بیوی پر اپنے شوہر کی اطاعت واجب ہے؛ لیکن۔۔۔

 

از: قاضی محمدفیاض عالم قاسمی

8080607348

میاں بیوی میں سے ہر ایک گاڑی کے دوپہیوں کی طرح ہیں، کسی ایک کے بغیرزندگی کی گاڑی ادھوری اورنامکمل ہے۔ اوردونوں کی اپنےاپنے مقام پر اہمیت ہے۔تاہم قرآن کریم نےمردوں کو  عورتوں کا سربراہ اور ذمہ داربنایاہے؛اور عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ  وہ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنے سربراہ کی بات مانیں اور بیوی ہونے کی حیثیت سے جو مخصوص خانگی  ذمہ داریاں ہیں، ان کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ  مردحضرات  عورتوں پرنگراں  ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس لئے کہ مرد ان پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ جو عورتیں نیک ہیں وہ اپنے شوہروں کا کہنا مانتی ہیں اور اللہ کے حکم کے موافق نیک عورتیں شوہر کی عدم موجودگی میں اپنے نفس اور شوہر کے مال کی حفاظت کرتی ہیں،ان میں کسی قسم کی  خیانت نہیں کرتی ہیں۔ (سورۂ النساء ۳۴)

اسی طرح دوسری آیت میں ارشادہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد وں کو عورتوں  پرایک گونہ  فوقیت وفضیلت دی ہے۔ (سورۃ البقرۃ: ۲۲۸)یعنی عام انسانی حقوق میں شوہر و بیوی دونوں برابر ہیں ، جیسے جان ومال ، عزت و آبرو کا تحفظ ، عزت و احترام ، ایک دوسرے کے  جذبات کا لحاظ وغیرہ ؛ البتہ شوہر و بیوی کے کچھ مخصوص حقوق ان کی ضروریات کے لحاظ سے رکھے گئے ہیں ، ان حقوق میں مردکی حیثیت صدرِ خاندان کی ہے اور اس میں مرد کو ایک گونہ فوقیت حاصل ہے ، گویا کہ مساوات بنیادی انسانی حقوق اور حقوق کی ادائیگی میں ہے ، نہ کہ تمام اُمور میں ؛ کیوں کہ دونوں کی فطری صلاحیتیں اور فطری ضرورتیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔(آسان تفسیرقرآن کریم، ازمولانا خالدسیف اللہ رحمانی)

مَردوں کو ایک گونہ فضیلت دینے کی ایک وجہ ہے کہ کسی بھی  نظام کوچلانے کے لئے کسی کاسربراہ ہوناضروری ہے، کوئی ملک، کوئی شہر،کوئی کمپنی، کارخانہ، اسکول وکالج،اورمدرسہ وغیرہ بغیر کسی سربراہ کے نہیں چل سکتاہے،ہر ادارے میں بعض اعلیٰ عہدوں پر رہتے ہیں اوربعض اپنے عہدوں پر رہتے ہوئےدوسرے  کی ماتحتی میں رہتے ہیں، ایک بہترین نظام چلانے کے لئے یہ ضروری ہے،اللہ تعالیٰ  کسی کو بادشاہ بناتاہے اورکسی کورعایا، کسی کو صدربناتاہے اورکسی کو حاکم، اسی طرح ایک گھرکے نظام کو چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مردوں کوقوام یعنی  سربراہ بنایاہے۔پس  اس کاتقاضہ ہے کہ ان کی بات مانی جائے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی معاملات کو درست چلانے ، عورت کی حفاظت کرنے اوراس کی ضروریات کو پوراکرنے کامکمل ذمہ دار اور کفیل مرد کو بنایاگیاہے۔ایک گھر چلانے میں جتنے اخراجات ہوتے ہیں وہ سب مرد پر ہیں،اس احسان کابدلہ یہ ملناچاہئے کہ مردکی اطاعت کی جائے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: اگر عورت نے پانچ نمازوں کی پابندی کی، ماہ رمضان کے روزے اہتمام سے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی اور اپنے شوہر کی اطاعت کی تو گویا وہ جنت میں داخل ہوگئی۔ (مُسند احمد:١۶۶١)

