Baseerat Online News Portal

اعتکاف مسائل و آداب

ڈاکٹر مفتی عرفان عالم قاسمی
(ایڈیٹر ہفت روزہ آب حیات بھوپال ایم پی)
E-mail:- [email protected]. Mob:- 9826268925
اعتکاف نام ہے، مخلوق سے قطع تعلق کرکے اللہ کے گھر میں بیٹھ جانا اور اپنے دل کو اللہ کی ذات کے ساتھ وابستہ کر لینا۔ تمام دنیاوی خیالات و تفکرات و تمام مشغولیات کے بدلہ میں خدائے وحدہٗ لاشریک لہٗ کی یاد میں اور اس کے ذکر میں، اس کی عشق و محبت میں مشغول ہوجانا اور دل کو اللہ کے ساتھ مانوس کرکے لطف اندوز ہونا ۔ اعتکاف کے لغوی معنی ٹھہرنے اور رکنے کے ہیں اور اعتکاف کے شرعی معنی ہیں مرد کا مسجد میں اعتکاف کی نیت سے ٹھہرنا اور عورت کا اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کی نیت سے ٹھہرنا۔
اعتکاف کی مشروعیت کتاب و سنت اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ وَ عَھِدْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْد (سورۃ البقرہ، 125) یعنی ہم نے ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھو۔
نیز اللہ تعالیٰ نے روزے کے احکام کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ۔ فِی الْمَسٰجِد۔ (سورۃ البقرہ ص:187) یعنی عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو، جبکہ تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو۔
جو شخص اعتکاف میں بیٹھنا چاہتا ہے تو اس کے لئے ضروی ہے کہ وہ اعتکاف کے آداب و ضوابط کی پاسداری کرے، تاکہ اس کا اعتکاف درست ہوسکے اور اس سلسلے میں وارد جملہ فضیلتوں کا مستحق بن سکے۔ اس وجہ سے اگر انسان کوئی بھی عمل کرتا ہے اور اس سلسلے میں شرعی ہدایات اور نبوی فرامین کو ملحوظ نہیں رکھتا ہے تو اس کی عبادت ناقص اور ادھوری شمار ہوتی ہے۔ چنانچہ اعتکاف کے تعلق سے کتاب و سنت کے شہ پاروں سے بعض آداب و مستحبات اور سنن کو بیان کیا جارہا ہے تاکہ ہم اگر اعتکاف کرنا چاہیں تو ان کو ملحوظ رکھیں اور اپنا اعتکاف رسول اکرم صلّٰی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے موافق کریں۔
اعتکاف کے فضائل
صاحب مراقی الفلاح نے لکھا ہے اگر اعتکاف اخلاص کے ساتھ ہو تو وہ افضل ترین اعمال میں سے ہے۔ اس کی خصوصیات حداحصاء سے خارج ہیں۔ اس میں قلب کو دنیا و مافیہا سے یکسو کر لینا ہے اور نفس کو مولیٰ کے سپرد کر دینا ہے اور آقا کی چوکھٹ پر پڑ جانا ہے۔ نیز اس میں ہر وقت عبادت میں مشغولی ہے کہ آدمی سوتے، جاگتے، ہر وقت عبادت میں شمار ہوتا ہے اور اللہ کے ساتھ تقرب ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ ’’جو شخص میری طرف ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے، میں اس سے دو ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور جو میری طرف آہستہ بھی چلتا ہے، میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔‘‘ نیز اس میں اللہ کے گھر پر پڑ جانا ہے اور کریم آقا ہمیشہ گھر آنے والے کا اکرام کرتا ہے، نیز اللہ کے قلع میں محفوظ ہونا ہے کہ دشمن کی رسائی وہاں تک نہیں ایسے اعتکاف کی فضیلت و اہمیت کے لئے صرف یہی کافی ہے کہ رسول اللہ صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد پوری عمر اہتمام کے ساتھ رمضان المبارک کے اخیر عشرے کا اعتکاف فرمایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلّٰی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں ہمیشہ اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ نے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔ پھر آپ صلّٰی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اعتکاف کا اہتمام کرتی تھیں۔ (بخاری و مسلم) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلّٰی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے لیکن جس سال آپ صلّٰی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس سال آپؐ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرہ میں اعتکاف فرمایا اور پھر دوسرے عشرہ میں بھی پھر خیمہ سے جس میں اعتکاف فرما رہے تھے، باہر سر نکال کر ارشاد فرمایا کہ میں نے پہلے عشرہ کا اعتکاف شب قدر کی تلاش میں اور اہتمام کی وجہ سے کیا، پھر دوسرے عشرہ میں کیا، پھر مجھے کسی (یعنی فرشتہ نے) بتایا کہ وہ رات آخری عشرہ میں ہے، لہٰذا جو لوگ میرے ساتھ اعتکاف کر رہے ہیں وہ آخری عشرہ کا بھی اعتکاف کریں۔ (مسلم شریف ص:270، ج:1)
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کرنے والے کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ (اعتکاف کرنے والا) اعتکاف اور مسجد میں مقید ہوجانے کی وجہ سے گناہوں سے بچتا رہتا ہے اور نیکیوں کا اجر و ثواب نیکی کرنے والے بندے کی طرح جاری و ساری رہتا ہے اور نامۂ اعمال میں درج ہوتا رہتا ہے۔ (مشکوٰۃ ص:183، ج:1)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنِ اعْتَکَفَ یَوْمًاابْتِغَائَ وَجْہِ اللّٰہِ جَعَلَ اللّٰہُ بَیْنَہٗ وَ بَیْنَ النَّارِ ثَلاَثَ خَنَادِقَ کُلُّ خَنْدَقٍ اَبَعَدُ مِمَّا بَیْنَ الْخَافِقِیْن۔(طبرانی، المعجم الاوسط 221:7 رقم 7326، بیہقی شعب الایمان 425:3، رقم 3965، ہیشمی مجمع الزوائد 192:8)
جو شخص اللہ کی خوشنودی کے لئے ایک دن کا اعتکاف کرتا ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کر دیتا ہے۔ ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبی ہے۔
حضرت علی (زین العابدین) بن حسین اپنے والد حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: من اعتکف عشرا فی رمضان کان کحجتین و عمرتین۔(بیہقی شعب الایمان باب الاعتکاف 425:3، رقم 3966 الترغیب والترتیب ص:149، ج:2) جس شخص نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کیا اس کا ثواب دو حج اور دو عمرہ کے برابر ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے اعتکاف کرے گا، اس کے پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ (کنز العمال ص:244، ج:8)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے دودھ دوہنے کی مقدار بھی (نفلی) اعتکاف کیا اس نے ایک جان (غلام) کو آزاد کیا، ایک روایت میں ہے کہ جو شخص مغرب سے عشاء تک مسجد جماعت میں اعتکاف کرے اور سوائے نماز کے اور تلاوت قرآن کریم کے اور گفتگو نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں محل بنا دیں گے۔ (شمائل کبریٰ ص:194، ج:8)
اعتکاف کے فوائد
