مرکزعلم ودانش علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعلیمی وثقافتی سرگرمیوں کی اہم خبریں

انجینئر حبیب النبی کے ناگہانی انتقال پر رنج و غم کا اظہار
علی گڑھ 18 اکتوبر: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) نے 1979 بیچ کے انجینئرنگ گریجویٹ ، ٹیبل ٹینس اور جم خانہ کے سابق کپتان اور یونیورسٹی کے 1976 بیچ کے کلر ہولڈر مسٹر حبیب النبی (64) کے ناگہانی انتقال پر افسوس و تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ وہ 17 اکتوبر کو سرسید ہال (نارتھ) میں مہمان اعزازی کے طور پر موجود تھے اور کل رات دیر دل کا دورہ پڑنے سے ان کا اچانک انتقال ہوگیا۔
ان کی رحلت پر رنج و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ یہ ان کے کنبے ، اعزاء و رفقاء اور ہم سب کے لیے ایک بڑا نقصان ہے ۔ میں اپنی دلی تعزیت پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ وہ غمزدہ اہل خانہ کو اس نقصان کو برداشت کرنے کی طاقت و ہمت عطا فرمائے۔
وائس چانسلر نے کہا کہ انجینئر حبیب النبی اس یونیورسٹی کے ایک نامور سابق طالب علم تھے جنہوں نے بطور طالب علم اے ایم یو میں اپنے قیام کے دوران کھیلوں میں شاندار کارنامے انجام دیے۔ ان کے انتقال سے اے ایم یو نے ایک عزیز اولڈ بوائے کو کھو دیا ہے جو ہمیشہ اپنی مادر علمی کے لیے کھڑا رہا۔
انجینئر حبیب النبی نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ قطر میں قہرماں ، وزارت آب و بجلی میں پروجیکٹ منیجر کے طور پر خدمات انجام دیتے ہوئے گزارا۔ انھیں کئی اعزازات اور ایوارڈوں سے نوازا گیا جن میں حکومت ہند کی طرف سے پرواسی بھارتیہ سمّان ایوارڈ، سلطنت عمان کی جانب سے سلطان قابوس ایوارڈ ، حکومت اتر پردیش کی طرف سے اردو ساہتیہ ایوارڈ، بہار حکومت کی طرف سے اردو تحریک کے لیے اشرف قادری ایوارڈ، دہلی کی طرف سے بھارت گورو ایوارڈ اور ون انڈیا ایسوسی ایشن کی جانب سے بیسٹ اسپورٹس پرسن آف قطر ایوارڈ شامل ہیں۔
انہوں نے 2022 کے لیے فیفا ورلڈ کپ آرگنائزنگ کمیٹی، قطر کے رکن اور انڈین اسپورٹس سینٹر (ہندوستانی سفارت خانہ)، قطر کے جنرل سکریٹری کے طور پر بھی خدمات انجام دیں ۔ انھیں انڈین کلچرل سینٹر، انڈین اسپورٹس سینٹر، انڈین کمیونٹی بینوولینٹ فورم ، (سفارت خانہ ہند)، قطر کی تاحیات رکنیت سے بھی نوازا گیا تھا۔
ان کے پسماندگان میں اہلیہ، ایک بیٹا اور بیٹی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
سرسید پر ڈرامے کی پیشکش، اے ایم یو میں یوم سرسید پر متعدد پروگرام
علی گڑھ، 18 اکتوبر: اگر آپ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے طالب علم، استاد، یاسابق یا موجودہ طالب علم ہیں تو آپ ’علی گڑھ تحریک‘ سے وابستہ جدوجہد اور کامیابیوں و کامرانیوں سے واقف ہوں گے جن کی بدولت محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کا قیام عمل میں آیا جو اب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے۔ لیکن اگر آپ ایک کہانی کو پہلے سے جانتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے دوبارہ نہیں بتایا جانا چاہیے۔
