ہماری بڑی امّی – رحمتوں کے سایہ میں!

بقلم: مفتی امدادالحق بختیار قاسمی
رئیس تحریر عربی مجلہ ’’ الصحوۃ الاسلامیۃ‘‘واستاذ حدیث وعربی ادب جامعہ اسلامیہ دار العلوم حیدرآباد – انڈیا۔
Mob: +91 9032528208- E-mail: [email protected]
عالم دنیا سے عالم آخرت کی طرف آمد ورفت کا سلسلہ قدرتی رفتار کے ساتھ برابر جاری وساری ہے، یہ ایک فطری، قدرتی اور الہی نظام ہے، دنیا کی کوئی طاقت اس نظام میں خلل نہیں ڈال سکتی؛ کیوں کہ خالق کائنات کی جانب سے ابدی اور آفاقی وارننگ ہے: كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ. (ہر جاندار کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے)لیکن اچھے، نیک، صالح، محسن، معاشرہ اور افراد کے لیے فائدہ مند شخصیات کی وفات پر رنج وغم اور حسرت و افسوس کا مظاہرہ ہونا یہ بھی ایک فطری عمل ہے۔
’’ خانوادہٴ حنیفی‘‘ بھی اسی طرح کے ایک حادثہ فاجعہ اور روح فرسا سانحہ سے دو چار ہوا، جب ہماری بڑی امی ایک مختصر سی علالت کے بعد ہم سب کو الوداع کہہ کر اپنے ربِّ رحیم کی نعمتوں اور اس کی رحمتوں کے سایہ میں ہمیشہ ہمیش کے لیے چلی گئیں، دنیا کے ہنگاموں سے منہ موڑ کر اللہ کی وہ نیک بندی زیر زمین اپنی ابدی خلوت گاہ کی طرف کوچ کرگئیں؛ تاکہ اپنے مولائے کریم کی کرم نوازیوں کا قریب سے مشاہدہ کر سکیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!
بڑے آرام سے ہوں گوشہٴ مدفن میں اے ہمدم سکونِ قلب سے لبریز پایا ہے یہ گھر میں نے
ہماری بڑی امی (مرحومہ رقیبہ خاتون بنت جناب عبد الرحیم بن حاجی بنیادی دبیاہی، مدھوبنی، زوجہ جناب امیر الحقؒ بن محمد حنیف پروہی، بسفی، مدھوبنی، بہار)انتہائی نیک، صالحہ، عابدہ، زاہدہ، صابرہ، شاکرہ، جفاکش اور بڑی پارسا خاتون تھیں، وہ ہمہ وقت یادِ الہی میں مشغول رہنے والی اللہ کی بندی تھیں، پنج وقتہ نمازوں کی پابند، تہجد کی خوگر، نوافل کا اہتمام کرنے والی، تسبیحات واذکار وارواد سے اپنی زبان کو ہر وقت تر وتازہ رکھنے والی، فرض کے ساتھ نفل روزں کو بڑے اہتمام سے رکھنے والی مثالی خاتون تھیں۔
آواز، انداز اور لب ولہجہ میں بلا کی نرمی، محبت اور ممتا تھی، اونچی آواز میں بات نہیں کرتی تھیں، جب بھی کوئی رشتہ دار یا شناسا ان کے گھر جاتا تو خندہ پیشانی سے استقبال کرتیں اور بہت محبت سے بیٹھنے کا اچھا سا انتظام کرتیں ، کچھ نہ کچھ ضیافت ضرور کرتیں، خاندان کا ہر فرد ان سے محبت رکھتا، کسی کی زبان سے ان کی کوئی شکایت نہیں سنی گئی، نہ انہیں کہیں غیر ضروری طور پر کسی سے الجھتے دیکھا۔
چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے
ہمارے بڑے ابّا جناب امیر الحق صاحب پر 2018ء میں فالج کا حملہ ہوا، جس کے بعد سے تا مرگ وہ فریش ہوگئے، حتی کہ اجابت بھی بستر پر ہی ہوتی، ہماری بڑی امی نے بڑے ابّا کے مرض وفات کے ان صبر آزما ایام (جو تین سال سے زائد پر محیط رہا)میں مثالی خدمت کا فریضہ انجام دیا، اسی دوران گھر کے آنگن میں گرنے کی وجہ سے بڑی اماں کا ایک ہاتھ بھی ٹوٹ گیا تھا؛ پھر بھی وہ ایک ہاتھ سے بڑے ابّا کی خدمت کرتی رہیں، اس تین سال کے عرصہ میں نہ جانے کتنی راتیں انہوں نے جاگ کر گزاریں، بڑے ابّا کے مزاج کو خوش اسلوبی سے برداشت کیا اور ایک فرمانبردار اور وفا شعار شریک حیات کا ثبوت پیش کیا، بڑے ابّا بیماری کے دنوں میں کبھی غصہ میں کچھ کہتے تو مسکرا کر ان کو جواب دیتیں، انہوں نے بڑے ابّا کی بے مثال خدمت کی، نہ اپنے آرام کا خیال کیا، نہ صحت کی پرواہ کی، نہ دن دیکھا، نہ رات دیکھی، مجسمہ کی طرح بستر پر پڑے اپنے شوہر کی ہر طرح کی خدمت ہی اللہ تعالی کے بعد ان کی سب سے بڑی عبادت تھی، جس میں وہ کسی طرح کی کوتاہی اور کمی کی روا دار نہ تھیں؛ حتی کہ بڑے ابّا کے گزر جانے کے بعد بھی اس نیک صفت خاتونِ جنت کو قرار نہیں آیااور وہ بھی اسی دنیا کو رحلت کر گئیں، جہاں ایک سال قبل ان کے محبوب شوہر کوچ کرگئے تھے۔