اعتکاف شریعت مطہرہ کا حکم ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ شریعت کا کوئی بھی حکم بے شمار فائدے اور لامتناہی حکمتوں سے خالی نہیں۔ یہاں اعتکاف کے چند فوائد اور حکمتوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ شیطان انسان کا قدیمی و ازلی دشمن ہے لیکن انسان جب خانۂ خدا میں ہوتا ہے تو گویا وہ ایک مضبوط قلعے میں ہوتا ہے جس سے شیطان کا معتکف پر داؤ نہیں چلتا اور وہ معتکف کا کچھ بگاڑ نہیں پاتا۔ لوگوں سے ملنے جلنے اور کارو بار کی مشغولیتوں میں جو انسان سے چھوٹے موٹے بہت سے گناہ ہوجاتے ہیں۔ بندہ اعتکاف میں ان سے محفوظ رہتا ہے، اسے عبادت کا ثواب ملتا رہتا ہے۔ خواہ وہ خاموش بیٹھا رہے۔ اعتکاف کرنے والے کا ہر منٹ عبادت کے طور پر لکھا جاتا ہے، شب قدر حاصل کرنے کا بھی اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں کیوں کہ جب بھی شب قدر آئے گی تو معتکف بہر حال عبادت میں ہوگا۔
اعتکاف تمام عبادتوں میں ایک نرالی شان رکھتی ہے جس میں انسان دنیاوی مشاغل چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے در پر پڑا رہتا ہے جس سے پوری توجہ کے ساتھ عبادت میں مشغول رہنے کا موقع میسر ہوتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک خاص تعلق اور قربت پیدا ہوتی ہے۔
اعتکاف کا مقصد
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اعتکاف کا مقصد اور اس کی روح دل کو اللہ کی پاک ذات کے ساتھ وابستہ کر لینا ہے کہ سب طرف سے ہٹ کر اسی کے ساتھ مجتمع ہوجائے اور ساری مشغولیات کے بدلے میں اسی پاک ذات سے مشغول ہوجائے اور اس کی غیر کی طرف سے منقطع ہو کر اس طرح اس میں لگ جائے کہ خیالات اور تفکرات سب کی جگہ اس کا پاک ذکر اور اس کی محبت سما جائے، یہاں تک کہ مخلوق کے ساتھ انس (محبت) کے بدلے اللہ کے ساتھ محبت پیدا ہوجائے کہ یہ انس قبر کی وحشت میں کام دے، جس دن اللہ کی پاک ذات کے سوا نہ کوئی مونس ہوگا، نہ دل بہلانے والا، اگر دل اس کے ساتھ مانوس ہوچکا ہوگا تو کس قدر لذت سے وقت گزرے گا۔
اعتکاف کا مقصد بھی یہی ہے کہ آدمی بارگاہ ایزدی کی چوکھٹ پر اپنا سر رکھ کر سرور اور خوشی کا مینار تعمیر کرتا رہے اور اپنی زبان کو اسی کے ذکر سے تر رکھے، کیوں کہ بندہ سب کو چھوڑ کر بارگاہ عالی میں حاضر ہوا ہے۔ تو اس مولائے کریم سے ہر وقت یہ درخواست کرتا رہے کہ اے کریم آقا ہمیں معاف فرما دے اگر تو نے معاف نہیں کیا تو میں تیرے در کو چھوڑ کر اور کہاں جاؤں گا۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب کوئی شخص کریم آقا کے دروازے پر دنیا سے منقطع ہوکر جا پڑے تو اس کے نوازے جانے میں کیا تأمل ہوسکتا ہے۔ معتکف کو چاہئے کہ خدائے ذوالجلال سے ہر وقت مغفرت کی طلب کرتا رہے اور اس سے صحیح عبادت کرنے کی توفیق مانگتا رہے کہ اے اللہ! ہمیں صحیح عبادت کرنے کی توفیق عطا فرما۔ معتکفین شرعی حدود کے مطابق اعتکاف کرپاوے یا نہ پاوے لیکن معتکفین کے دس روزے شرعی حدود کے مطابق ضرور پورے ہوتے ہیں۔
اعتکاف کی اقسام
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں۔
(1)واجب اعتکاف
یہ نذر (منت) ماننے کی وجہ سے لازم ہوتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص یہ نذر (منت) مانے کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں اتنے دن تک اعتکاف میں بیٹھوں گا۔ نذر کے لئے روزہ کے ساتھ کم از کم ایک دن کا اعتکاف ضروری ہوتا ہے یہ نذر مطلق کہلاتا ہے۔ نذر مقید یہ ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس بیماری سے شفا عطا فرما دے گا تو میں رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف کروں گا۔ نذر کی درستگی کے لئے زبان سے الفاظ ادا کرنا ضروری ہے، صرف دل کی نیت اور ارادہ سے یہ نذر درست نہیں ہوتی ہے۔ اسی طرح نذر کے لئے مکمل ایک دن کا روزہ اعتکاف کے لئے شرط ہے ورنہ بغیر روزہ اور مکمل ایک دن کے اعتکاف کے لئے نذر درست نہیں ہوگا۔ (بدائع الصنائع)
