Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل؟

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی۔ بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد

پیشاب کے قطرات کا شک
سوال:- میری عمر ستر سال سے زیادہ ہے ، مجھے بار بار پیشاب ہوتا ہے اور پیشاب کے قطرات بھی آتے رہتے ہیں ، بہت سی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وضوء کرچکے ، اس سے پہلے استنجاء کیا تھا ، وضوء کے بعد کپڑے پر تری نظر آتی ہے اور شبہ ہوتا ہے کہ شاید پیشاب کے قطرات ہوں ، ایسی صورت میں میرے لئے کیا حکم ہے؟ (عبد الواحد، ہمایوں نگر)
جواب:- آپ نے جو مسئلہ دریافت کیا ہے ، اس کی تین مختلف صورتوں سے الگ الگ احکام متعلق ہیں ، پہلی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ پیشاب کے قطرات اس تسلسل سے آتے ہوں کہ ان سے بچتے ہوئے وضوء کرکے نماز ادا کرنا ممکن نہ ہو ، تب تو ایسا شخص شرعا معذور ہے ، جب نماز کاوقت شروع ہو ، وضوء کرلے ، نماز کا وقت ختم ہونے تک درمیان میں پیشاب کے قطرات آبھی جائیں تو وضوء باقی سمجھا جائے گا اور اس کے لئے نماز پڑھنا اور قرآن مجید چھونا وغیرہ جائز ہوگا ، — دوسری صورت یہ ہے کہ اتنا زیادہ پیشاب کے قطرات نہیں آتے ، البتہ کثرت سے پیشاب کے قطرہ کے بارے میں شبہ ہوتارہتا ہے ، ایسی صورت میں استنجاء سے فارغ ہونے کے بعد شرمگاہ پر یا کپڑے پر پانی کا چھڑکاؤ کرلے ، تاکہ وسوسہ نہ ہو ، وضوء کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ اس کی وجہ سے شک میں پڑنا چاہئے ، — تیسری صورت یہ ہے کہ کبھی کبھی ایسا شک پیدا ہوتا ہو ، ایسی صورت میں دوبارہ وضوء کرلینا واجب ہے :رأی البلۃ بعد الوضوء سائلا من ذکرہ یعید ، وإن کان یعرض کثیرا أو لا یعلم أنہ بول أو ماء لا یلتفت إلیہ وینضح فرجہ أو إزارہ بالماء قطعا للوسوسۃ (فتاویٰ بزازیہ: ۱؍۱۳)

جنابت کی حالت میں سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کرنا
سوال :- کیا بیمار پر دم کرنے کے لئے حائضہ عورت اورجس شخص کو غسل کی ضرورت ہو ، وہ سورۂ فاتحہ کی تلاوت کرسکتا ہے ؟ ( عبدالباری، کھمم)
جواب :- سورۂ فاتحہ پڑھنے کی دو حیثیتیں ہیں ، ایک یہ کہ یہ قرآن مجید کی تلاوت ہے ، دوسرے :اس کی حیثیت دعاء کی بھی ہے ، قاعدہ یہ ہے کہ جس آدمی پر غسل واجب ہو ، وہ قرآن مجید کی تلاوت نہیں کرسکتا ؛ لیکن دعاء کرسکتا ہے ، اس لحاظ سے فقہاء نے اجازت دی ہے کہ بطور دعاء کے جنابت کی حالت میں سورۂ فاتحہ پڑھی جاسکتی ہے : الجنب إذا قرأ الفاتحۃ علی سبیل الدعاء لا بأس بہ ، و ذکر في غایۃ البیان : أنہ المختار (ہندیہ: ۵؍۳۱۷)

