ماہ ربیع الاول کا پیغام

مفتی سہیل احمد قاسمی
صدرمفتی امارت شرعیہ پھلواری شریف ،پٹنہ
یہ ربیع الاول کا مبارک و مقدس مہینہ ہے ،اسی مہینہ کی وہ مبارک و مسعود تاریخ تھی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری ہوئی،آپ کی تشریف آوری پوری انسانیت کے لئے باعث رحمت و برکت تھی ،جس طرح قرآن مقدس رب العٰلمین کی طرف سے پوری انسانیت کے لئے علم و ہدایت کا سر چشمہ ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعٰلمیں ہیں ۔دنیا میں کون ایسا انسان ہے کس کو اللہ تعالیٰ نے عرش پر بلایا اور شرف کلام سے نوازا ،اور اپنی قدرت کی حیرت انگیز نشانیاں دکھائیں ،قرآن جیسی عظیم اور بے مثال کتاب دی جس کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہزاروں سال قبل دعا کی تھی ،حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جس کے آنے کی خوشخبری دی اور نام بھی بتایا۔
مشہور حدیثیں ہیں جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تشریف آوری ،بعثت اور اپنی رسالت و نبوت کی غرض و غایت بیان کی ہے مجھے دنیا میں کیوں بھیجا گیا ۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو غرضیں ارشاد فرمائیں انما بعثت معلما دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا بعثت لاتمم مکارم الاخلاقمیں دنیا میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں تاکہ تعلیم دوں ،دنیا کو جہالت سے نجات دلاؤں اور لوگوں میں علم آئے ،اس کے بغیر انسان کی زندگی نہیں سنور سکتی ۔
اور دوسری حدیث میں فرمایا : میں اس لئے بھیجا گیاہو ں تا کہ پاکیزہ اخلاق کا عملی نمونہ پیش کرکے انسانیت کو حسن اخلاق کا پیکر جمیل بنادوں ،دنیا کو تعلیم یافتہ بنائوں، جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر علم وعمل کی روشنی سے دل ودماغ کو منور کردوں،جیساکہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے، لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ(سورہ احزاب آیت ۲۱)۔
گویا آپ تعلیم و تربیت کے لئے دنیا میں تشریف لائے ،تعلیم کے ذریعہ علم پھیلتاہے اور تربیت کے ذریعہ اخلاق درست ہوتے ہیں،توحضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی دو غرضیں ہوئیں ۔ایک تعلیم یافتہ بنانا ،دوسرا اخلاق وکردار درست کرنا ۔اس کے بغیر دنیا کی کوئی قوم نہ باقی رہ سکتی ہے نہ ترقی کر سکتی ہے ،علم کے بغیر نہ انسان کی زندگی سنور سکتی ہے نہ ہی اخلاقی تربیت ہو سکتی ہے۔
قرآن مقدس میں اللہ رب العزت نے اپنے پیارے رسول رحمۃ للعلمین کے تین کاموں کو اہمیت سے بیان کیا ہے ،تلاوت کتاب ،تعلیم حکمت ،اور تزکیہ نفس، تلاوت آیات بینات سے انسان کے فکر و نظر کو منور کیا،تزکیہ سے قلب انسانی کو صاف کیا ،کتاب و حکمت کی تعلیم سے اس کو آراستہ کیا ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کاعظیم ترین کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے اچھائی کی دعوت دی ،برائی کو مٹانے کی جدوجہد کی، پاکیزہ اخلاق وکردار کا روشن وتابناک نظام قائم کر دیا ،اس کی شان یہ تھی کہ اساسی کلمہ کی روح زندگی کے تمام شعبوں میں یکساں سرایت کئے ہوئے تھی ، جس خدا کی عبادت مسجد کی چہار دیواری میں ہوتی تھی اسی کی اطاعت و فرمانبرداری کھیت کھلیان اور بازاروں میں ہوتی تھی ،جو قرآن نماز میں پڑھا جاتا تھا اسی قرآنی قانون کے ذریعہ عدالت میں معاملات کے فیصلے ہوتے تھے ،جو اخلاقی اصول گھروں کی محدود فضاء میں کارفرما تھے وہی بین الاقوامی طور پر چھائے ہوئے تھے،جن صداقتوں کی تعلیم منبر سے دی جاتی تھی انہی صداقتوں پر حکومت کا نظم و نسق چلتا تھا،گویا ان کا ظاہر و باطن بالکل صاف اور درخشاں تھا۔