(2)مسنون اعتکاف
یہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف ہے جو سنت علی الکفایہ ہے۔ یعنی محلہ میں اگر ایک شخص بھی اعتکاف کر لے تو سب کے ذمہ سے ساقط ہوجائے ورنہ سب ترک سنت کے گناہ گار ہوں گے۔ رمضان المبارک کی بیس تاریخ کو سورج غروب ہونے سے کچھ پہلے اعتکاف شروع کیا جاتا ہے اور عید کا چاند نظر آنے تک جاری رہتا ہے۔ اس اعتکاف کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے تقرب کے ساتھ شب قدر کی عبادت حاصل ہوجاتی ہے۔ جس میں عبادت کرنا اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ہزار مہینوں یعنی 83 سال کی عبادت سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ 2 ہجری میں روزہ کی فرضیت کے بعد رسول اللہ صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے تادم حیات رمضان المبارک کے اس آخری عشرہ کا اعتکاف فرمایا۔ (ہدایہ ص:209، ج:1)
(3)مستحب اعتکاف
جب بھی آدمی مسجد میں داخل ہو تو یہ نیت کر لے کہ جب تک میں اس مسجد میں رہوں گا اعتکاف کی نیت کرتا ہوں۔ اس اعتکاف میں وقت اور روزہ کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ مسجد سے نکلنے پر اعتکاف ختم ہوجاتا ہے۔
اعتکاف میں بیٹھنے کی شرائط
اعتکاف میں بیٹھنے کی چھ شرائط ہیں (1)مسلمان ہونا (2)اعتکاف کی نیت کرنا (3)حدث اکبر (یعنی جنابت) اور حیض و نفاس سے پاک ہونا (4)عاقل ہونا (5)مسجد میں اعتکاف کرنا (6)اعتکاف واجب (نذر) کے لئے روزہ بھی شرط ہے۔
وہ اعمال جن سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے
(1) بیوی سے ہم بستری کرنا، خواہ رات میں ہو یا دن میں، جان بوجھ کر ہو یا بھول کر، انزال ہو یا نہ ہو، مسجد میں ہو یا مسجد سے باہر، ہر صورت میں اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ (رد المحتار ص: 438، ج:2)
(2) بلا عذر شرعی و طبعی دن کا اکثر حصہ مسجد سے باہر گزارنا اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ (بدائع الصنائع ص:286، ج:2)
(3) عورتوں کو دوران اعتکاف حیض یا نفاس کا آجانا کیوں کہ یہ دونوں روزہ کے منافی ہیں اور اعتکاف بغیر روزہ درست نہیں، اس لئے اس خون کے آجانے سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ (رد المحتار ص:438، ج:2)
(4) دن میں جان بوجھ کر کوئی چیز کھا پی لینا، کیوں کہ یہ روزہ کے منافی ہے، اس لئے اس سے بھی اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ (فتح القدیر ص:316، ج:3)
(5) اسلام سے مرتد (منحرف) ہوجانے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ اس صورت میں قضا بھی لازم نہیں گو بعد میں دو بارہ اسلام قبول کر لے۔
(فتاویٰ قاضی خاں ص:226، ج:1)
(6) مسجد منہدم ہوجائے اور اعتکاف کرنے والا دن کا اکثر حصہ گزر جانے سے پہلے کسی دوسری مسجد میں منتقل نہ ہوسکے تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
(رد المحتار ص:439ج:3)
(7) بے ہوشی اور جنون کی وجہ سے کوئی روزہ ٹوٹ جائے۔ کیوں کہ اعتکاف بغیر روزہ درست نہیں۔ اس لئے اس دن کا اعتکاف بھی ٹوٹ جائے گا۔
(رد المحتار ص:443، ج:3)
