کرونا کی واپسی اور ہماری ذمہ داریاں!

✍?: محمد عابد زاہد قاسمی غفرلہ

مستقبل کا علم تو محض اللہ ہی کو ہے۔ کوئی نہیں جانتا کل کیا ہو! لیکن تجربات وخدشات سے جو بات سمجھ میں آتی ہے انسان اسی کی روشنی میں کوئی لائحہ مرتب کرتا ہے اور کوئی منصوبہ بندی کرتا ہے۔
اللہ نہ کرے کرونا کال کے وہ ڈراؤنے مناظر پھر کبھی لوٹیں! مگر ایک بار پھر سے جس شد ومد کے ساتھ کرونا کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے وہ بھی عین ایسے وقت میں جبکہ رمضان المبارک کی آمد قریب تر ہے۔ ایسے میں بے شمار خطرات جس طرح اہل جہاں کے سامنے ہیں۔ اصحاب خیر کے عطیات سے چلنے والے اداروں خاص کر اہل مدارس کے لئے کئی مشکلات آکھڑی ہیں۔ ایک تو گزشتہ دو سالوں (2020/2021) کے ناگفتہ بہ حالات سے ابھی تک نکل نہ سکے، قرض سابق کے بوجھ تلے پہلے سے ہی دبے ہوئے ہیں، حتی کہ بعض مدارس ابتک مدرسین کی تنخواہیں ادا نہ کرپائیں ہیں اوررمضان المبارک میں اصحاب ثروت کی توجہات سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔ اور پھر سے جب عین اسی ماہ مبارک کے موقعہ پر جو اہل مدارس کے لئے سال بھر کے اخراجات اکٹھا کرنے کا موقعہ ہوتا ہے، کرونا کے خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں۔ اور چوں کہ کرونا اپنے ساتھ جو مفعول معہ (سوشل ڈیسٹینسنگ، آئسیو لیش، کورنٹائن، لاک ڈاؤن وغیرہ) کی شکل میں لوازمات لے کر آتا ہے، یہ سفراء مدارس کے پیر کی بیڑی ہوتے ہیں۔ ان حالات میں سفراء کرام اگر عزیمت کے ساتھ کسی طرح نکل بھی جائین تو قوم چندہ تو دور کی بات ہے پراگندہ کردے گی، میڈیا انہیں کو کرونا بناکر پیش کردے گس اور پتہ چلے گا کہ مرکز نظام الدین کی طرح مدارس بھی پا بند قفل کردیے جائیں گے۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے: کرونا کی ان خبروں سے اہل مدارس کے دل پے کیا گزر رہی ہوگی؟ ذمہ داران مدارس کس طرح ماضی کے تجربات اور مستقبل کے خدشات میں ہچکولے کھا رہے ہوں گے؟؟
ایسے وقت میں جبکہ متعدد خطرات کے بادل سرپر منڈلاتے نظر آرہے ہیں، آخر ہم مسلمانوں کا بحیثیت مسلمان کیا فرض ہے؟ ہمیں اپنے دینی اداروں خصوصا مدارس اسلامیہ جوکہ درحقیقت اسلامی چوکی اور حدود دین کے محافظ ہیں ان کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہئے؟ اور کس طرح سے انہیں مشکلات کے بھنور سے نکال کر ساحل پل لانا چاہئے؟
اس کے لئے ضرورت ہے کہ یہ امت اب آگے بڑھ کر کام کرے! خاص طور سے وہ حضرات جنہیں اللہ رب العزت نے مال ودولت سے نوازا ہے، وہ جانتے ہیں کہ ان کا تعاون امت مسلمہ کے کی تعلیم تربیت کے لئے کتنا اہم اور ضروری ہے۔ ناجانے کتنے بے بس اور مفلوک الحال بچے ان مدارس میں محض انہیں حضرات کی توجہات سے پروان چڑھتے ہیں۔ ان کے پاس اتنی استطاعت بھی نہیں ہوتی کہ دو وقت کی روٹی کا بندو بست کر سکیں، مدارس ان بچوں کی ہر ممکن کفالت کرتا ہے اور یہی بچے آگے بڑھ کر قوم وملت کے نونہالوں کے دین وایمان کی آبیاری کرتے ہیں۔ اگر ان نازک حالات میں ان مدارس کی رکھوالی نہ کی گئی تو ذرا سوچئے کہ نقصان کس کا ہوگا؟؟ وہ غریب اور لا چار محنت و مزدوری کرکے کسی نا کسی طرح اپنی زندگی گزار دے گا، لیکن ہم اہل ثروت جن کے بچے عموما مدارس کی دہلیز تک نہیں پہنچ پاتے ان کی نسلوں کو کلمہ پڑھانے والا کون ملے گا؟؟
اس لئے آج کے اس پرفتن دور میں جبکہ ملک گیر سطح پر اور حزب اقتدار سے لیکر حزب اختلاف تک سب اس ملک سے مسلمانوں کی شناخت مٹانے کے درپے ہیں۔ ضروری ہے کہ اہل خیر مسلمان آگے بڑھ کر اپنے مدارس کی حفاظت کریں، ان کے ضروریات کی کفالت کریں اور مستحق ادارے تلاش کر ان تک اپنی امداد پہنچائیں۔ اگر ان مدارس کے سفراء ہم تک نہیں پہنچ سکتے تو کیا ہوا! ہم تو بہر حال اپنا تعاون ان تک پہنچا سکتے ہیں۔ آج کے اس ڈیجیٹل دور میں جبکہ کہ انگلیوں کی حرکت سے صدیوں کی دوریاں سمٹ جاتی ہیں، کوئی مشکل نہیں کہ ہم گھر بیٹے دنیا کے کسی بھی کونے تک اپنا تعاون پیش کر سکیں۔ اب کا وقت اس انتظار کا نہیں ہے کہ چندہ کرنے آئیں گے تو دیا جائے گا، بلکہ اب ضرورت ہے کہ آگے بڑھ کر مستحق اداروں کی دستگیری کی جائے، ان کی نگرانی کی جائے اور سخت سست حالات میں ان کے قدم سے قدم ملا کر چلا جائے۔ تاکہ یہ ادارے اسی طرح ہمارے دین وایمان کے تحفظ کا سامان فراہم کرتے رہیں، جس طرح ماضی میں کرتے آئے ہیں۔
وہ حضرات جن کو اللہ رب العزت نے قوم کی امامت وخطابت کے عظیم منصب سے سرفراز فرمایا ہے۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ اپنے وعظ ونصیحت کے ذریعہ لوگوں کو اس جانب توجہ دلائیں اور جن حضرات کو اللہ رب العزت نے قلم و قرطاس کا شعور بخشا ہے ان کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو اپنے قلم کے ذریعہ بیدار کریں۔
اس وقت پوری ملت اسلامیہ کو اپنے دین وایمان کے تحفظ کے لئے بحیثیت قوم کام کرنے کی ضرورت ہے، کوئی ادنی ہو یا اعلی، اوسط ہو یا افضل ہر ایک کو اپنی استطاعت کے بقدر تعاون پیش کرنا ہوگا، اس کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں۔ اللہ کرے یہ حقیقت ہماری  سمجھ میں آجائے۔

Comments are closed.