تصویر پر مشتمل موبائل کے ساتھ نماز پڑھنا
سوال:- موبائل کے اندر فوٹو وغیرہ رہتا ہے ، اس کو جیب میں رکھ کر نماز وغیرہ پڑھنا درست ہے یا نہیں ؟ (محمد شاہ نواز، حمایت نگر)
جواب:- ڈیجیٹل فوٹو کے بارے میں اگرچہ اس عہد کے علماء کی آراء مختلف ہیں ، بعض اس کو عکس سمجھتے ہیں اور جائز قرار دیتے ہیں اور بعض کے نزدیک یہ بھی تصویر ہے ؛لیکن بہر حال احتیاط یہی ہے کہ موبائل میں تصویر کشی سے بچاجائے ، اگرچہ وہ غیر محرم کی تصویر نہ ہو ؛ لیکن نماز کے سلسلہ میں تفصیل یہ ہے کہ اگر موبائل کے اندر تصویر محفوظ ہو ، مگر اسکرین پر نمایاں نہ ہو تو موبائل رکھ کر نمازپڑھنے والے کا حکم تصویر رکھ کر نماز پڑھنے والے کا نہیںہے ، اور اگر اسکرین پر تصویر نمایاں ہو تو پھر یہ تصویر کے ساتھ رکھ کر نماز پڑھنے کی نوعیت ہے ، باوجودیکہ اس سے بچنا ممکن ہے ؛ اس لئے ایسا کرنا مکروہ ہوگا ، اس سے ضرور بچنے کا اہتمام کرنا چاہئے ۔

اگر بوڑھاپے میں نکاح کرلے تو ولیمہ کا حکم
سوال:-اگر کوئی شخص بیوی کے انتقال کے بعد عمرکے آخری حصہ یعنی ۶۰/سال میں عقد ثانی کرے تو کیا اس کا ولیمہ واجب ہوگا؟ جب کہ پہلی شادی میں ولیمہ ہو چکاتھا۔ (محمد کمال الدین، سنتوش نگر )
جواب:- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر کے آخری دو تین سالوں میں بھی کئی نکاح فرمائے ہیں، حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ، حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ، حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آخری نکاح کرکے ولیمہ کا اہتمام ہوا ہے اور ان میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولیمہ کرنا ثابت ہے (بخاری: ۲؍۷۷۷)اس لیے جب بھی نکاح کرے ولیمہ کا اہتمام کرنا چاہئے ، البتہ ولیمہ واجب نہیں ، سنت ہے اور ولیمہ کرنے میں ثواب ہے، چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے : شادی کا ولیمہ سنت ہے ، اس میں بہت ثواب ہے ، جب مرد عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کرے تو مناسب ہے کہ پڑوسیوں ، رشتہ داروں اور دوستوں کو دعوت دے ان کے لیے جانور ذبح کرے اور ان کے لیے کھانا بنائے (ہندیہ: ۵؍۳۴۳)تاہم جانور ذبح کرنا ضروری نہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا بھی ولیمہ فرمایا ، جس میں نہ روٹی تھی نہ گوشت (موطا امام مالک: ۱؍۳۷۱) اس لیے ولیمہ میں بہت تکلف کی ضرورت نہیں ۔

مہر ادا کرتے وقت گواہوں کا ہونا
سوال:-مہر اداکر نا ہو تو کیا گواہوں کا ہونا ضروری ہے؟ کیا تنہائی میں بیوی کو شوہر مہر ادا کرسکتا ہے ؟
(محمد اشرف، کولہا پور)
جواب:- پوشیدہ اور علانیہ ہر دو طریقے سے مہر ادا کرنا درست ہے ، تاہم اگر بیوی کی جانب سے انکار کا اندیشہ ہو تو بہتر ہے کہ دو مرد یا ایک مرد اور دو عورت کی موجودگی میں مہر ادا کرے ، تاکہ انکار کی صورت میں شوہر گواہوں کے ذریعہ اپنے مدعی کو ثابت کرسکے ، صاحب ہدایہ فرماتے ہیں : و ما سوی ذالک من الحقوق یقبل فیہا شہادۃ رجلین أو رجل وامرأتین ، سواء کان الحق مالاً أوغیر مالٍ مثل النکاح والطلاق (ہدایہ: ۳؍۱۳۸)

