ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
حضرت مولانا ابوالکلام قاسمی رحمہ اللہ کی وفات پر علماء کا اظہار خیال

اتردیناج پور(پریس ریلیز)
حضرت مولانا ابوالکلام قاسمی(وفات:25/دسمبر2022ء) شاگرد رشید حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ حسن اخلاق اور تواضع وانکساری کے پیکر تھے، آپ نے پوری زندگی دعوت وتبلیغ، خدمت خلق اور درس وتدریس میں گزاری۔ ان خیالات کا اظہار حضرت کے نواسے اور دارالقضاء آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ناگپاڑہ ممبئی کے قاضی شریعت مفتی محمد فیاض عالم قاسمی نے مرحوم کی وفات پر قدسی جامع مسجد بھوجاگاؤں اتر دیناجپور مغربی بنگال میں منعقدہ تعزیتی نشست میں کیا۔
قاضی صاحب نے مزید کہا کہ آپ کی پرورش گرچہ یتیمی میں ہوئی تھی؛ لیکن اپنے پسماندگان میں 73 افراد کو چھوڑا، اور ان ہی کی بدولت آج علاقہ میں مدارس و مکاتب اور مساجد کا جال پھیلا ہوا ہے، نیز دینی چہل پہل ان ہی کی مرہون منت ھے۔
قاضی فیاض عالم قاسمی نے کہا کہ آج ہمارے سامنے جو مسجد، مدرسہ، عیدگاہ، اسکول اور ہسپتال موجود ہیں، یہ ان کی دی ہوئی زمین پر قائم ہیں، جو آپ کے لئے بہترین صدقہ جاریہ ھے۔
مفتی جاوید اقبال قاسمی صدر جمعیت علماء بہار نے کہا کہ مولانا ابوالکلام قاسمی اور مولانا عبدالحلیم قاسمی دونوں بزرگوں نے بدعات وخرافات کی آماجگاہ میں آنکھیں کھولیں، لیکن شریعت اور سنت کا شمع روشن کیا جو ان شاء اللہ تاقیامت باقی رھے گا۔مفتی جاوید صاحب نے مزید کہا کہ حدیث میں ھے کہ جب انسان مرجاتاھے تو ان سے ان کے اعمال کا سلسلہ ختم ہوجاتاھے لیکن علم نافع، نیک اولاد اور صدقہ جاریہ ایسے اعمال ہیں کہ مرنے بعد بھی ان کا ثواب پہونچتے رہتاھے، حضرت مولانا ابوالکلام قاسمی صاحب نے اس حدیث مطابق زندگی گزاری ھے۔ اللہ انھیں علم نافع دیا جس سے تاقیامت طالبان علوم نبویہ فیض اٹھاتے رہیں گے، نیک اولاد سے بھی نوازا، چنانچہ آپ کی نسل میں علماء، صلحا، وحفاظ اور حافظات کی بڑی تعداد موجود ھے، مدرسہ مسجد وغیرہ آپ کے لئے صدقہ جاریہ ہیں۔
مولانا افضل حسین مظاہری استاذ دارالعلوم حسینیہ اسلام پور نے کہا کہ آپ نہایت ہی خلیق انسان تھے، اور مجھ سے نہایت ہی محبت فرماتے تھے، اور میرے گھر اور بچوں کے بارے میں دریافت کرتے تھے۔
مولانا سالم صاحب قاسمی سفیر دارالعلوم دیوبند وصدر دارالعلوم رشیدیہ بھوجاگاؤں نے کہا مولانا رحمہ اللہ سخی انسان تھے، انھوں نے اپنے پیسہ سے مجھے پڑھایا ھے۔
حضرت کے صاحبزادے مولانا اطہر سعید قاسمی استاذ دارالعلوم رشیدیہ بھوجاگاؤں نے کہا والد محترم کو دارالعلوم دیوبند سے بڑی محبت تھی، ان کی خواہش تھی کہ میرا بیٹا دارالعلوم میں پڑھے، چنانچہ جب ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا اور میرا داخلہ دارالعلوم میں ہوگیا تو وہ خوشی سے دارالعلوم دیوبند آگئے۔ مولانا نے مزید کہا کہ اب تک سینکڑوں فون تعزیت کے لئے آچکے ہیں، اور واٹس ایپ میں میسیج اور خطوط کا سلسلہ بھی جاری ھے، مولوی غفران احمد قاسمی، اور مولوی عبد الرزاق قاسمی نے نہایت درد بھرے انداز میں خط لکھا ھے۔ انھوں نے تعزیت کرنے والے سبھی حضرات کا شکریہ ادا کیا۔
مولانا ارشد الحسینی صاحب استاذ دارالعلوم رشیدیہ بھوجاگاؤں نے کہا مولانا ابوالکلام صاحب قاسمی کے ساتھ میں نے پندرہ سال کا عرصہ گزارا نہایت ہی شفیق، رحمدل اور مربی پایا، انھوں نے مجھے سایہ پدری سے محرومیت کا کبھی احساس ہونے نہیں دیا۔
مفتی عیسی صاحب قاسمی مہتمم دارالعلوم حسینیہ اسلام پور نے رائے پیش کی آپ کی سوانح حیات کو قلمبند کیا جائے تاکہ نسل نو کے لئے نصیحت کا سامان ہو، آپ ہی کی رقت آمیز دعاء سے نشست کا اختتام ہوا۔
اس نشست میں علاقہ سے علماء اور عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔فقط
Comments are closed.