Baseerat Online News Portal

مسٹر خواہ مخواہ!میرے ” آنگن” میں تمہارا کیا کام ہے؟

نوراللہ نور

 

گذشتہ دو تین دن قبل دارالعلوم دیوبند نے چار طلباء کا داڑھی تراشنے کے جرم میں اخراج کردیا اور اس میں کوئی قابل گرفت بات بھی نہیں ہے کیونکہ ہر ایک ادارے کا اپنا ایک اصول اور ایک ضابطہ ہوتا ہے جس پر وہ اپنے ماتحتوں سے عملدرآمد کرانے میں خود مختار ہوتا ہے.
لیکن اسے اپنوں کی ستم ظریفی اور تنگ نظری کہیئے کہ وہ اختلاف کا موقع یہاں بھی نکال لئے اور بے جا رائے زنی اور لمبے تبصروں اور تجزیوں سے پر تحریر ڈال کر گھر کی بات کو گھر میں چھپانے کے بجائے خوب پروموٹ کیا اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے میڈیا کب چوکتی ، ہوتے ہوتے یہ خبر مین اسٹریم میڈیا کے ہاتھ لگ گئی اور اس نے سرخی لگا کر مسلمانوں کی خوب فضیحت اڑائی۔
لیکن میڈیا اور ناقدین کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ یہ فیصلہ ایک ادارے کا اپنے ڈسپلن اور اصولوں کے قائم رکھنے کا ہے اور داخلے کے وقت ہی وہ طالب علم سے یہ معاہدہ کرواتا ہیکہ وہ اس طرح کی حرکت کا مرتکب نہیں ہوگا اس لئے لمبی لمبی تحریر لکھنے سے گریز کرنا چاہیے اور میڈیا کو چاہیے کہ وہ ایک ادارے کے نجی معاملے ٹانگ اڑانے اور آسمان سر پر اٹھانے کے بجائے ضروری امور کی طرف توجہ مبذول کرے۔
ہر ایک ادارے کا اپنا اصول ہوتا ہے جس کو برتنے میں وہ خود مختار ہوتا اور اصول شکنی کے موقع پر اس کو قانونی چارہ جوئی کا مکمل اختیار ہوتا ہے ایسے میں اس کو ایشو بنانا اور ایک ادارے کے ذاتی معاملے میں مداخلت کرنے کا کسی کو بھی کوئی جواز نہیں ہے.
میڈیا اور نیم دانش مفکرین کا یہ رویہ دیکھ کر ان سے بس یہی کہنا ہے کہ بھیا! یہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے ، یہ ہمارے ادارے کا پرسنل ایشو ہے یہاں پر آپ کا کوئی کام نہیں ہے، بیگانے کی شادی میں آپ کو ٹھمکا لگانے کی کیا ضرورت در پیش آئی ہے؟ آپ کے پاس تو یوں ہی بہت سارے مسائل ہیں جن پر آپ ایڑی اچکا کر ڈھول پیٹ سکتے ہیں تو وہاں جاکر اپنی ضرورت پوری کریں!
ویسے بھی دوسرے کے گھر میں تانکا جھانکی غیر سنجیدہ لوگوں کے اوصاف ہیں ، آپ کے یہاں خود ہی اتنے مسائل ہیں کہ اگر گفتگو کی جائے تو آپ کو اچھی خاصی ٹی آر پی مل سکتی ہے اس لئے اپنی انرجی ہمارے معاملات میں صرف کرنے کے بجائے اپنے ذاتی معاملے کو درست کرنے پر توجہ دیجیئے! کیونکہ ہمارے انگنے میں آپ کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

Comments are closed.