افطارمیں غیر مسلموں کوبلانایا ان کے یہاں جاناجائز ہے،دعوتی پہلوؤں کے اعتبارسے افطار کا پروگرام رکھا جائے

رام نومی کے جلوس کو امن وشانتی سے گزاریں،آل انڈیا ملی کونسل کے ویبنار سے علماء ودانشوروں کا اظہار خیال
پھلواری شریف،27مارچ(پریس ریلیز)آل انڈیا ملی کونسل بہار کے زیراہتمام ایک دے بینار ژوم ایپ پر مولانا انیس الرحمن قاسمی قومی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل کی صدارت میں منعقد ہوا،جس میں رمضان اورغیرمسلموں کے ساتھ رواداری،غیر مسلموں کو افطار کرانا،غیرمسلموں کے افطار پارٹی میں شریک ہوں،غیرمسلموں کے تیوہاروں کے موقع سے جلوس نکالنے میں مددکرنا اورغیرمسلم سلاطین اورپیشوان مذاہب کے سیمینار میں شرکت جیسے اہم مسائل پر گفتگو ہوئی۔مولانا انیس الرحمن قاسمی قومی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل نے اپنے خطاب میں کہاکہ ہندوستان کے تمام مذاہب کے رہنے والے یہاں کے شہری ہیں اورباہمی طورپر انصاف،آزادی، اورقول وعمل کے اختیار کرنے اورانصاف حاصل کرنے میں برابری کا درجہ رکھتے ہیں،اسلا م میں انسانوں کا احترام کیا گیا ہے اورایک دوسرے کے یہاں کھانے پینے کی اجازت دی گئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہمارے سامنے ہے۔ اس لیے افطار میں غیر مسلموں کے یہاں کھانا یا ان کو اپنے افطارکے وقت کھانے میں شریک کرنا جائز ہے۔دارالعلوم دیوبند کے فتووں میں اس کی صراحت کی گئی ہے۔ہندوستان کے موجودہ حالات میں اسلام کے عبادات کے نظام روزہ،نمازاوردیگر عبادتوں کو بتانا اورسمجھانا،توحید کی حقیقت کو بیان کرنے کا یہ موقع ہوتا ہے، اس لیے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے،اسی طرح غیر مسلموں کت تہواروں کے جلوس کو امن وشانتی کے ساتھ تو اپنے علاقے سے گزارنے کی ضرورت ہے۔سماجی کام کرنے والے اس طرف توجہ دیں اورامن کمیٹیاں قائم کی جائیں۔ مولانا ابوالکلام شمسی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل بہار نے کہاکہ ہندوستان مشترکہ تہذیب والا ملک ہے،موجودہ وقت میں قومی یکجہتی اوررواداری کو فروغ دیا جائے۔اگربرادران وطن کو افطارپارٹی میں بلایا جائے یااگر وہ افطار پارٹی کرے تو اس میں شرکت کی جائے تو میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا ہوں،اس سے مثبت پیغام جاتا ہے اوربرادران وطن کے ساتھ ہماری جو دوری ہے وہ ختم ہوتی ہے اوراس سے نفرت بھی کم ہوتی ہے۔ہندوستان کے موجودہ حالات میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ تیوہاروں میں باہمی رواداری کوبرقراررکھے،اس وقت کچھ لوگوں نے نفرت کی فضا کوقائم کردیاہے،جس کی وجہ سے ماحول پر برا اثر پڑتا ہے اورفضا خراب ہوجاتی ہے اورتیوہاروں کے موقع سے مسلمانوں کے اندرتشویش کا ماحول پیدا ہوجاناایک فطری بات ہے،سیکولر اوراچھے لوگ امن وامان کو رکھنے کی کوشش کریں گے تو خوش گوار ماحول قائم ہوگا۔تمام لوگ اپنے اپنے دین پر عمل کرے اورایک دوسرے کے تیوہاروں میں رخنہ نہ ڈالیں،اس سے ماحول بہتر ہوگا۔