شیئر سرٹیفکٹ اور متعین نفع
سوال:-میں ایک رئٹائرڈ سرکاری ملازم ہوں ، میری پنشن بہت قلیل ہے ، موجودہ گرانی میں اس قدر قلیل پنشن پر گزر بسر کرنا دشوار بلکہ نا ممکن ہے ، میں نے ملازمت کے زمانے میںکچھ روپیہ پس انداز کر لیا تھا ،تاکہ بڑھاپے میں کام آئے ، اس وقت میری عمر ۷۴ سال ہے اور اب میں اس قابل نہیں کہ خود کوئی کام کر کے روپیہ حاصل کروں ، کیا اس صورت میں میں حکومت کے جاری کردہShare Certificat (شیئر سرٹیفکٹ) خریدسکتا ہوں؟ اس کے لیے شرعی نوعیت کیا ہے ؟ یہاں بڑی حد تک روپیہ محفوظ رہنے کی طمانینت حاصل ہے ، اس موقع پر عرض کر دیتاہوں کہ حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒنے بینک کے سود کے جائز ہونے کا فتوی دیا ہے بشرطیکہ بینک غیر مسلموں کی زیر نگرانی ہو ،ایک مسلمان صاحب جو ایک دولتمند تاجر ہیں اور قابلِ اعتماد ہیں ، میرا روپیہ کاروبار میں شریک کرنے پر آمادہ اور تیار ہیں اور سرمایہ پر ۱۸؍فیصد نفع دینے کا وعدہ کرتے ہیں ، یعنی اگر میں ان کو ۱۰۰۰۰ روپے دوں تو وہ مجھے 150 روپے ماہانہ نفع دیں گے ،ان کا کہنا ہے کہ ان کے لیے ہر ماہ حساب کر کے نفع کا تعین کرنا دشوار ہے اور حساب کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ 10000روپے پر 150 روپے ماہانہ سے زیادہ نہیں آتا ہے ، کیا شرعا یہ جائز ہے ؟ اور اگر جائز نہیں ہے تو جواز کی کوئی صورت بتلائی جائے ، مسلمان کاروبار کرنے والے تو بہت سے ہیں مگر مجھے یہ لکھتے ہوئے افسوس اور شرمندگی ہوتی ہے کہ مسلمانوں میں دیانتداری کا فقدان ہے ، اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر بمشکل بھروسہ کر سکتا ہے ، صورت حال صرف میرے ہی ساتھ خاص نہیں ہے ، بلکہ میری طرح بہت سے مسلمان روپے رکھنے کے باوجود پریشان ہیں اور علماء جو مسائل پر اچھی نظر رکھتے ہیں ، کوئی حل پیش کرنے سے اپنے آپ کو عاجز پاتے ہیں ، از راہ کرم اس استفسار کا مفصل جواب عنایت فرمائیں ، ممنون ہوں گا۔( محمد نواز، ہائی ٹیک سیٹی)
جواب:- آپ نے جو صورت حال لکھی ہے ، علماء نے اس قسم کے مسائل کے حل بتلائے ہیں ، لیکن ظاہر ہے کہ ہم وہی بتا سکتے ہیں، جو شریعت کی قائم کی ہوئی حدود کے اندر ہوں ، قصور نہ اسلام کا ہے ، نہ علماء کا ، اس ظالم نظام زندگی کا ہے ، جس نے پوری معیشت کے رگ و ریشہ میں خون کی طرح سود و قمار کو داخل کر دیا ہے ، اب ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارا فریضہ ہے کہ ہم ان آزمائشوں میں بھی خدا کی قائم کی ہوئی حدود کو نہ توڑیں اور قومی سطح پر ایسے ادارے اور کاروبار قائم کرنے کی کوشش کریں ، جن میں سود و قمار کی لعنت میں مبتلا ہوئے بغیر مسلمان اپنی سرمایہ کاری کر سکیں ، آپ نے دو سوالات کئے ہیں ’’ایک شیئر سرٹیفکٹ اور دوسرے ایک نجی کاروبار میں شرکت کے متعلق ‘‘ان دونوں مسئلوں کے بارے میں اصولی طور پر یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ایک شخص اپنا سرمایہ لگائے اور دوسرا شخص محنت کرے اور نفع متعینہ تناسب سے دونوں میں تقسیم کردیا جائے ، اس کو فقہ کی اصطلاح میں ’’ مضاربت ‘‘ کہا جاتا ہے ، مضاربت میں ضروری ہے کہ نفع میں فریقین شریک رہیں، اور نقصان سرمایہ کا ر برداشت کرے، سود اور مضاربت میں یہی فرق ہے ، سود میں سرمایہ کے لیے بہر صورت نفع متعین ہوتا ہے ، اور مضاربت میں وہ نفع اور نقصان میں دونوں شریک ہوتا ہے ، دوسرے سود جس طرح مسلمانوں سے لینا جائز نہیں ہے ، اسی طرح غیر مسلموں سے بھی لینا جائز نہیں ہے ،سود جس وقت حرام کیا گیا ، اس وقت حضرت عباس ص کا سودی کاروبار زیادہ تر غیر مسلموں سے تھا ، لیکن ان کا اصل سرمایہ باقی رکھتے ہوئے سود ایک لخت کالعدم کر دیا گیا ، (مسلم، حدیث نمبر:۲۹۵۰) اس لیے تمام علماء ہند کا فتوی ہے کہ ہندوستان میں سود لینا جائز نہیں ہے ، حضرت مفتی شفیع صاحب ؒ کی تحریر اس باب میں بڑی شافی اور اطمینان بخش ہے،(جواہر الفقہ:۳؍۵۷-۴۲) امام اعظم ابو حنیفہ ؒ سے حربی سے سود لینے کا جواز منقول ہے ، مگر فقہاء نے دار الحرب کی جو تعریف کی ہے اور احکام بتلائے ہیں ان کی روشنی میں ہندوستان کو دار الحرب نہیں کہا جاسکتا ، (جدید فقہی مسائل:۲؍۲۳۴) آپ کے اصل سوالات کے جوابات یہ ہیں :
(الف) شیئر سرٹیفکٹ اگر اس اصول پر مبنی ہو کہ نفع اور نقصان دونوں میں آپ شریک ہوں گے ، تو خریدنا جائز ہے ، ویسے مجھے معلوم نہیں کہ اس سرٹیفکٹ کی کیا حیثیت ہوتی ہے ۔
(ب) ماہانہ150کی رقم متعین کردینا درست نہیں ، یہ ہوسکتا ہے کہ ہر ماہ اوسطا 150 دیدیں پھر حساب کر کے مزید رقم نکلے تو آپ کو ادا کردیں اور اس سے کم ہو تو بقیہ آپ سے لے لیں ۔

