جوشی مٹھ معاملہ میں مرکزی حکومت حرکت میں آئی

پی ایم او میں اعلیٰ سطحی میٹنگ ، صورت حال کا جائزہ لیا، مقامی انتظامیہ بھی سرگرم،اب تک۶۰۳ گھروں میں دراڑیں، لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا سلسلہ جاری،مودی کی دھامی سے فون پر بات چیت
دہرہ دون۔ ۸؍جنوری: اتراکھنڈ کے قدیم شہر جوشی مٹھ میں زمین دھنسنے، سینکڑوں گھروں میں دراڑیں، ہوٹلوں اور دیگر اہم مقامات میں کی عمارتوں میں شگاف پڑ گئی ہے، وہاں حالات تشویشناک بنے ہوئے ہیں، مرکزی حکومت بھی حالات پر نظر رکھے ہوئے، اس تعلق سے وزیر اعظم مودی دفتر میں اتوار کو ایک اہم میٹنگ ہوئی، وزیر اعظم کے پرنسپل سکریٹری ڈاکٹر پی کے مشرا نے پی ایم او میں کابینی سکریٹری اور حکومت ہند کے اہم عہدیداروں ، ناگہانی آفت کا مقابلہ کرنے والی ٹیم کے اراکین کے ساتھ جوشی مٹھ کے حالات کو لے کر اعلیٰ سطحی میٹنگ کی۔ اتراکھنڈ میں پیدا شدہ حالات پر وزیر اعظم کے دفتر کی جانب سے بلائی گئی اہم میٹنگ میں جوشی مٹھ کے ضلعی عہدیداران بھی موجود تھے۔ گرائونڈ زیرو پر موجود جوشی مٹھ ضلع کے عہدیداران ویڈیو کے ذریعے کانفرنس میں شرکت کی، اتراکھنڈ کے دیگر سینئر عہدیداران بھی ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ میٹنگ میں شامل ہوئے۔ جوشی مٹھ میں اب تک ۶۰۳ گھروں میں دراڑیں آگئی ہیں، کئی گھر گرنے کی کگار پر ہیںاب تک ۴۴ خاندان کو یہاں سے شفٹ کیاجاچکا ہے۔دریں اثنا اتوار کو اتراکھنڈ کے جوشی مٹھ میں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے تباہ شدہ مکانات کا جائزہ لینے کے لیے ریاستی حکومت کے افسران کی ایک ٹیم نے جائے وقوع کا معائنہ کیا اور جائزہ لیا۔ افسران نے جوشی مٹھ کے بحران زدہ مارواڑی علاقے کا بھی جائزہ لیا۔ کئی گھروں پر دراڑیں پائی گئیں۔ چمولی ضلع انتظامیہ کے سینئر افسران کی ایک ٹیم نے اتوار کو جوشی مٹھ شہر کے مارواڑی وارڈ میں گھر گھر جا کر لینڈ سلائیڈنگ کی صورتحال کا جائزہ لیا۔ جہاں کئی گھروں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ جن گھروں میں دراڑیں پڑی ہیں انہیں فوری طور پر منتقل کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں اور ان پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔ادھر مطابق وزیر اعظم نریندر مودی نے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی سے فون پر جوشی مٹھ، اتراکھنڈ میں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال کے بارے میں تازہ ترین صورتحال کے بارے میں دریافت کیا۔ خود پشکر دھامی نے اتوار کو میڈیا کو ایک غیر رسمی بات چیت میں یہ اطلاع دی۔انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نے فون پر تفصیلی معلومات لی اور پوچھا کہ کتنے لوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں، کتنا نقصان ہوا اور لوگوں کی نقل مکانی کے لیے کیا کیا جا رہا ہے۔ پشکر دھامی نے کہا کہ وزیر اعظم نے جوشی مٹھ کو بچانے کے لیے ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی ہے۔غور طلب ہے کہ جوشی مٹھ میں پہلی بار ڈیڑھ سال پہلے ایک گھر میں دراڑیں پڑی تھیں اس کے بعد سے مزید مکانوں اور دیگر مقامات میں دراڑیں نظر آنے لگیں۔ گزشتہ چند ہفتوں میں دراڑیں بڑھنے کے عمل میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ جوشی مٹھ میں تقریباً ڈیڑھ سال قبل جس گھر میں پہلی بار دراڑیں نمودار ہوئی تھیں اس کے مالک کا کہنا ہے کہ جب دراڑیں نمودار ہوئیں تو انہوں نے انتظامیہ کو اس سلسلے میں آگاہ کیا تھا لیکن انتظامیہ نے یہ کہہ کر اس پر کان نہیں دھرے کہ اس کے گھر کی بنیاد کمزور ہے۔ یہی نہیں جب حالات خراب ہوئے اور مالک مکان نے انتظامیہ سے معاوضے کا مطالبہ کیا تو کہا گیا کہ مکان گرنے کے بعد ہی معاوضہ دیا جائے گا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انتظامیہ کس حد تک غافل رہی ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ جوشی مٹھ میں ۶۰۳ سے زیادہ گھروں میں دراڑیں پڑ گئیں اور یہ دراڑیں مسلسل چوڑی ہو رہی ہیں۔ سڑکوں میں بھی دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے سب کچھ زمین میں دھنس رہا ہے۔ جوشی مٹھ زمیندوز ہونے کی جانب گامزن ہے اور یہاں کے بے بس لوگ پتھریلی آنکھوں سے یہ منظر دیکھنے پر مجبور ہیں۔لوگ جس طرح کی شکایات کر رہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل آدی شنکراچاریہ کے قائم کردہ اس شہر کی ویرانی کے لیے ریاستی حکومت اور انتظامیہ کافی حد تک ذمہ دار ہے۔ سوال یہ پوچھا جا رہا ہے کہ یہاں رہنے والوں کی شکایات کو بروقت کیوں نہیں سنا گیا؟ حالات بد سے بدتر ہونے کے بعد ہی حکومت اور انتظامیہ کی نیندیں کیوں ٹوٹی؟ماہرین کے مطابق یہاں کے پہاڑوں کی عمر کافی کم ہے اور یہاں سرنگیں تعمیر کرنے جیسی تعمیری سرگرمیاں جاری تھیں، جس کی وجہ سے یہ شہر تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ اب جا کر تمام طرح کے تعمیراتی کام پر روک لگائی گئی ہے۔ تعمیراتی کام شروع ہونے سے پہلے اور اس کے جاری رہنے تک بہت سے ماہرین نے اس پر سوال اٹھائے تھے لیکن کام نہیں روکا گیا۔ تعمیراتی کاموں کے خلاف مقامی لوگوں نے سینکڑوں بار مظاہرے بھی کئے۔ اب جب کہ سب کچھ ہاتھ سے نکل رہا ہے تعمیراتی کام بھی روک دیا گیا ہے۔ اندازہ ہے کہ جوشی مٹھ میں تعمیراتی کاموں کی وجہ سے ایسی تباہی آئی ہے، تاہم ابھی تک اس کی باضابطہ تصدیق نہیں ہوئی ہے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ درجنوں مکانات تباہ ہو چکے ہیں اور کئی تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔
Comments are closed.