اسی کہانی کواے ایم یو ڈرامہ کلب کے ڈرامے ‘سر سید’ میں پیش کیا گیا ہے ۔ اس ڈرامے کو پروفیسر ایف ایس شیرانی (کوآرڈینیٹر، کلچرل ایجوکیشن سنٹر) نے لکھا ہے اور اس کے ہدایت کار مزمل حیات بھوانی ہیں۔ 16 اکتوبر کو کینیڈی آڈیٹوریم میں اس ڈرامے کی پیشکش ہوئی اور یہ سلسلہ 20 اکتوبر تک چلے گا، جس میں تاریخی سلسلہ واقعات کی دلکش انداز میں عکاسی کی گئی ہے کہ کس طرح 1857 کے بعد کے نامساعد حالات نے سر سید احمد خاں کی زندگی پر گہرا اثر مرتب کیا،چنانچہ انھوں نے ایم اے او کالج کے قیام کی تحریک چھیڑی اور مایوسی کے دور میں امید کی نوید سنائی۔
پروفیسر ایف ایس شیرانی، طلحہ ٹھاکر، شاہ زیب خان، زید احمد خان، عدنان خرم، رضوان خان، عنیزہ اختر اور ماریہ انصاری نے اس ڈرامے میں کردار نبھائے ہیں اور اس میں مرزا غالب سے لے کر محسن الملک تک کی تاریخی شخصیات کو پیش کیا گیا ہے ۔
دریں اثنا، اے ایم یو کے مختلف شعبوں، اقامتی ہالوں اور اسکولوں نے بھی سر سید احمد خاں کے 205 ویں یوم پیدائش کے موقع پر یوم سرسید تقریبات کا اہتمام کیا ۔
شعبہ سیاسیات میں ’’سرسید احمد خاں: زندگی اور میراث‘‘ موضوع پر ایک سمپوزیم منعقد ہوا جس میں اساتذہ نے سرسید کے افکار، تعلیمات، فلسفہ اور مشن پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔
صدارتی خطاب میں پروفیسر اقبال الرحمن (چیئرمین، شعبہ سیاسیات) نے اے ایم یو برادری کو سرسید کی عقلیت اور جدیدیت کو پورے ملک اور دنیا میں پھیلانے کی دعوت دی۔
پروفیسر عرشی خاں نے ‘سرسید کا جدید تعلیم کا مشن اور عصر حاضر میں اس کی معنویت’ پر گفتگو کی۔ پروفیسر محمد محب الحق نے ‘سرسید کے سیاسی نظریات اور آج ان کی معنویت’ پر گفتگو کی، ڈاکٹر نغمہ فاروقی نے ‘علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں خواتین کی تعلیم: تاریخی اور عصری تناظر میں‘ موضوع پر اپنے خیالات پیش کئے، ڈاکٹر فصیح راغب گوہر نے ‘سرسید اور علامہ اقبال: ایک تقابلی تجزیہ’، ڈاکٹر ایم راحت حسن نے ‘سرسید اور ان کے رفقاء’ اور ڈاکٹر عرفان الحق نے ‘سرسید اور ہندوستانی بغاوت’ پر گفتگو کی۔
پروگرام کی نظامت ڈاکٹر مصیب احمد نے کی اور پرویز عالم نے شکریہ ادا کیا۔
نان ریزیڈنٹ اسٹوڈنٹس سنٹر (این آر ایس سی) میں سرسید ڈے کی تقریب میں آئی پی ایل کرکٹر امتیاز احمد اور آئی اے ایس آفیسر امیت آسری (میونسپل کمشنر، علی گڑھ) مہمانان خصوصی کے طور پر ، جب کہ ڈاکٹر سراج الدین ہاشمی (چیئرمین، ہاشمی گروپ آف ایجوکیشن)، آئی اے ایس آفیسر اتل وتس اور محمد بلال (ڈپٹی ڈائریکٹر، ایئر فورس اسٹیشن، فرید آباد) بطور مہمانان اعزازی شریک ہوئے ۔
سر شاہ سلیمان ہال میں ہونے والی تقریب میں مہمان خصوصی پروفیسر ایم التمش صدیقی (ڈین، فیکلٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی) نے اس بارے میں گفتگو کی کہ کس طرح سر سید نے اپنے ادراک و بصیرت سے 1857 کے بعد کے ہندوستان میں بقا کی حکمت عملی وضع کی اور ہندوستانیوں کو جدید تعلیم کو اپنانے میں مدد کی۔
عبداللہ ہال میں سرسید ڈے کی تقریب میں شرکت کرتے ہوئے مہمان خصوصی پروفیسر کے وی ایس ایم کرشنا (وائس چانسلر، منگلایتن یونیورسٹی) نے کہا کہ سرسید نے روایت اور جدیدیت کے درمیان ہم آہنگی کے لئے کام کیا ۔
آفتاب ہال میں منعقدہ پروگرام کے مہمان خصوصی پروفیسر ایم یو ربانی (چیئرمین، شعبہ کارڈیالوجی) نے سرسید کے اصلاحی جذبے اور جوش و لگن پر گفتگو کی۔
