حضرات صحابہ کرام کی معاشرت ہمارے لئے قیامت تک لائق تقلید ہے:مفتی سید محمد معصوم ثاقب 

نئی دہلی (مفتی ریحان قاسمی /بی این ایس)

جمعیۃ علماء ضلع شمال مشرقی دھلی کی جانب سے جاری اصلاحِ معاشرہ مہم کا ساتواں پروگرام مدینہ مسجد جعفرآباد میں منعقد ہوا، جسکی صدارت شمس الائمہ الحاج مولانا شمیم احمد قاسمی (امام و خطیب مدینہ مسجد و عیدگاہ جعفرآباد و امیر امارت شرعیہ دہلی) نے فرمائی جبکہ نظامت کے فرائض مفتی عبدالرازق مظاہری (ناظم اعلیٰ جمعیتہ علماء صوبہ دھلی) نے انجام دئیے ۔

پروگرام کا آغاز قاری محمد ساجد فیضی (سکریٹری جمعیتہ علماء صوبہ دھلی) کی تلاوت قرآن پاک اور مولانا جمیل اختر قاسمی (سکریٹری جمعیتہ علماء ضلع شمال مشرقی دھلی) کے نعتیہ اشعار سے ہوا ۔

پروگرام کے مہمانِ خصوصی مناظرِ اسلام مولانا و مفتی سید محمد معصوم ثاقب صاحب (ناظمِ عمومی جمعیۃ علمائے ھند) کے خصوصی خطاب سے قبل مولانا محمد فرقان قاسمی و مولانا عبد الحنان قاسمی (خازن و نائب صدر جمعیتہ علماء صوبہ دھلی) نے اصلاحِ معاشرہ کے حوالے سے جامع اور مختصر گفتگو فرمائی بعد ازاں ناظم عمومی جمعیتہ علماء ھند نے اپنے پر مغز و پر اثر انداز میں علماء کرام اور عوام الناس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ کبھی کبھی اپنی ذات کو بنانا ، خود کو کسی کسوٹی پر جانچنا اور پرکھنا بہت مشکل ہوتاہے ، زندگی کو ایک مرتبہ دین کی کسوٹی پر پرکھ لیں کہ کہاں کہاں بگاڑ ہے ، جب ہم بگاڑ کی طرف توجہ دیں گے تو اسکو سدھارنا آسان ہوجائےگا ، آج ہمارے معاشرے کو بیماری لگ گئی ہے بد اخلاقی کی ، بددینی کی ، نماز چھوڑنے کی ، جھوٹ بولنے کی، غیبت کرنے کی ، اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کی عادت پڑگئی ہے ، جو بیمار خود کو صحت مند تصور کرے اسکا کوئی علاج نہیں ہے ۔

کسی آدمی کو عادت لگ گئی بیڑی پینے کی ، سگریٹ پینے کی ، شراب ، افیون چرس کی تو وہ اپنی اس عادت کی تکمیل کی خاطر چوری کرتاہے والدین کو ناراض کرتاہے غرض اپنی عادت کی تکمیل کیلئے اسے جو کچھ کرناپڑے یہاں تک کہ اگر اسکو اپنی اس خواہش کی تکمیل کیلئے قتل کرنا پڑے تو وہ اس سے بھی پیچھے نہیں ہٹتا ہے اسکے بالمقابل ایک دین دار آدمی ایسا نہیں کرتا ہے ،

حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں جتنی فکر ایک آدمی کو وقت پر بشری تقاضے( پیشاب پائخانے ) کو رفع کرنے کی ہوتی ہے اگر اتنا فکر مند انسان دین کے سلسلے میں ہوجائے ، اپنے اندر کی صفائی اور بے دینی کو دور کرنے میں ہوجائے تو پھر دنیا اور دین دونوں درست ہوجائیں ۔

آج ہم اپنی بے دینی، بداخلاقی، بدکلامی کیوجہ سے زندگی کے آئی سی او سے بھی نیچے جاچکے ہیں لیکن ہم ان دینی مجلسوں میں آتے جاتے ہیں باوجود اسکے کہ نفس و شیطان غرض ہرچیز ہمیں بے دینی کیطرف لے جانا چاہتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی ایمان کی رمق ہمارے اندر باقی ہے جو ہمیں مجبور کررہی ہے ہمیں جھنجوڑرہی ہے ان مجالس میں آنے کے متعلق یعنی ہماری ایمانی رمق ابھی زندہ ہےضرورت ہے اپنے آپ کو سدھارنے کی ۔