یہ مہینہ ہمیں دعوت فکر و عمل دیتا ہے کہ ہم سوچیں اور جایزہ لیں کہ انسانیت تاریخ کے کس مرحلے سے گذر رہی ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں،سیرت نبوی کی مقدس کتاب کے بے شمار ابواب کو فراموشی کی سرزمین میں دفن کر دیا ہے ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ایک فرد کی نہیں ہے بلکہ ایک تاریخی طاقت کی داستان ہے جو ایک انسانی پیکر میں جلوہ گر ہوئی ،ایک عظیم اور بے مثال ہستی کی آپ بیتی ہے جو ایک اجتماعی تحریک کی روح رواں تھی ،ایک انسان کی نہیں ایک انسانیت ساز کی سیرت ہے ،سرور عالم کی سیرت غار حرا سے لے کر غار ثور تک ،حرم کعبہ سے لے کر طائف کے بازار تک ،امہات المؤمنین کے حجروں سے لے کر میدان ہائے جنگ تک دنیا کے چپے چپے اور عالم کے گوشے گوشے تک پھیلی ہوئی ہے ،جس کے تابندہ نقوش بے شمار افراد کی کتاب حیات کے اوراق کی زینت ہیں ۔
ابو بکر ،عمر ،عثمان و علی ،عمار و یاسر ،خالد و خویلد ،بلال و صہیب سب کے سب ایک ہی سیرت کے اوراق ہیں ،ایک چمن کا چمن ہے کہ جس کے لالہ و گل اور نرگس و نسترن کی ایک ایک پتی پر اس چمن کے مالی کی زندگی مرقوم ہے ،وہ قافلہ بہاری جس سرزمین سے گزرا ہے اس کے ذرے ذرے پر نکہت کی مہر ثبت کر گیا ہے ،آپ سیرت محمدی اور پیغام محمدی کے پورے چمن کو دیکھیں اور اس کی مجموعی تربیت کو سمجھیں پھر آپ کوا س کے اندر ایک ایک شاخ ایک ایک پتی کا مقام خود ہی سمجھ میں آ جائے گا ۔
سیرت کا مہینہ آتا ہے اور گزر جاتا ہے لیکن ہمارے اندر کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے ،جذبے انگڑائی نہیں لیتے ،عزم و ہمت کی رگوں میںنیا خون نہیں دوڑتا ،ذوق عمل میں نئی حرارت نہیں آتی اور ہماری زندگی کا جمود نہیں ٹوٹتا ،ضرورت اس بات کی ہے جو روشنی وہاں سے ملی ہے اس کے لئے دل و دماغ کے دریچے کھولیں ،کائنات کے روشن وتابناک کارنامے اور دعوت کا احیاء کریں ،حضورؐ کے قائم کردہ خطوط پر تبدیلی احوال کے لئے جد وجہد کریں اور نظام عدل و رحمت کو ٹھیک اسی عملی نقشہ پر استوار کریں جو قرآن کے اصولوں کو سامنے رکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عطا کیا ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قرآن مقدس کے ابدی اصولوں کی تفسیر ہے جسے عمل کی زبان میں مرتب کیاگیا ہے۔
ربیع الاول کے مہینے میں ہم مختلف پروگراموں کے ذریعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بے پناہ محبت و عقیدت کا اظہار کرتے ہیں،یہ تعلق اور محبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور آپ کی امت اجابت ہونے سے پیدا ہوا ہے ۔تو ہمیں غور کرنا ہے کہ ایمان کیا ہے ؟اس کے تین اجزاء ہیں ، اقرار با للسان ۔تصدیق بالقلب ۔عمل بالارکان ۔یعنی زبان سے اقرار کرنا ،دل سے اس پریقین کررکھنا اور عمل سے ثبوت پیش کرنا ،اب اگر ہم کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہیں تو یہ زبانی اقرار ہوا اور دل میں بھی اس کا پختہ یقین ہونا چاہئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ،اس کے بعد ہی ایمان کی تیسری منزل شروع ہوتی ہے جو عمل کی ہے ۔ہمیں دیکھنا ہوگا کہ جو کچھ زبان سے کہہ رہے ہیں اور جس کا دل میںیقین بھی رکھتے ہیں اس پر عمل بھی کر رہے ہیں یا نہیں ؟اگر عمل ہے تو ایمان بھی ہے اگر عمل نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ۔
