دکھ

عمر فراہی
آشنائی کا، تعلق کا، پھر اقرار کا دکھ
پھر کسی موڑ پہ تکرار کا، انکار کا دکھ
کشتیاں لے کے جو دریا میں اتر جاتے ہیں
ان سے پوچھو کبھی کیا ہوتا ہے پتوار کا دکھ
پارسائی کے تو چرچے ہیں جہاں میں ہر سو
کوئی تو سمجھے کبھی کچھ تو گنہگار کا دکھ
کاش لفظوں کی نزاکت سے سمجھ لے دنیا
گیت میں قید تھکے ہارے قلم کار کا دکھ
سب سمجھتے ہیں خیالات یوں ہی آتے ہیں
کس کو میں کیسے بتاؤں مرے افکار کا دکھ
Comments are closed.