(8) دن میں نشہ طاری ہو جانے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ (رد المحتار ص: 493، ج:3)
(9) مسلم آبادی منتشر ہو جانے کی وجہ سے مسجد ویران ہو جائے کہ اس میں پانچ وقت کی نماز نہ ہو رہی ہو تو اس مسجد میں بھی اعتکاف کرنے سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ (فتح القدیر ص:311، ج:2)
وہ اعمال جن سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا
(1) دوران اعتکاف، اعتکاف کرنے والا بالغ ہوجائے، اس سے اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔ (فتح القدیر ص:311، ج:2)
(2) رات و دن کسی بھی وقت غسل کی ضرورت پیش آجائے، اس سے بھی اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔ (بدائع الصنائع ص:287، ج:2)
(3) جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے جائے اور وہیں ٹھہر جائے، یہ مکروہ تو ہے مگر اس سے اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔ چوبیس گھنٹے کے گزرنے کے بعد پھر اپنی پہلی جگہ آجائے یا اعتکاف کی بقیہ مدت وہیں گزارے، ہر دو صورت اس کا اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔ ( امداد الاحکام ص:314، ج:1)
(4) دوران اعتکاف کسی عورت کو دیکھنے یا کسی کی محبت میں اس طرح کھو جائے کہ انزال ہوجائے۔ اس صورت میں بھی اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔
(فتاویٰ قاضی خاں ص:222، ج:1)
(5) دن میں بھول کر کھا پی لینے سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا ہے۔ (فتح القدیر ص:316، ج:1)
(6) گالی گلوج اور لڑائی جھگڑا نہایت برا اور گناہ کا کام ہے۔ لیکن اس اعتکاف نہیں ٹوٹتا ہے۔ (فتاویٰ ہندیہ ص:213، ج:1)
(7) دوسرے کا مال بغیر اس کی اجازت لینا شرعاً ناجائز ہے، لیکن اگر دوران اعتکاف لیکر استعمال کر لیا تو اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔
(فتاویٰ ہندیہ ص:213، ج:1)
(8) رات میں نشہ طاری ہو جانے سے بھی اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔ (فتح القدیر ص:316، ج:2)
(9) دوران اعتکاف ہنسی مذاق کرنے سے بھی اعتکاف نہیں ٹوٹتا ہے۔ (فتاویٰ قاضی خاں ص:223، ج:1)
(10) بیٹری، سگریٹ، حقہ، گٹکا اور تمباکو کی شدید حاجت ہو اور کسی بھی طرح سے برداشت نہ ہوسکے تو استنجاء وغیرہ کے لئے مسجد سے باہر نکلتے وقت اس ضرورت کو پورا کر لے اور منہ صاف کرکے فوراً مسجد چلا آئے۔ اس سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا ہے۔(فتاویٰ رشیدیہ ، ص:461)
مندرجہ ذیل صورتوں میں اعتکاف توڑ دینا جائز ہے
(1) دوران اعتکاف سخت بیمار ہوجائے کہ مسجد میں رہتے ہوئے علاج ممکن نہ ہو تو پھر علاج کی غرض سے اعتکاف کا توڑ دینا جائز ہے۔
(فتاویٰ ہندیہ ص:213، ج:1)
(2) نماز جنازہ پڑھنے اور مردے کو دفنانے والا کوئی نہ ہو تو ایسی صورت میں اعتکاف کا توڑ دینا جائز ہی نہیں بلکہ واجب بھی ہے۔
(الدر الحکام ص:214، ج:1)
(3) آگ میں جلنے اور پانی میں ڈوبنے والے کو بچانے کی خاطر اعتکاف کا توڑ دینا جائز ہے۔ اگر وہاں اس کے علاوہ کوئی بھی نہ ہو تو پھر ایسی صورت میں اعتکاف کا توڑ دینا واجب ہو جائے گا۔ (البحر الرائق ص:529، ج:2)
(4) مسجد منہدم ہوجائے تو بہتر ہے کہ قریب کی کسی دوسری مسجد میں منتقل ہوجائے۔ لیکن اگر وہ اعتکاف توڑ دیتا ہے تو یہ جائز ہے۔
(رد المحتار ص:438، ج:3)