کڑے سفر کا تھکا مسافر، تھکا ہے ایسا کہ سو گیا ہے خود اپنی آنکھیں تو بند کرلیں، ہر آنکھ لیکن بھگوگیا ہے
ہمارا پرانا گھر بستی کے درمیان ہے، جہاں صرف بڑے ابا اور ان کے بچے رہتے ہیں، ہمارے اور دیگر چچاؤں کے مکانات بستی سے قدرے باہر پوکھر (تالاب) کے پاس ہیں، بڑے ابا مرحوم بھی اپنی حیات میں برابر پوکھر پر تشریف لاتے، سب کے گھر جاتے، بڑے اور بچے سب سے ملتے، سب کی خیریت معلوم کرتے، کوئی ان کو بڑے بھیّا، کوئی بڑے ابا اور کوئے بڑکے دادا کہہ کر بلاتا، سب کو ان سے بھی بہت محبت تھی، اسی طرح ہماری بڑی امی بھی وقفہ وقفہ سے پوکھر کا چکر لگایا جایا کرتی تھیں، سب کی خیریت معلوم کرتیں، سب بچوں کو دعائیں دیتیں، بڑوں کےساتھ کچھ کام کی باتیں اور مشورے ہوجاتے، وہ جب آتیں تو تمام گھروں میں خبر پھیل جاتی کہ بڑکی اماں آئی ہیں اور ان کی آمد کی خبر سے ایک خوشی کی لہر پھیل جاتی، سب انتظار میں دروازے کی طرف تکتے رہتے کہ اب بڑی اماں ہمارے یہاں آئیں گی ۔
ہائے افسوس ! اب نہ وہ بڑے ابا رہے، جن کی شفقت ومحبت ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رہتی تھی، جن کے انتظار میں ہماری نگاہیں اٹھی رہتی تھیں، جن کے آتے ہی بچوں میں شور ہو جاتا کہ بڑکے دادا، لاٹھی والے دادا آگئے، ملاقات پر جن کے چہرے کی خوشی اور اس خوشی کی چمک اور بے شمار دعاؤں سے ہم محظوظ ہوتے اور نہ ہی بڑکی اماں رہیں ، جن کے پاس جاکر ، ان سے باتیں کر کے ، ان سے پیار ومحبت کو اپنے دامن میں سمیٹ کر لاتے تھے، سفر پر جاتے ہوئے سب سے اخیر میں ان سے ملاقات ہوتی، بلائیاں لیتی اور ڈھیر ساری دعائیں دیتیں، ہائے! اب بوقت رخصت، عبد الرازق صاحب کی دکان تک الوداع کہنے کون آئے گا، اس گلی کے نُکّڑ پر اب کون انتظار میں رہے گا!
وہ گھر بھی ہمیشہ کے لیے اپنے سرپرست مکینوں کی جدائی پر رنج وغم کی خاموشی میں ڈوب گیا، اس کی دیواریں گریہ کناں ہیں، کنارے کھڑا وہ امرود کا پیڑ غم کی تصویر بنا ہوا ہے، جو کئی دہائیوں سے اس گھر کی نگہبانی کر رہا ہے، اس کے اچھے برے تمام حالات کا وہ عینی شاہد ہے، جس نے اپنی چھاؤں اور سایہ سے اس گھر کے مکینوں کو ایک زمانہ تک ٹھنڈک اور راحت عطا کی اور اپنے میٹھے پھل سے ہمیشہ ان کو محظوظ کیا ، آج وہ بھی اپنے مکینوں کے فراق میں آبدیدہ ہے۔
آج ہر چھوٹی بڑی آنکھ نم ہے، ہر دل درد اور غم کے بوجھ سے پھٹا جا رہا ہے، وہ اتنی جلدی ہمیں داغ مفارقت دے جائیں گی، ایسا اندازہ نہیں تھا، دو ہفتہ قبل بلڈ پریشر کی وجہ سے ان کی طبیعت ناساز ہوئی ، گاؤں کے ڈاکٹروں نے پہلے علاج ومعالجہ کی کوشش کی؛ لیکن انہوں نے حالت دیکھ کر آگے ریفر کر دیا، لہذا پھر زیرو مائل پر کسی دوا خانے میں داخل کیا گیا، وہاں تقریباً ایک ہفتہ تک علاج جاری رہا، لیکن ’’ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ نہ صرف یہ کہ کوئی افاقہ نہیں ہوا؛ بلکہ بیماری کی صورت حال پہلے سے زیادہ ابتر ہوگئی؛ لہذا مشورہ سے دربھنگہ گورنمنٹ ہاسپیٹل میں داخل کرایا گیا؛ وہاں ماہرین ڈاکٹروں کی زیر نگرانی علاج شروع ہوا؛ لیکن رپورٹس مایوس کن تھیں، معاملہ تقریباً ہاتھ سے نکل چکا تھا، ڈاکٹروں نے اپنی مقدور بھر پوری کوشش کی؛ لیکن تدبیر پر تقدیر غالب رہی اور 19/ ربیع الاول 1444ھ مطابق 16/ اکتوبر 2022ء ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب ساڑھے بارہ بجے اپنے مالک حقیقی سے جاملیں، اس طرح ’’خانوادہ حنیفی‘‘ کا ایک اور شجر سایہ دار ہمیشہ کے لیے صفحہ ہستی سے روپوش ہوگیا۔رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ!
