مولانا مدنی کابیان بروقت برمحل

مکرمی!
ابھی ماضی قریب میںرام لیلامیدان دہلی کے ٹھاٹھے مارتے انسانی سمندرمیںمردقلندرنے جووحدانیت کاعَلم لہرایاہے وہ قابلِ تقلیدولائق تحسین اورواجب قبول ہے ،بھلے ہی اس سے کسی کومرچی لگی ہومگریہ ایک ناقابل انکارتاریخ تھی ؛جس کو باطل کے گردوغبارنے دھندلاضرورکردیاتھا،یہ وہ چراغ ہے کہ پھونکوںسے بجھایانہیںجاسکتا،اس بیان کامقصودکسی کے دل کو زخم لگاناتھانہ کسی کی آبروپردست رسائی،بل کہ قرآنی طریقہ تبلیغ کے مطابق نکتۂ اجتماعیت ومابہ الاتحادکوبیان کرناتھابل کہ سناتھن دھرم اورویدوںکی تعلیمات کے عین مطابق ایک رب کے پوجنے کے بھولے سبق کویاددلاناتھا،جس سبق کے اوراق کووقت کے گذرتے ؛سیاسی ٹھیکداروںاورذاتی مفادکے پرستاروںنے پلٹ دیاتھا،بھلے ہی اس بیان کوموقع کی تاک میں بیٹھے سیاسی روٹی سینکنے والے موقع پرست لوگ توڑموڑکربیان کریںاوراپنے جذبات کوٹھیس پہنچ جانے کاڈھونگ کریںمگریہ آئینہ نمائی ہی ہمارے ملک کوترقی پرلے جانے کاپختہ راستہ ہے ،ضرورت ہے کہ بڑھی ہوئی بے انصافی ،عدالتی بے اعتدالی غریبوںکے استحصال اورامیروںکی خدائی کاآئینہ دکھایاجائے جیساکہ اس مرددرویش نے دکھایا،اب دیکھنایہ ہے کہ ملک کا انصاف اورحقیقت پسند انسان اس کوکتناقبول کرتاہے اورکس حدتک اس کی مخالفت کرتاہے ،شایداس وقت بعض مسلم دانشوران یوںخیال کریںکہ اس وقت اس بیان کی کیاضرورت تھی ،سب کچھ ٹھیک چل رہاتھا؛توان سے عرض ہے کہ یہی مشورہ موہن بھاگوت صاحب کوآپ نے کیوںنہیںدیاجنہوںنے مسلمانوںسے جھک کرچلنے کوکہاہے ،اس ملک کے انصاف پسندباشندگان بشمول ہندوبھائیوںکے یہ معروض ہے کہ اپنے چین وسکون جیسے قیمتی سرمایہ کوفرقہ پرستی کی بھٹی میں نہ جھونکیںاورنفرت کی دیواروںکوتوڑکرآپسی میل ملاپ اورمحبتوںکے محل تعمیرکریںاسی میںملک کامفادہے اوریہی ترقی کا پختہ راستہ ہے ۔
سیدظہیر ٹپٹوری

Comments are closed.