ناجائز امورمیں شوہرکی اطاعت واجب نہیں:

شوہرکی اطاعت کرنے میں یہ بات یادرہے کہ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے شوہرکی اطاعت واجب ہے، اگر شوہرشریعت کے خلاف کسی چیزکاحکم دے تو مانناگناہ ہے، مثلااگرشوہرنے کہاکہ اپنے ماں باپ یابھائی بہن سے بات مت کر، یاکبھی بھی میکہ  نہ  جا، یاپردہ مت کر،یااس کوکوئی دوسراگناہ کرنےکا حکم کرے تو ان کی اطاعت جائزنہیں؛کیوں کہ   کسی بھی مخلوق کی  اطاعت خالق کی نافرمانی کے ساتھ جائزنہیں۔حضرت نواس بن سمعان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایاکہ خالق کی نافرمانی کرتے ہوئے کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔(مشکوۃ المصابیح:٣۶۹۶)

جنسی خواہش کے تعلق سے شوہرکی اطاعت:

خاوند کا بیوی پر حق ہے کہ وہ بیوی سے شریعت کے دائرہ  میں رہتے ہوئے جنسی  خواہش کی تکمیل کرے،کیو ں کہ نکاح کامقصد یہی ہے۔پس عورت پر واجب ہے کہ وہ اپنے آپ کوعقد نکاح  کے بعداپنے شوہرکےسپردکردے۔ جب شوہرکو جماع کرنے کی خواہش ہوتو جب تک کوئی شرعی یاطبعی  عذرنہ ہو منع نہ کرے۔نبی کریم ﷺ کاارشادہے کہ    بیوی اگر تنور کے پاس بھی ہواور اس کاشوہر اپنی ضرورت کے لیےاسے بلائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ ضرور حاضر ہو۔ (ترمذی:۱۱۶۰)

نبی اکرم ﷺنے شوہر کی نافرمانی کرنے پر وعید سناتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ  جب مرد اپنی بیوی کو بلائے اور وہ نہ آئے جس کی وجہ سے مرد اس سے ناراض ہوکر رات گزار دے تو ایسی صورت حال میں اس عورت پر صبح تک فرشتے لعنت بھیجتے ہیں۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر:١٤٣۶)

بیوی سےفطری طریقے پر جنسی لطفی اندوزی جائزہے،قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کاارشادہے:تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں ، تو اپنی کھیتی پرجس طرح چاہو آؤ ، اورآئندہ کے واسطے بھی عمل کرتے رہو ، اﷲتعالیٰ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ تم لوگوں کو یقیناً اﷲ سے ملنا ہے نیز ایمان والوں کو خوشخبری سنادیجئے۔(سورۃ البقرۃ:٢٢٣)

اس آیت کی تشریح حضرت سعیدبن جبیر رضی اللہ عنہ سے اس طرح مروی ہے کہ بیوی سے آگےکی طرف سے، پیچھے کی طرف سےآگے کے راستہ میں، دائیں ، بائیں، چت لیٹ کر، پیٹ کے بل لٹاکر،کھڑے ہوکر، بیٹھ کر ہر طرح سےلطف اندوزی جائز ہے،(مصنف ابن ابی شیبۃ:١۶۶۷٢)؛البتہ  غیرفطری طریقے پر یعنی پاخانہ کے مقام پر صحبت کرناحرام ہے۔نبی کریم ﷺ نےارشادفرمایاکہاپنی بیویوں سے پیچھے کی راہ میں صحبت مت کرو،اللہ تعالیٰ چوں کہ حق بات کہنے سے نہیں شرماتے ہیں اس لئے اس کی وضاحت کی جارہی ہے۔ دوسری  میں ہے کہ  اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی طرف رحمت کی نظر سے نہیں دیکھتے ہیں جو اپنی بیوی سے پیچھے کےمقام پر صحبت کرتے ہیں۔(ترمذی:١١۶٥-١١۶٤)اس کے علاوہ آج کل بعض شہوت پرست مردوعورت ایک دوسرے کی شرمگاہ کو منہ میں لیتے ہیں، یہ سب غلط اورگھناؤنی  حرکتیں ہیں،اس سےبہت ساری خطرناک بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ اس لئے  ان سےبچناچاہئے۔