بی آر امبیڈکر ہال میں سرسید ڈے تقریب کے مہمان خصوصی امیت کمار بھٹ (اے ڈی ایم -ایف ؍ آر، علی گڑھ) نے موجودہ منظر نامے میں سرسید کے پیغام کی معنویت اور موزونیت کے بارے میں اظہار خیال کیا۔ اس تقریب میں جسٹس سمر وشال (ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج) بھی بطور مہمان اعزازی موجود تھے۔
سرسید ہال نارتھ میں ہونے والے پروگرام میں مہمان خصوصی پروفیسر قاضی مظہر علی (سابق ڈین، فیکلٹی آف سائنس) نے دور جدید میں رواداری اور تکثیریت کے بارے میں سرسید کے خیالات کی اہمیت پر گفتگو کی۔
سرسید ہال-ساؤتھ میں ہونے والی تقریب کے مہمان خصوصی مسٹر اقرار حسین (نائب صدر، کوئپو آئل اینڈ گیس انفرا لمیٹڈ، نئی دہلی) نے اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ سرسید نے کس طرح پورے ہندوستان اور ہندوستانی سماج کی ضروریات کے بارے میں بات کی۔
مسٹر ڈی پی پال (پی سی ایس آفیسر اور اے ڈی ایم-ای، علی گڑھ) نے ایک آزاد مفکر، منتظم، مصلح اور ماہر تعلیم کے طور پر سرسید کی ان تمام جہات پر روشنی ڈالی۔ وہ سر راس مسعود ہال میں یوم سرسید تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔
سروجنی نائیڈو ہال میں منعقدہ تقریب کی مہمان خصوصی ڈاکٹر بشریٰ بانو (آئی آر ٹی ایس، آئی پی ایس اور ڈپٹی کلکٹر، فیروز آباد) نے سرسید کی اہم کتاب ’اسباب بغاوت ہند‘ کے بارے میں گفتگو کی۔ پروفیسر شمیم جے رضوی (سابق ڈین، فیکلٹی آف میڈیسن) اور ڈاکٹر نغمہ عباسی (بانی اور سی ای او، نیکسٹ جین لائف سائنسز پرائیویٹ لمیٹڈ) بطور مہمان اعزازی شریک ہوئے۔
ہادی حسن ہال میں یوم سرسید تقریب کے مہمان خصوصی مسٹر اندرا وکرم سنگھ (ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، علی گڑھ) اور مہمانان اعزازی ڈاکٹر شمس تبریز (بانی اور منیجنگ ڈائریکٹر، کراس روڈ گروپ، دبئی) اور ڈاکٹر شیوم شرما (آئی آر ٹی ایس، سینئر ڈی او ایم، شمالی ریلوے) نے عوام کو جدید تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لیے سرسید کی کوششوں پر اظہار خیال کیا۔
اندرا گاندھی ہال میں یوم سرسید تقریب میں پروفیسر شگفتہ علیم (پرنسپل، اجمل خاں طبیہ کالج) اور ارم ماجد (ڈائریکٹر، انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف آربیٹریشن اینڈ میڈیشن) بالترتیب مہمان خصوصی اور مہمان اعزازی کے طور پر شریک ہوئے۔ انہوں نے ہندوستانیوں کے سماجی اور معاشی حالات کو بہتر بنانے میں سر سید احمد خاں کی انتھک کوششوں پر روشنی ڈالی۔
سر ضیاء الدین ہال میں یوم سرسید تقریب کے مہمان خصوصی پروفیسر ایم محسن خاں (فنانس آفیسر)، مہمان اعزازی مسٹر شویتابھ پانڈے (سی او سوئم، علی گڑھ) اور خاص مہمان کرنل طاہر مصطفی (سربراہ، باؤنڈری سیل، وزارت خارجہ، نئی دہلی) نے سرسید کی تعلیمی اصلاحات پر اظہار خیال کیا۔
پروفیسر ایم محسن خاں، بی بی فاطمہ ہال میں ہونے والی تقریب میں بھی بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے، جہاں ارون کمار گپتا (ایڈیشنل کمشنر، نگر نگم) بطور مہمان اعزازی موجود رہے۔