ابو لہب ،آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا ہے ،خون کا رشتہ ہے ،مگر ایمان نہ لانے کی وجہ سے جہنم کا ایندھن بن گیا ہے ۔اور دوسری طرف ایمان اور پاکیزہ کردار و عمل کی بنیاد پر غلاموں کو سرداری ملی ،چنانچہ حضرت اسامہ بن زید ؓ کی سالاری اور امامت جہاد ،حضرت بلال حبشی ؓ کی عظمت و بلندی اور ہاشمی وقریشی صحابہ کے مابین ایک عجمی انسان حضرت ابوہریرہ ؓ کی جلالت و عظمت ،صہیب رومی ؓ اور سلمان فارسی ؓ کی رفعت و بلندی ،یہ محسن کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا مبہوت کر دینے والا کارنامہ ہے کہ انسان اندر سے بدل گیا اور یکسر بدل گیا ۔
اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ایمان نہ لانے کی وجہ سے جس طرح کوئی رشتہ کام نہیں آتا اسی طرح عمل کے بغیر ایمان بھی نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا ،قیامت کے دن ایمان ہی کو نہیں عمل کو بھی کو دیکھا جائے گا ،عمل ہی پر فیصلے ہوں گے ،اعمال ہی کو وزن کیا جائے گا ،باقی رشتے اور تعلقات سب بے وزن ہوں گے ،جب حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا ،حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد ،حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی اللہ کے غضب سے نہیں بچ سکے تو سوچنا چاہئے کہ ہمارا کیا حال ہوگا ۔ایک موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ سے فرمایا تھا کہ :تم اس خیال میں نہ رہنا کہ محمد ؐ کی بیٹی ہوں، قیامت میں اللہ تمہارے اعمال کو دیکھے گا ،اعمال ہی پر بخشش کا انحصار ہے لہذا عمل کرو ،عمل کرو۔
ہم نے کبھی غور کیا کہ جس عظیم شخصیت کا جشن منا رہے ہیں جس کے ذکر و فکر کی مجلسیں منعقد کر رہے ہیں ،اس کے اصولوں کو اپنانے میں ہم کہاں تک کامیاب ہیں ،حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اپنے مستقبل کی تباہی کا کوئی خوف نہیں ہے ،ہمارا ضمیر سو چکا ہے ،ہمارا احساس عمل فنا ہو چکا ہے ،ہماری روح ایمان کی روشنی سے محروم ہو گئی ہے ،ہماری صداقت و حق گوئی فنا ہوچکی ہے ،ان حالات میں کیا ہم اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ اس شان و شوکت سے آپ کا جشن منائیں ،سچ یہ ہے کہ ہم اس کے حقدار اس وقت تک نہیں ہو سکتے جب تک ہمارا عمل پیغام الٰہی کی تعمیل و اطاعت کی شہادت نہ دینے لگے اور ہم ہادی برحق کے اصول پر عمل پیرا نہ ہوں ،جب تک کہ ہم اپنے گم کردہ عظمتوں کو نہ سمجھنے لگیں۔
خواب غفلت اور بے عملی کی دلدل سے نکلئے ،جاگ جائیے ،بیدار ہوجائیے،بے عمل انسان کے الفاظ کسی کے لوح دل پر نقش نہیں بناسکتے، الفاظ زبان سے نکل کر کانوں سے ٹکراتے ہیں اور فضائوں میں گم ہوجاتے ہیں، دل تک تو صرف اس شخص کی آواز پہونچتی ہے جس کے الفاظ کے پردہ میں بے پناہ عمل کی قوت ہوتی ہے، جب تک انسان کی زندگی خود اسلامی اصولوں کی تفسیر نہ بن جائے کسی کو ان اصولوں سے دلچسپی پیدا نہیں کرائی جاسکتی ؟عمل میں ایک جاذبیت ،عمل میں بے معمولی کشش ہے اس کا اثرزیادہ گہرا اور پائدار ہوتاہے اور عمل کی کشش خود بخود لوگوں کو کھینچ لیتی ہے۔
آیئے!اس مبارک موقع پر ہم عہد کریں کہ ہم باوقار قوم کی حیثیت سے اسلامی شان اور اسلاف کی روایات کے ساتھ زندگی گزاریں گے ، کتاب و سنت کی روشنی میں پوری جرأت و ہمت کے ساتھ عمل پیرا رہیں گے ،اگر آپ نوجوان ہیں تووعدہ کیجئے کہ ہم صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلیں گے جنہوں نے عہد نبوی میں زندگی کے تمام شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں ،اگر آپ ضعیف ہیں تو آیئے حلف اٹھایئے کہ کتاب و سنت ہماری شاہراہ ہے ،ان کی تعلیمات ہماری رہبر ہے ،ہم اپنے بچوں اور نوجوانوں کے معمار کی حیثیت رکھتے ہیں ،ہم اپنی تمام صلاحیتیں اور اسباب وو سائل ان کے سنوارنے اور پروان چڑھانے میں صرف کریں گے ،انہیں عزم و حوصلہ اور تعلیم و تر بیت کے جوہر سے مالا مال کریں گے ۔آمین یا رب العٰلمین
Comments are closed.