آپسی میل ملاپ اورماحول کو بہتر بنانے کے لیے میٹنگ کرکے تیوہاروں کو پرامن طریقے سے گزارنے کی کوشش کریں۔مولانا ابرار مکی دہلی صاحب نے کہاکہ ہندوستان کے مخصوص حالات کے پیش نظر علماء نے افطار پارٹی میں شرکت کی اجازت دے دی ہے؛لیکن یہ دعوتی رجحان کے پیش نظرہوتو زیادہ بہتر ہے۔اگر ہم اپنے یہاں برادران وطن کو افطار میں دعوت دیں اورافطار سے پہلے یا بعد میں خطاب کرکے روزہ اورقرآن کی اہمیت اوراس کے پیغام کو سمجھایا جائے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔آزادی کے پہلے ہی سے ایک طبقہ مسلمانوں کے خلاف ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم قائدین اورقرب وجوار کے لوگوں کو جوڑ کر امن گروپ بنایاجائے اوردفاعی اوراقدامی کام کریں،جہاں بھی تشدد ہوتا ہے،زیادہ ترنقصان مسلمانوں کا ہوتا ہے؛اس لیے اس کو روکنے کی کوشش کی جائے۔مولانا محمدعالم قاسمی،جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل بہار نے کہاکہ افطار کی دعوت کرنا اوربرادران وطن کے افطار کی دعوت میں شرکت عملی طور پر دعوت اسلام کا ایک پہلو ہے؛لیکن جن لوگوں کا مال مشتبہ ہو،ان کی دعوت میں شرکت سے پرہیز کیا جائے۔غیر مسلموں کے تیوہاروں کے موقع سے جن علاقوں میں حالات کے خراب ہونے کا خدشہ ہووہاں مقامی تھانہ سے رابطہ کرکے امن کمیٹی تشکیل دی جائے اورمقامی طور پر ماحول کوپرامن بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔مذہبی پیشواؤں کے ساتھ سیمینار میں شرکت ضرور کرنی چاہیے،اس سے بہت سی بدگمانی دور ہوتی ہے،چوں کہ عام طور سے یہ بات پھیلائی گئی ہے کہ مسلمان اپنے علاوہ سب کو کافرسمجھتے ہیں اوران سے نفرت کرتے ہیں، جب کہ یہ بات حقیقت سے کوسوں دور ہے۔خاص طور سے انسانی حقوق کے حوالے سے اورخدمت خلق کی اہمیت کو بیان کردینے سے ان کے دلوں میں ایک خاص طرح کا اسلام کے تئیں جذبہ پیدا ہوتا ہے اوروہ اسلام کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں؛لیکن شرط یہ ہے کہ اس کو علمی انداز اورمثبت طریقے پر پیش کیا جائے تو اس کے بہتر نتائج درآمد ہوں گے اوردعوت کا ایک نیا موقع فراہم ہوگا۔مولانا پروفیسر محسن عثمانی صاحب نے کہاکہ برادران وطن کو اسلام کے شعاروعبادات سے مانوس کرناموجودہ وقت کی اہم ضرورت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیرمسلموں کی دعوت کرنے کے ساتھ ان کی دعوتوں میں شریک ہوئے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ برادران وطن کی دعوت قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے،غیرمسلموں کے افطار پارٹی میں شریک ہوکران کو مانوس کیا جاسکتا ہے۔ہندوستان میں مسلمانوں کو اسلام سے وابستہ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ برادران وطن کے ساتھ خوش گوار تعلقات قائم کیا جائے اوران کو اپنے تئیں اچھے نظریات قائم کرنے کا قائل بنانا ہوگا۔