بیگم عزیز النساء ہال میں یوم سرسید تقریب کے مہمان خصوصی ایس حسن کمال (سی ای او، گلوبل بزنس کارپوریشن، اٹلانٹا، یو ایس اے) اور مہمانِ اعزازی پروفیسر سیدہ نزہت زیبا (سابق ڈین، فیکلٹی آف آرٹس) نے کہا کہ سرسید نے تعلیم کو ایک ایسا آلہ قرار دیا جس کے ذریعے ہندوستانی پسماندگی کی حالت سے نکل کر باقی دنیا سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔
مسٹر دیپک کمار (آئی پی ایس آفیسر اور ڈی آئی جی، علی گڑھ) نے اے ایم یو کے طلباء پر زور دیا کہ وہ سرسید کے تعلیمی اصلاحات کے مشن کو ملک کے کونے کونے تک لے جائیں۔ وہ محسن الملک ہال میں سرسید ڈے کی تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب کر رہے تھے۔
وقار الملک ہال میں مہمان خصوصی سید اکرام رضوی (جوائنٹ سکریٹری- تعلیم، حکومت ہند) نے کہا کہ سرسید نے تعلیمی اور سماجی اصلاحات پر زور دیا اور انھوں نے مشرقی اور مغربی دنیا کے درمیان خلیج کو پُر کیا۔
محمد حبیب ہال میں سرسید ڈے تقریب کے مہمان خصوصی پروفیسر محمد اشرف (ڈین، فیکلٹی آف سائنس) نے سرسید کے سیکولرزم اور جامعیت کے نظریات پر گفتگو کی۔
بیگم سلطان جہاں ہال میں یوم سرسید تقریب کی مہمان خصوصی جہاں زیب اختر (آئی آر ایس آفیسر اور پرنسپل کمشنر آف انکم ٹیکس، وزارت مالیات) نے علی گڑھ تحریک کو ایک منظم اور جامع تحریک قرار دیا جس کا مقصد عام ہندوستانیوں کی سماجی، سیاسی اور تعلیمی اصلاح کرنا تھا۔ اس تقریب میں پروفیسر وینا مہیشوری (شعبہ پیتھالوجی) اور پروفیسر ایم یو ربانی (شعبہ کارڈیالوجی) بطور مہمان اعزازی اور جسٹس سدھارتھ سنگھ (ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج، علی گڑھ) بطور خاص مہمان شریک ہوئے۔
ندیم ترین ہال میں منعقدہ پروگرام کے مہمان خصوصی ڈاکٹر عاقب جاوید (وزارت محنت و روزگار) اور علامہ اقبال بورڈنگ ہاؤس میں یوم سرسید تقریب کے مہمان خصوصی مسٹر محمد ندیم (سی ای او، مارک امپورٹ ایکسپورٹ) تھے۔ اسی طرح ایس ٹی ایس اسکول میں منعقدہ تقریب میں مسٹر جنید احمد (آئی اے ایس آفیسر اور سی ڈی او، جھانسی) بطور مہمان خصوصی اور مسٹر منور حاذق (امارات ائیرلائنز) بطور مہمان اعزازی شریک ہوئے۔
احمدی اسکول میں یوم سرسید تقریب کے مہمان خصوصی کے طور پر پروفیسر توفیق اے نظامی (شعبہ سیاسیات) شریک ہوئے۔
ڈاکٹر نائلہ راشد (اسکول پرنسپل) نے بتایا کہ احمدی اسکول میںیوم سرسیدکے موقع پر ہفت روزہ پروگراموں میں ادبی اور ثقافتی اور کھیل کی سرگرمیوں کا اہتمام کیا گیا۔
اسی طرح اے بی کے ہائی اسکول کے طلباء نے بھی یوم سرسید کی تقریبات کا جوش و خروش کے ساتھ اہتمام کیا۔ مرکزی تقریب میں سید محمد امین (صدر، اے بی ای ایس، علی گڑھ) اور سید محمد اشرف (نائب صدر، اے بی ای ایس، علی گڑھ) مہمانان خصوصی کے طور پر اور پروفیسر نعیمہ خاتون (پرنسپل، ویمنس کالج) بطور مہمانِ اعزازی شریک ہوئے۔
٭٭٭٭٭٭
راہی معصوم رضا کی یاد میں پروگرام کا انعقاد
علی گڑھ، 18 اکتوبر: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی فیکلٹی آف آرٹس کی جانب سے آرٹس فیکلٹی لاؤنج میں معروف مصنف راہی معصوم رضا کی یاد میں ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔
‘یاد راہی معصوم رضا’ کے عنوان سے ہونے والے اس پروگرام میں راہی اور ان کی فلمی و ادبی خدمات پر گفتگو کے ساتھ ساتھ راہی کی مشہور تحریر جس کا ہندی ترجمہ سیما صغیر مرحومہ نے ’’بھارتیتا کی پہچان: طلسم ہوشربا‘‘ کے عنوان سے کیا، کا اجراء عمل میں آیا۔
پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے معروف کہانی کار ڈاکٹر نمیتا سنگھ نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ سماجی حالات بدل رہے ہیں، تعلقات کشیدہ ہو رہے ہیں، راہی کے ادب کی معنویت بڑھتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ راہی معصوم رضا اپنی زندگی اور تحریروں میں معاشرے میں موجود خلیج کو پر کرنے کا کام کرتے رہے۔ داستان سے متعلق ان کی تحقیق کو ہر ہندی قاری کو پڑھنا چاہیے، کیونکہ اس سے ثقافت کے بارے میں صحیح نقطہ نظر پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے۔
شعبہ ترسیل عامہ کے پروفیسر اور معروف کالم نویس پروفیسر شافع قدوائی نے کہا کہ راہی معصوم رضا نے اس مقالے میں اس وقت تک دستیاب جدید ترین ادبی تحقیقی نقطہ نظر کو استعمال کیا ہے۔ ہندوستانی تناظر میں داستان ادب کا ان کا مطالعہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور پرانی ادبی لسانی روایات کا نچوڑ پیش کرتا ہے۔
پروگرام کے مہمان خاص، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ ہندی کے پروفیسر نیرج کمار نے کہا کہ اردو نے زبان کو دربار سے نکال کر باہر عوام تک پہنچایا۔ انھوں نے اس تحقیق کا مقصد بیان کرتے ہوئے راہی کا حوالہ دیا جس میں وہ کہتے ہیں – ”میں اس داستان کا مطالعہ کرنا چاہتا ہوں۔ ان داستانوں کی زمین کھینچی جا رہی ہے۔ داستانوں میں جو طلسم ہے ، اس کے نیچے جو زندگی ہے، اسے ہمارے لیے، ہندوستان کے لئے اور ثقافت کے لیے بچانے کی ضرورت ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ مابعد سچائی کے اس عہد میں جذبات کی مدد سے منطق کو اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن ہمیں یہ ذہن میں رکھنا ہو گا کہ منطق کی مدد سے بھی اظہار کو سیکولر بنایا جا سکتا ہے۔
اس سلسلے میں مسٹر اجے بساریہ نے کہا کہ زبان اور ثقافت کی مسلسل ترقی ہوتی ہے۔ ثقافت کسی ایک وقت میں کوئی ٹھہری ہوئی چیز نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ جب ہٹلر نے نسل پرستی کے نظریے کو پھیلانے کی کوشش کی تو ہندی کے عظیم اسکالرز اور ادباء نے اسے توڑنے کا کام کیا، جن میں بھگوت شرن اپادھیائے، واسودیوشرن اگروال، ہزاری پرساد دویدی وغیرہ شامل تھے۔ انہوں نے بتایا کہ انسانی تہذیب کی نشو و نما ثقافتی لین دین سے ہوئی ۔
اجے بساریہ نے کہا کہ راہی نے اپنے مقالے میں نہ صرف اس نکتے کو آگے بڑھایا بلکہ انہوں نے اس بات کی طرف بھی توجہ مبذول کروائی کہ ثقافت کا دائرہ وسیع ہوتاہے، اسے صرف مذہب تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ ثقافت کی بنیاد جغرافیائی ہوتی ہے۔ ان داستانوں میں عرب اور ایران نہیں بلکہ رامائن، مہابھارت سے لے کر واجد علی شاہ تک کی ثقافتی دنیا کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ انہوں نے سیما صغیر کے ترجمے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ ترجمہ، تخلیق کا تاثر دے۔
