Baseerat Online News Portal

مدرسہ چشمۂ فیض ململ کا سالانہ علمی و ادبی پروگرام بحسن وخوبی اختتام پذیر

صوبہ و ملک کی ممتاز علمی شخصیات کے ہاتھوں مسابقاتی پروگرام میں پوزیشن لانے والے طلبہ کے درمیان انعامات کی تقسیم اور ندوۃ العلماء جانے والے بچوں کے اعزاز میں خوبصورت الوداعی تقریب کا انعقاد

مدہوبنی (بصیرت نیوز ڈیسک/سعید الرحمن سعدی)شمالی بہار کی پونے دو سو سالہ قدیم، تاریخی اور مرکزی درسگاہ ” مدرسہ چشمۂ فیض ململ” میں دو نشستوں پر مشتمل عظیم الشان سالانہ پروگرام کا انعقاد ہوا، پہلی نشست میں صبح آٹھ بجے سے ظہر تک انجمن جمعیۃ الاصلاح طلبہ مدرسہ چشمۂ فیض ململ کے بینر تلے صحافت، خطابت اور بیت بازی کا مسابقاتی پروگرام منعقد ہوا، سیرت و تاریخ سے متعلق تین موضوعات پر دس لڑکوں کے بہترین مقالے جمع ہوئے، آٹھ اہم عناوین پر تقریبا تیس طلبہ نے شاندار تقریریں کیں، جب کہ آٹھ بزموں اور تین راؤنڈ میں چوبیس بچوں نے بیت بازی کی صورت میں اپنی شعری و ادبی صلاحیت کا مظاہرہ پیش کیا، صحافتی مقالوں کو ادارے کے ممتاز فاضل اور رکن ابنائے قدیم مولانا شہباز خاور ندوی نے چیک کیا، خطابت کی فرع میں حکمیت کے فرائض معروف خطیب و صحافی مولانا مظفر احسن رحمانی اور مدرسہ فرقانیہ ململ کے مایہ ناز استاذ مفتی مناظر احسن قاسمی نے انجام دیے، جب کہ بیت بازی میں مدہوبنی ضلع کے نوجوان فاضل و شاعر مولانا حسیب الرحمان شائق اور گریٹ انڈیا اکیڈمی کے ایکزیکٹیو ڈائریکٹر معروف ادیب و نقاد جناب نجم الہدی ثانی کی بطور حکم شرکت ہوئی۔
اسی دن رات میں دوسری اور آخری نشست انعامی و الوداعی تقریب کے عنوان سے رکھی گئی، جس میں مہمانان کرام کے ہاتھوں تینوں فرع میں پوزیشن لانے والے ممتاز طلبہ کو خصوصی اور بقیہ شرکاء کو تشجیعی طور پر کتابی صورت میں گراں قدر انعامات سے نوازا گیا۔ واضح رہے کہ محمد یحییٰ ابن مولانا معین احمد ندوی متعلم عالیہ اولی، عبد الرحیم دانش متعلم عالیہ ثانیہ اور عبد اللہ فیضی متعلم ثانویہ خامسہ نے صحافت میں اول دوم سوم پوزیشن حاصل کی، خطابت کی فرع اول میں قتیبہ جمال مکیاوی ، محمد یحییٰ ململی، عبداللہ فیضی اور دوسری فرع میں محمد ذیشان متعلم درجہ اعدادیہ، شہنواز امڈیہا اور اطہر اقبال ثانویہ ثالثہ بالترتیب اول دوم سوم رہے، جب کہ بیت بازی کے دل چسپ مقابلے میں بزم عاجز کو فتح حاصل ہوئی جس کے ترجمان عبد الرحیم دانش اور دیگر دو مساہم محمد گلاب ثانویہ رابعہ اور عباد الرحمٰن ململی تھے۔
اس نشست کی دوسری اہم کڑی مدرسے کے آخری درجے عالیہ ثانیہ سے تکمیل عالمیت کے لیے ندوۃ العلماء لکھنؤ جانے والے دس بچوں کے جذباتی تاثرات اور الوداعی نظموں کی تھی، عالیہ اولی کی جانب سے ان سب طلبہ کو یادگاری شیلڈ دیا گیا اور حضرات علمائے کرام نے اپنی نصیحتوں اور دعاؤں کا توشہ انھیں پیش کیا۔
اس موقع پر ایشیاء کی عظیم دینی دانش گاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے دو عالی قدر اساتذہ: فاضل نوجوان مولانا عبد الرحیم ندوی اور نگران اعلی مولانا فخر الدین ندوی صاحبان کی آمد نے جلسے کو رونق و اعتبار بخشا نیز ان کی گفتگو کو طلبہ و علماء سمیت جملہ حاضرین محفل نے بہت پسند کیا، مولانا عبد الرحیم صاحب نے اپنی گفتگو میں ندوہ کے احاطے میں مدرسہ چشمۂ فیض کی شہرت و مقبولیت کا ذکر کیا، اس بستی سے تعلق رکھنے والی عظیم ہستی مولانا نذر الحفیظ ندوی ازہری سابق استاذ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے حوالے سے اس ادارے سے اپنی انسیت و الفت کا ذکر کیا، اور طلبہ عزیز کو اپنے موجودہ وقت، اس ادارہ اور یہاں کے اساتذہ کی قدر کرنے کی قیمتی نصیحت فرمائی، مولانا فخر الدین صاحب نے اپنے خطاب میں خاص طور پر ندوہ جانے والے بچوں کو بطور زاد راہ چند اہم باتوں کی جانب متوجہ کیا، انھیں اس بات سے آگاہ کیا کہ وہ ندوے میں اپنے دوسال کو کس طرح مفید اور کار آمد بناسکتے ہیں، ساتھ ہی ادارے کے منتظمین اور اساتذہ کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے چند اہم امور کی طرف ان کی توجہ مبذول کرائی۔
مہتمم مدرسہ مولانا فاتح اقبال ندوی قاسمی کے صدارتی خطاب اور مفتی سلیم الدین صاحب قاسمی شیخ الحدیث جامعہ فاطمۃ الزہراء ململ کی دعا پر رات ساڑھے دس بجے یہ پروگرام ختم ہوا۔
پروگرام کو کامیاب بنانے میں طلبہ عالیہ اولی، اساتذہ مدرسہ، منتظمین، بستی کے علم دوست افراد اور خاص کر جناب مخدوم صاحب، بھائی ثناء اللہ ندوی، عامر اقبال فخری، شارق حسین اور ڈاکٹر منظر امام صاحب کا خاص کردار رہا۔

Comments are closed.