اصلاحِ معاشرہ یہ دونوں عربی لفظ ہیں

معاشرہ سماج کو کہتے ہیں

اور اصلاح کے معنیٰ درست کرنا سدھارنا

سدھار کی ضرورت وہاں پڑتی ہے جہاں بگاڑ ہو خرابی ہو کمی کہاں کہاں ہے کس درجے کی ہے یہ ہر آدمی خود سمجھ سکتا ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو دین لیکر بھیجا گیا ہے وہ سماج کیلئے تھا اسی دین کے ذریعے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے اپنے سماج کو خوبصورت بنایا صحابہ کے سماج کو دیکھر تابعین نے اپنے سماج کو بہتر بنایا تابعین کو دیکھر انکے بعد والوں نے اپنے سماج کو عمدہ بنایا غرض یہ ہے کہ بعد والے تمام لوگوں کو اپنے سماج کو خوبصورت بنانے کیلئے صحابہ کرام ؓ کے سماج سے روشنی لینا ضروری ہوگا صحابہ کرام ؓ میں سے ہرایک کو اپنی ذمہ داری کا بخوبی احساس تھا جس کے نتیجے میں انکا معاشرہ بہترین ، خوبصورت لائقِ تقلید سماج بنا اور قیامت تک لائقِ تقلید ہی رہے گا ہمیں بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنے کی ضرورت ہے ، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ فرماتے تھے کہ جو آدمی اپنے تین فٹ کے جسم پر اسلام نافذ نہیں کرسکتا اس سے کیا توقع کی جاسکتی ہے ، ہر شخص یہاں سے اپنی ذمہ داری متعین کرکے اٹھے کہ میں اپنی زندگی کو بہتر بناؤں گا یوں افراد سے ملکر گھر، گھروں سے ملکر خاندان، خاندان سے ملکر قبیلہ، قبیلوں سے ملکر برادری، برادریوں سے ملکر قوم، اقوام سے ملکر ملک کا وجود بنے گا اسطرح سے ہرشخص کی اپنی ذات کے سلسلے میں کی جانے والی محنت کے نتیجے میں معاشرہ بہترین سمت چل سکے گا اور بگاڑ سماج سے کوسوں دور چلاجائے گا

ائمہ کرام بھی اپنی ذمہ داری متعین کریں کہ ہم کم از کم پہلی صف والوں کو ایسا ماہر بنانے کی کوشس کریں گے اگر امام کو کوئی حاجت پیش آجائے تو پہلی صف کا کوئی بھی فرد امامت کے فرائض انجام دے سکے۔ مقتدی حضرات بھی یہ طے کریں کہ ہم دین کی ضروری معلومات حاصل کریں گے ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جنکا تعلق ائمہ کرام سے ہے مگر آج تک ہم نے ایمانِ مجمل اور ایمانِ مفصل کا مفہوم عقائد نہیں سیکھے اسیطرح کتنے مقتدیوں سے ہمارا قربت کا تعلق ہے مگر ہم نے آج تک انکے عقائد کی فکر نہیں کی

عقائد یہ کسی پارٹی یا فرقے کی ایجاد نہیں ہے اسکا سیکھنا تو ضروری ہے عقائد اگر درست نہیں ہیں تو کامیابی نہیں ملے گی آخرت میں نجات کا مدار تعلقات کی بنیاد پر نہیں ہوگا بلکہ عقائد کی درستگی پر ہوگا اسلئے دین کی بنیادی باتیں جاننا ہر مسلمان کیلئے ضروری ہیں

جو لوگ محنت کرتے ہیں اللہ تعالی انکو چمکادیتا ہے صحابہ کرامؓ نے محنت کی اللہ تعالی نے انکو دونوں جہان میں چمکادیا شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب فضائلِ اعمال کی ابتدا حکایاتِ صحابہ سے اس لئے کی ہمیں جب یہ خیال آئے کہ ہم نے دین کی خاطر بہت قربانی دی ہے تو فورا صحابہ کرام ؓ کی زندگی کی طرف نظر دوڑائی جائے تو پھر اپنی قربانی پھیکی معلوم ہوگی پہلے لوگوں کو حرام و حلال کے سلسلے میں بڑی فکر رہتی تھی حضرت امامِ احمد ابنِ حنبل ؒ کے زمانے میں ایک عورت نے پوچھا کہ حضرت لوگ مجھ سے دھاگہ تیار کراتے ہیں میں چراغ کی روشنی میں تیار کرتی ہوں تو تیل کا خرچ بھی ہوتا ہے لیکن میں چاندنی رات میں بھی دھاگہ تیار کرتی ہوں جس میں میرا تیل کا خرچ نہیں ہوتا ہے تو کیا میں دونوں دھاگوں کی اجرت میں فرق کروں کیونکہ میں جو دھاگہ چراغ کی روشنی میں تیار کرتی ہوں اسکی بناوٹ اور جو چاندنی رات میں تیار کرتی ہوں اسکی بناوٹ میں نمایا فرق ہوتا ہے یہ تھا اس زمانے کے لوگوں عورتوں کے تقوے کا حال کہ دھاگے کے معمولی فرق کیوجہ سے اسکی اجرت کے حلال و حرام ہونے کیطرف غیر اختیاری طور پر خیال جاناامیرالمؤمنین سیدنا حضرت عمرِ ابن الخطاب رضی اللہ عنہ ایک رات مدینہ منورہ میں جائزہ لینے مخلوق کی خبر کیلئے نکلے رات کا اچھا خاصا حصہ گزرچکاتھا جب ایک مکان کے قریب پہونچے آواز سنی کہ بیٹا دودھ میں پانی ملادے لڑکی نے ماں کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ امیرالمؤمنین نے ملاوٹ کرنے سے منع کیا ہے ماں نے کہا کہ امیرالمؤمنین کو کیا خبر ہوگی بیٹی نے کہا کہ اگر امیرالمؤمنین نہیں دیکھ رہا ہے تو امیرالمؤمنین کا رب تو دیکھ رہا ہے یہ تھا تقوے کا عالم اس گھر کا جنکا گزر بسر دودھ کی اجرت پر ہی ہوتا تھا