تمام انبیاء کرام کا کام اللہ کی وحدانیت،شرک سے بچنے اوراس کی عبادت کرنا تھا،اگر یہ کام نہیں ہوگا تو ہمارے اندر دعوت کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ برادران وطن کو رمضان کے موقع پر افطارپارٹی میں شریک کرکے یا عید کے موقع سے بلاکے ان سے اچھے تعلقات قائم کیا جائے۔اس سے دعوت کا کام آسان ہوگا۔ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ برادران وطن کو اعتماد حاصل ہو،اسلام کے تئیں اچھے تاثرات ہو،اس سلسلے میں اقدامی کام کرنے کی ضرورت ہے۔مولانا اعجاز الرحمن شاہین صاحب نے کہاکہ تیوہار کے موقع پر جو فسادات ہوتے ہیں،وہ کروائے جاتے ہیں اورجہاں فسادات ہوتے ہیں،اس کے تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ فسادات منظم طریقے سے کرائے جاتے ہیں، خود مسلمانوں اورمسلم قائدین کا غیر مسلم سماج اورغیرمسلم قائدین کے ساتھ رابطے کی کمی ہے،اگر رابطے میں ہوں اوردوری نہ ہو تو یہ فسادات رُک سکتے ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ رواداری کا رویہ اپنایا جائے اورایک دوسرے کے تیوہاروں میں مبارکبادی کے سلسلے کو قائم کیا جائے۔تیوہاروں کے موقع پر خدمت خلق اوراحترام کے طریقے کو اپناکر ملک کے موجود نفرت کے ماحول ختم کیا جاسکتاہے۔جناب ڈاکٹرابوذر کمال الدین نے کہاکہ غیر مسلم اگر افطار کا اہتمام کرتے ہیں تو اس میں شریک ھوا جاسکتا ہے،آج کل زبردستی مسلمان محلوں سے جلوس لیے جائے کی کوشش کی جاتی ہے۔ان کے اشتعال انگیز نعرے لگائے جاتے ہیں۔مسجدوں اور حساس مقامات پر شرارتیں کی جاتی ہیں ان حالات سے نمٹنے کا اچھا طریقہ یہ ہے کہ انتظامیہ سے رابطہ پیدا کرکے حساس مقامات اور پورے علاقے کو محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جائے ساتھ ہی ذمہ دار افراد سڑ کوں پر موجود رہیں اور مسلمان نوجوانوں میں جو لوگ پر جوش ھیں یا جو شر پسند عناصر ہیں ان پر نظر رکھیں۔حسب ضرورت سواگتم کے بینر لگائے جائیں۔سبیل کا انتظام کریں۔جلوس کے جو ذمہ دار ہوں ان سے اور مقامی پولس اور دیگر ذمہ داران سے رابطہ بنا کر رکھیں اور کوئی ناخوشگوار صورتحال پیدا نہ ہونے دیں،جہاں تک سلاطین پیشوان مذاہب کے سیمینار میں شرکت کی بات ہے۔ان کے شرکیہ رسومات سے تو ہر حال میں بچنا ہے۔اکثر یہ لوگ مورتی پر پھول مالا ڈالتے ہیں۔انہیں پہلے بتا دیا جائے کہ اس پر اصرار نہ کیا جائے۔جہاں تک اظہار خیال کی بات ہے تو اچھے پہلو ہیں ان پر بات کی جاسکتا ہے۔ ہماری طرف سے ہمیشہ ایسے لوگ نمائندگی کریں جو صاحب علم کے ساتھ معاملہ فہم بھی ہوں اور وقت اور حالات کے لحاظ سے گفتگو کرنے کے اہل ہوں، مشرکین کے تمام تہوار میں شرک غالب عنصر ہے۔اس لئے مبارکباد کی زبان میں اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ شرک کی کوئی تائد توصیف نہ ہو،احتیاط کے ساتھ رواداری کی روش اختیار کر نا وقت اور حالات کا تقاضا ہے۔اس ویبنار میں عبیدالرحمن صاحب دہلی،مولاناظفرعمری صاحب وغیرہ بھی شریک ہوئے۔
Comments are closed.