگلز مقابلہ میں شوبھا نے چارو راجپوت کو 21-17 اور 21-11 سے شکست دی۔ ویمنس کالج کی ایمن خان نے اپنے مد مقابل کھلاڑی ہدیٰ کو شکست دی اور وہ تیسرے مقام پر ہیں۔
بیڈمنٹن ڈبلز میچ میں شوبھا اور اننیا کی جوڑی نے شریا اور چارو کی جوڑی کو21-19 اور 21-8 سے ہرایا۔
ٹیبل ٹینس کے اوپن میچوں میں ڈی پی ایس کی فاطمہ ہالہ نے سینئر سیکنڈری اسکول گرلزکی ثنا فرید کو 8-11، 11-9، 11-7 اور 11-7 سے ہرایا۔
ٹورنامنٹ کی آرگنائزنگ سکریٹری ڈاکٹر نازیہ خان نے بتایا کہ دو دن تک جاری رہنے والے اس مقابلے میں اے ایم یو کے علاوہ علی گڑھ ضلع کی خاتون کھلاڑیوں اور دیگر کئی ٹیموں نے حصہ لیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر رضیہ بی رضوی اور محمد کامران، افشاں عبید، مہوش خان، آیوش چودھری، جھلکیش کمار، امان عالم اور عرشی موجود تھے۔
٭٭٭٭٭٭
ڈپٹی کوآرڈنیٹر کی تقرری
علی گڑھ، 15 اکتوبر: ڈاکٹر آصف علی (ایسوسی ایٹ پروفیسر، آرکیٹیکچر سیکشن، یونیورسٹی پالی ٹیکنک)، اور ڈاکٹر فضیلہ شاہنواز (اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ تاریخ) کو دو سال کی مدت کے لئے ڈِس ایبلٹی یونٹ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کا ڈپٹی کوآرڈنیٹر مقرر کیا گیا ہے۔
Comments are closed.