آج جتنے طرح کی برائیاں ہوسکتی ہیں وہ ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں ایمان والا حرام مال کے ساتھ کبھی ترقی کرہی نہیں سکتا اب اگر کوئی آدمی یہ کہے میں ہم غیرمسلموں سے پیچھے کیوں رہیں بھائی وہ تو حرام کھاتے ہیں شرک کرتے ہیں بت پوجتے ہیں اگر تم انکی طرح حرام کھاکر ترقی کرنا چاہوگے تو دنیا میں بھی تباہ ہوجاؤگے اور آخرت میں بھی بربادی تمہارا مقدر بنے گی کھانے پینے کا اثر انسانی جسم پر ہوتا ہے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ اپنے جاں نثار صحابہ کے ساتھ سفر پر تھے آپ کا گزر جب قومِ ثمود کی بستی سے ہوا تو صحابہ کرام نے وہاں سے اپنے برتنوں میں پانی بھرلیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برتنوں کا پانی وہیں پر الٹ وادیا اور اس پانی سے جو آٹا گوندلیا گیا تھا اسکو بھی جانورں کو ڈلوادیا معلوم ہوا جسم پر کھانا پینے کے اثرات ہوتے ہیںہمارے یہاں اتنے رسم و رواج ہوگئے ہیں بہت سے رسم و راج تو وہ ہیں جو زمانہ جاہلیت میں ہمارے اندر پائے جاتے تھے لیکن مسلمان ہوکر اپنے ان رسم ورواج کو نہیں چھوڑا بلکہ انہیں پر قائم ہیں دنیا سایہ ہے دین اصل ہے سائے میں جب بگاڑ آئے گا تو اسکو اصل کے ذریعے ہی درست کیا جائے گا یہی وجہ ہے کہ جب جب بھی معاشرے میں بگاڑ آتایے تو علمائے کرام اخلاق عادات معاشرت پر محنت کرتے ہیں جسکی وجہ سے اصلاح ہوتی ہت اور سماجی زندگی ہوتی ہے

حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے اپنے زمانے کے خطبا کو ایک سرکلر جاری کررکھا تھا اپنے خطبے میں سورۃ النحل کی یہ آیت *اِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ*

اس آیت تین چیزوں کا حکم ہے اور تین چیزوں سے منع کیا گیا ہے(۱) انصاف کرنے کا حکم دیا (۲) احسان کا حکم دیا ہے یعنی تصور کرو کہ اللہ تعالی تمہیں دیکھ رہا ہے (۳) رشتے داروں کے حقوق کا پاس و لحاظ کا حکم دیا گیا ہے آدمی شادی بیاہ کے موقع پر

چچا کو ماموں خالو کو راضی کرنے کیلئے اپنی پگڑی کو انکے پیروں میں رکھنے سے پیچھے نہیں ہٹتا مگر غور کیجئے کیا کبھی اللہ اور اسکے رسول کو راضی کرنے کیلئے بھی کبھی ہم نے اتنی محنت کی ہے اگر اتنی فکر کرلیتے تو ہم ولی کامل بنجاتے

تین چیزوں سے منع کیا گیا ہے

(۱) فحش کاموں سے منع کیا ہے (۲)منکر سے منع کیا ہے منکر کو منکر اس لئے کہتے ہیں کہ وہ اجنبی ہوتا ہے اسکے بالمقابل نیکی معروف ہوتی ہے (۳) بغاوت سے منع کیا ہے اللہ سے بغاوت کرنا انتہائی غلط ہے اپنے بگڑے سماج کو درست کرنے کیلئے حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے اس آیت کو بنیاد بنایا کسی انسان کے اچھے ہونے کی ضمانت اسکے گھر سے ملتی ہے یہ سرٹیفکٹ کسی یونیورسٹی سے نہیں ملتا یے جو گھروالوں کے حق میں بہتر ہو وہ بہترین انسان ہے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سب سے بہترین انسان وہ ہے جو اپنے گھروالوں کے حق میں بہتر ہو ۔

اخیر میں صدر جلسہ مولانا شمیم احمد قاسمی کی دعاء پر پروگرام اختتام پزیر ہوا ۔

اس موقع پر جمعیۃ علماء صوبہ دھلی کی عہدیداران ، ضلع شمال مشرقی دھلی کے عہدیداران و کارکنان کے علاوہ دہلی کے دیگر اضلاع کے عہدیداران ، ائمہ کرام و علماء عظام نیز عوام الناس نے کثیر تعداد میں شرکت فرمائی ۔

Comments are closed.