شعبہ انگریزی کے پروفیسر عاصم صدیقی نے کہا کہ اس کتاب میں داستان گو کسی بھی چیز کو واضح نہیں کرتا لیکن قاری اور داستان گو ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ داستانوں میں کشتی کا تعلق راہی رستم اور سہراب کی روایت سے نہیں بلکہ بالی -سوگریوا اور بھیم- جراسنگھ کے ساتھ جوڑ کر دیکھتے ہیں ، اس داستان میں وہ دجلہ و فرات کی سرزمین نہیں بلکہ گنگا جمنا کے دو آبے کی زندگی کو تلاش کرتے ہیں۔ اس طرح راہی داستان کی زندگی کو ہندوستانی زندگی قرار دیتے ہیں اور یہی ہندوستانیت کی پہچان ہے۔
پروفیسر صغیر افراہیم نے راہی کی تحقیق کی باریکیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر سیما صغیر کی نو سال کی انتھک کوششوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ پروفیسر کے پی سنگھ کے فراہم کردہ کانٹے کی چھپائی والی پرنٹ کو پڑھنے کے دوران سیما جی کے آنکھوں کی بینائی کمزور ہوگئی، اس میں راہی کے ہاتھ سے کی گئی تصحیح بھی تھی۔ اس کے علاوہ اصل ناموں اور تفصیلات کی صداقت کو برقرار رکھنے کے لیے پٹنہ کی لائبریری میں دستیاب دس ہزار صفحات پر مشتمل ‘داستانِ طلسم ہوشربا’ کو بھی پڑھا ۔
اپنے خطبہ استقبالیہ میں فیکلٹی آف آرٹس کے ڈین پروفیسر امتیاز حسنین نے راہی کی میراث اور سیما صغیر کی محنت کو یاد کیا۔پروگرام کی نظامت ڈاکٹر شہباز علی خاں نے کی۔
٭٭٭٭٭٭
ہینڈ واشنگ ڈے
علی گڑھ، 18 اکتوبر: جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج، اے ایم یو کے شعبہ کمیونٹی میڈیسن کے زیر انتظام چلنے والے رورل ہیلتھ ٹریننگ سینٹر (آر ایچ ٹی سی)، جواں کے علاقہ میں 15 اکتوبر کو ‘گلوبل ہینڈ واشنگ ڈے’ کے موقع پر صحت مذاکرہ اور دیگر بیداری پروگراموں کا اہتمام کیا گیا۔
ایس ایم پی ہائر سکنڈری اسکول، جواں میں بیداری پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر سائرہ مہناز (چیئرپرسن، شعبہ کمیونٹی میڈیسن) نے ہاتھوں کو سینیٹائز کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے کہا: جب لوگ ہاتھوں کو دھوئے بغیر آنکھ، ناک اور منہ کو چھوتے ہیں اور ہاتھ صاف کیے بغیر کھانا پکاتے یا کھاتے ہیں تو نقصان دہ جراثیم ایک شخص سے دوسرے شخص یااشیاء کی سطح سے لوگوں میں پھیل سکتے ہیںاور انھیں بیمار کرسکتے ہیں۔
ڈاکٹر عظمیٰ ارم (ممبر انچارج، آر ایچ ٹی سی) نے بچوں کو ہاتھوں کی صفائی کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کیا۔
ڈاکٹر اسماء آفتاب اور ڈاکٹر ابصار احمد نے اسکولی طلباء سے خطاب کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ کس طرح صابن اور پانی سے ہاتھ دھونا جراثیم کو دور کرنے، بیمار ہونے سے بچنے اور جراثیم کو دوسروں تک پھیلنے سے روکنے کا بہترین طریقہ ہے۔
ڈاکٹر تبسم نواب نے پوسٹرز بنانے کے لیے انٹرن کی رہنمائی کی۔
اسی طرح شہر کے امیر نشاں علاقہ میں واقع جیوتی کرن فاؤنڈیشن ایجوکیشنل سینٹر میں اے ایم یو کے ہوم سائنس شعبہ کے اساتذہ اور طلباء نے بچوں کے لیے ایک بیداری پروگرام کا اہتمام کیا۔
پروفیسر فرزانہ علیم (چیئرمین، ہوم سائنس شعبہ) نے بتایا کہ انڈر گریجویٹ طلباء نے لوگوں کو اپنے ہاتھوں کو دھونے کی ضرورت کے بارے میں بتایا اور انہیں اپنے اردگرد صفائی کا اہتمام کرنے کی ترغیب دی۔ انھوں نے گھر اور محلے میں ہاتھوں کی صفائی کی عادت کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنے پر زور دیا۔
Comments are closed.