ہم سب کے لیے یہ انتہائی جان کاہ اور درد انگیز حادثہ تھا، آناً فاناً پورے حلقہ میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی اور سب کو اشک بار کر گئی، تقدیر الہی کے سامنے تسلیم واطاعت کا سر جھکائے بغیر چارہ نہیں تھا؛ لیکن شدت غم کی وجہ سے حواس باختہ ہوچکے تھے، جسم ماؤف ہوگیا تھا، کلیجہ منہ کو آیا چاہتا تھا، آنکھوں کے بند آنسووں کے سیل رواں کے سامنے ہار مان چکے تھے۔ مرحومہ کے پس ماندگان نصرت پروین عرف نصو باجی، رابعہ باجی، مولانا حشمت اللہ صاحب اور ناصر بھائی کے ساتھ پورے خاندان پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا، چچا جان جناب مجیب الحق، جناب عزیز الحق اور مولانا ظہیر الحق صاحب کی حالت غیر تھی۔
اتوار کے دن ہی مغرب کے بعد نماز جنازہ ہوئی، آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت مولانا حشمت اللہ صاحب (فاضل جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد واستاذ مدرسہ ابو بکر صدیق، شمس آباد، فرخ آباد، کانپور، یو پی)نے نماز پڑھائی اور گاؤں کے جنوب والے جدید قبرستان میں نم آنکھوں، لرزتے ہاتھوں اور مغموم دلوں کے ساتھ انہیں ہمیشہ ہمیش کے لیے سپرد رحمت کر دیا گیا۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے سبزہٴ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
ہمارے بڑے ابّا کی وفات بھی سال گزشتہ اسی ماہ ربیع الاول میں ہوئی تھی، ان کی تاریخ وفات: 23/ ربیع الاول 1443ھ مطابق 30/ اکتوبر 2021ء ہے ۔ صرف تین یوم کم ایک سال بعد بڑی اماں بھی ملک عدم کو رخت سفر باندھ گئیں اور اسی قبرستان میں آسودہ خواب ہوگئیں، جہاں ایک سال قبل بڑے ابّا کی ابدی آرام بنی تھی، اسی قبرستان میں ہمارے دادا، دادی، ہمارے والد حضرت مولانا محب الحقؒ، ہماری پھوپھی سلیمہ خاتون اور خاندان کے دیگر بڑے اللہ کی رحمتوں کے سایہ میں آرام فرما رہے ہیں، اللہ پاک ان سب کی قبروں کو جنت کا نمونہ بنائے، آمین!
بڑی اماں کی بیماری کے ایام میں نصو باجی(محترمہ نصرت پروین)، ان کی چھوٹی صاحبزادی ملکہ، مولانا حشمت اللہ صاحب نے بڑی خدمت کی اور صالح اولاد کا فریضہ انجام دیا، ان دنوں ناصر بھائی حیدرآباد میں تھے،لیکن وہ بڑے بے چین تھے، والدہ کی خدمت کے لیے جانے کو بے قرار تھے؛ لیکن مریضہ کے پاس موجود حضرات انہیں تسلی دیتے رہے کہ والدہ ٹھیک ہو جائیں گی، آنے کی ضرورت نہیں؛ کیوں کہ کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ بڑی امی اتنی جلدی داغ مفارقت دے جائیں گی؛ مگر مرحومہ کی طبیعت جب مایوس کن مرحلہ میں پہنچ گئی تو ناصر بھائی اوررابعہ باجی نے گھر جانے کے لیے فلائٹ سے ٹکٹ بک کرالیا تھا؛ لیکن ان کا سفر شروع ہونے سے قبل ہی مرحومہ جوارِ رحمت میں پہنچ گئیں؛ تاہم اللہ کی توفیق سے آخری زیارت اور جنازہ وتدفین میں شرکت کی سعادت سے وہ بہرہ ور ہوئے۔ اللہ تعالی تمام پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان سب کو مرحومہ کے لیے بہترین صدقہ جاریہ بنائے، آمین!
Comments are closed.