صحبت کرنے کا مسنون  طریقہ:

صحبت کرنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ عورت پیٹھ کے بل لیٹے اورمرد اس کے اوپر سے صحبت کرے۔اورکوئی  کپڑااوپر سے ڈھانک لے، بالکل ننگانہ ہو، صحبت کے بعد وضوکرلے، یااسی وقت غسل جنابت کرلے، دیرتک  ناپاک نہ رہے۔صحبت کرنے سے پہلےصحبت کرنے اورانزال کے وقت کی دعاء بھی پڑھ لے۔

صحبت کرنے کا بہتراورنامناسب وقت:

بیوی سے ہر وقت اورہر دن صحبت کرناجائز ہے،مگرصحبت کرنے کابہترین  وقت تہجد کے وقت سے پہلےکاوقت ہے، یعنی رات کاآخری پہرہے۔ البتہ جانکار حضرات کہتے ہیں کہ چاندکے مہینے کااول وآخر اوردرمیانی  شب یعنی چودہویں رات  کو صحبت کرنے سے بچناچاہئے، کیوں کہ ان دنوں میں جنات اورشیطانوں   کی شرارت بڑھ جاتی ہے،ایسے لوگوں پر وہ حملہ کرسکتے ہیں۔

ایام حیض میں صحبت کرنا:

مانع حمل عورت جب ماہواری میں ہوتی  اس دوران اس سے صحبت کرناحرام ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشادفرمایاکہ لوگ آپ سے حیض کا حکم دریافت کرتے ہیں ، کہہ دیجئے کہ وہ گندگی ہے ؛ لہٰذا زمانۂ حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک عورتیں پاک نہ ہوجائیں ، ان سے الگ ہی رہو ( یعنی ) پاک ہونے تک ان سے صحبت نہ کرو ، پھر جب پاک ہوجائیں تو جس مقام سے اﷲ نے تم کو اجازت دی ہے ، اسی راستہ سے ان سے صحبت کرسکتے ہو ، بے شک اﷲ خوب توبہ کرنے والوں اور خوب پاک رہنے والوں کو پسند کرتے ہیں ۔(سورۃ البقرۃ:٢٢٢)اگر خدانخواستہ کسی نے صحبت کرلیاتوگناہ ہوا، اس گناہ سے توبہ واستغفارکرناچاہئے ، بہتر ہے کہ دوچارسوروپئے صدقہ بھی  کردے۔(فتویٰ دارالعلوم دیوبند:1079/ب/996=ب)

مانع حمل دوائی یا آلہ  استعمال کرنا:

نکاح کاایک مقصد توالد وتناسل  یعنی اولاد پیداکرنا اورنسل انسانی  کو بڑھانا بھی ہے، اس لیےحمل ٹھہرنے کے ڈرسےعزل  یعنی باہر انزال کرنا،کنڈوم ،کوپر ٹی، لوپ وغیرہ یا دوائی  استعمال کرنا،یا اس کے علاوہ اورکوئی دوسراطریقہ اختیارکرناجائز نہیں ہے۔البتہ اگر بیوی بیمارہو اورحمل  کے بوجھ کی سکت نہ رکھتی ہو،یا دودھ پیتے بچہ کے لئے پریشانی کاباعث ہو تو ایسی صورت میں عزل یا کنڈوم وغیرہ استعمال کرنے کی گنجائش ہے۔(فتویٰ دارالعلوم دیوبند1291-1201/sd=12/1438،235-207/N=4/1438) ؛ لیکن بہتر ہےکہ  پوری صورت حال کسی مفتی کے سامنے رکھے اور ان کی ہدایات پر عمل کرے۔ فقط

Comments are closed.