تعمیری منظوری کے لئے رشوت اور اس میں سود
سوال:- مکان کی تعمیر کی منظوری بغیر رشوت دئے نہیں ملتی ، کیا میں بینک کے سود میں سے رشوت دے کر کام نکال سکتا ہوں ؟ ( محمد نعیم الدین، بورہ بنڈہ)
جواب:- تعمیر مکان کے لئے جو قانونی لوازم ہیں، ان کو پورا کرنے کے باوجود کوئی افسر محض رشوت کے لئے تعمیر مکان کی اجازت نہیں دیتا ہے تو ایسی صورت میں اپنا جائز حق حاصل کرنے کے لئے رشوت دینا جائز ہے : دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم ولاستخراج حق لہ لیس رشوۃ (رد المحتار:۹؍۶۰۷)؛ البتہ اس میں سود کی رقم نہیں دی جاسکتی ، کیوں کہ سود کی رقم حکومت سے حاصل کی جاتی ہے ،اور رشوت ایک سرکاری آفیسر شخصی طور پر حاصل کرتا ہے ، حکومت حاصل نہیں کرتی ، اس لئے بینک کا سود اس مد میں دینا جائز نہیں ۔

مسجد کے سامنے غیر مسلم کی طرف سے جانور ذبح کرنا
سوال:- مسجد کے سامنے غیر مسلم کی جانب سے جانور ذبح کر ناکیساہے؟ (عبدالکریم،ملک پیٹ )
جواب:- اگر کوئی غیر مسلم اپنے کھانے پینے کے لئے جانور ذبح کرائے اورمسلمان ایسی جگہ اسے ذبح کرے جو مسجد کے سامنے ہو، تو حرج نہیں ، اگر غیر مسلم اللہ کے نام سے اور اللہ کی تعظیم میں مسلمان سے جانور ذبح کرائے تو یہ صورت بھی جائزہے ، اگر مسجد کے سامنے مسجد کے ڈھانچے کے احترام کے طور پر جانور ذبح کیا جائے تو یہ جائز نہیں ، کیوں کہ کسی بھی شخص یا شئے کی تعظیم میں جانور کا ذبح کر نا حرام ہے: ذبح لقدوم الأمیر ونحوہ کواحد من العظماء یحرم ؛ لأنہ أھل بہ لغیر اللہ ولو ذکر اسم اللہ تعالی (در المختار: ۴؍۷۴۹)

Comments are closed.