(5) مسجد کے ارد گرد مسلم آبادی کے منتشر ہوجانے سے مسجد ویران ہوجائے کہ اس میں باجماعت نماز ادا نہ کی جارہی ہو تو پھر اعتکاف کا توڑ دینا جائز ہے۔
(فتح القدیر ص:311، ج:3)
(6) اعتکاف کرنے والے کو کسی بھی طرح سے جان یا مال کا خوف ہو تو پھر ایسی صورت میں اعتکاف توڑا جاسکتا ہے۔ (رد المحتار ص: 439، ج:3)
(7) ماں، باپ، بیوی، بچے یا کسی قریبی رشتہ دار کی سخت بیماری کی وجہ سے اعتکاف توڑا جاسکتا ہے۔ (شامی ص:439، ج:3)
(8) حکومت کی طرف سے گرفتاری کا وارنٹ ہو یا کسی بھی وجہ سے مسجد سے نکلنے پر مجبور ہونا پڑے تو اس صورت میں بھی اعتکاف توڑنا جائز ہے۔
(فتاویٰ قاضی خاں ص:222، ج:1)
(9) جہاد میں شرکت جب کہ وہ ضرری ہو یا ادائیگی شہادت (گواہی دے) جب کہ اس کی شہادت پر فیصلہ موقوف ہو تو پھر ایسی صورت میں اعتکاف کا توڑنا جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے۔ (الدرر الحکام ص:214، ج:1)
مندرجہ بالا صورتوں میں اعتکاف توڑ دینے سے گناہ تو نہیں ہوتا لیکن بعد میں اس کی قضا ضروری ہے۔
مکروہات اعتکاف
اعتکاف کی حالت میں مندرجہ ذیل امور مکروہ ہیں:
(1) بلا عذر شرعی و طبعی ایک لمحہ کے لئے بھی مسجد سے باہر نکلنا (2)شرعی اور طبعی حاجت سے فراغت کے بعد مسجد آنے کی بجائے کسی اور جگہ ٹھہرنا (3)مسجد میں خرید و فروخت کے غرض سے سامان لانا (4)مسجد کو تجارت گاہ بنانا (5)اجرت لیکر کپڑے سینا، تعلیم دینا اور کتابت سکھانا (6)عبادت کے خیال سے بالکل خاموش رہنا (7)غیر ضروری اور غیر مباح گفتگو کرنا (8)بیوی سے مباشرت فاحشہ کرنا اگرچہ نفس پر قابو ہو کہ ہم بستری نہیں کرے گا۔ اسی طرح بوس و کنار، چھونے اور معانقہ کرنے سے بھی حتیٰ الوسع پرہیز کرنا چاہئے۔
مباحات اعتکاف
بعض باتیں اعتکاف کی حالت میں مباح اور جائز ہیں (1)کھانا پینا (2)سونا، (3)ضروری خرید و فروخت کرنا بشرطیکہ سودا (سامان) مسجد میں نہ لایا جائے اور خرید و فروخت ضروریات زندگی کے لئے ہو لیکن مسجد کو باقاعدہ تجارت گاہ بنانا جائز نہیں (4)حجامت کرانا بشرطیکہ بال مسجد میں نہ گریں۔ (5)بات چیت کرنا لیکن فضول گوئی سے پرہیز ضروری ہے۔ (6)نکاح یا کوئی عقد کرنا (7)کپڑے بدلنا، خوشبو لگانا، سر میں تیل لگانا (8)مسجد میں کسی مریض کا معائنہ کرنا اور نسخہ لکھنا یا دوا بتا دینا (9)قرآن کریم یا دینی علوم کی تعلیم دینا (10) کپڑے دھونا اور کپڑے سینا البتہ کپڑے دھوتے وقت پانی مسجد سے باہر گرے اور خود مسجد میں رہیں، یہی حکم برتن دھونے کا بھی ہے۔ (احکام اعتکاف ص:48) (11) ناخن کاٹنا، مونچھیں کاٹنا، خط بنانا جائز ہے، لیکن بال ناخن وغیرہ مسجد میں نہ گریں۔ (مسائل اعتکاف ص:42) حسب ضرورت سامان مسجد میں رکھنا جائز ہے۔ (13)چار پائی بھی مسجد میں رکھ سکتا ہے لیکن اتنا ضرور خیال کیا جائے کہ وہ مسجد کے ایک گوشے میں رہے۔
(14) بالوں میں کنگھا کرنا (15) مسجد کے کسی بھی حصے کو اعتکاف گاہ کے لئے مقرر کرنا (16) حج یا عمرہ کا احرام باندھنا، لیکن یہ خیال رہے کہ جتنے دنوں کا اعتکاف ہے، اسے پورا کرکے ہی مسجد سے نکلے۔ ہاں البتہ اگر حج فوت ہوجانے کا اندیشہ ہو تو پھر ایسی حالت میں اعتکاف توڑ دے اور حج کو چلا جائے، بعد میں توڑے ہوئے اعتکاف کی قضا کر لے۔ کیوں کہ حج اعتکاف سے بہر حال مہتم بالشان ہے۔
(بدائع الصنائع ص:288، ج:2)
ممنوعات اعتکاف
درج ذیل باتیں اعتکاف کی حالت میں ممنوع و حرام ہیں:
(1)بیوی سے تعلقات رکھنا، شہوت سے اس کو چھونا بھی حرام ہے۔ (2)بعض باتیں ویسے بھی حرام ہیں مگر مسجد میں اور اعتکاف کی حالت میں ان کو کرنا اور بھی سخت حرام ہے۔ مثلاً غیبت کرنا، چغلی کرنا، لڑنا اور لڑانا، جھوٹ بولنا اور جھوٹی قسمیں کھانا، بہتان لگانا، کسی مسلمان کو ناحق ایذا پہنچانا، کسی کے عیب تلاش کرنا، کسی کو رسوا کرنا، تکبر اور غرور کی باتیں کرنا، ریا کاری کرنا وغیرہ۔ (مسائل اعتکاف ص:42)
مفسدات اعتکاف
یعنی اعتکاف کو فاسد کرنے والی چیزیں۔ بعض باتوں سے اعتکاف فاسد ہوجاتا ہے۔ (2)معتکف اگر مسجد سے یا عورت اپنی اعتکاف کی جگہ سے حاجت شرعیہ اور حاجت طبعیہ کے بغیر نکلے تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ اگر بھول کر نکل جائے تب بھی اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ (3)کسی نے زبردستی باہر نکال دیا تب بھی اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے مگر اس صورت میں گنہگار نہ ہوگا۔ بعد میں قضا کر لے۔ (4)اگر میت کو نہلانے، کفن دینے، جنازہ پڑھنے گیا تب بھی اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ (مسائل اعتکاف) (5)مریض کی عیادت کے لئے نکلا خواہ بیٹا، بیوی کیوں نہ ہو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ (6)کسی کے بارے میں گواہی دینا ضروری تھا اس کے لئے مجبوراً نکلا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ (7)اگر روزہ کسی وجہ سے فاسد ہو گیا تو اعتکاف بھی فاسد ہوجائے گا۔ (8)اپنی بیماری کے علاج کے لئے ڈاکٹر کے پاس گیا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ (9)پاخانہ پیشاب کے لئے نکل کر فارغ ہونے کے بعد ٹھہر گیا، رک کر کسی سے باتیں کرنے لگا تو اعتکاف فاسد ہوگیا۔ (10) بال اور حجامت بنوانے کے لئے نکلا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ (11)جمعہ کے غسل کے لئے جو مستحب ہے مسجد سے باہر غسل خانہ میں جانے سے اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ (12)منجن یا مسواک کرنے (کلی کرنے) کے لئے نکلا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ (13)بیڑی سگریٹ پینے (اسی طرح نسوار ڈالنے) کے لئے مسجد سے باہر نکلا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا اور مسجد میں ان چیزوں کا استعمال جائز نہیں۔ (14)گاؤں میں جہاں جمعہ واجب نہیں اگر اس مسجد سے معتکف جمعہ پڑھنے کے لئے نکلا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ (شمائل کبریٰ ص:200، ج:8) (15)اعتکاف کی حالت میں بیوی سے صحبت کی تو اس سے بھی اعتکاف فاسد ہوگیا۔ (16)بیوی سے صرف بوس و کنار بھی حالت اعتکاف میں ناجائز ہے اگر اس سے انزال ہوگیا تو اعتکاف بھی ٹوٹ گیا۔ (17)کوئی شخص مسجد کے کسی حصے کو مسجد سمجھ کر چلا گیا (مثلاً امام کے کمرہ میں گیا حالانکہ وہ تو عام طور پر مسجد سے باہر ہوتا ہے، اس نے اس کو مسجد کا حصہ سمجھا اور اندر چلا گیا) حالانکہ درحقیقت وہ حصہ مسجد میں شامل نہیں تھا تو اس سے بھی اعتکاف فاسد ہوگیا۔ (احکام اعتکاف ص:44) (18)کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کے لئے مسجد سے نکلا تو اعتکاف فاسد ہوگیا۔ (احسن الفتاویٰ ص:510، ج:4) (19)اگر معتکف امام مسجد ہے اور نماز جنازہ پڑھانے کے لئے نکلا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ (20)عورت کو اگر اعتکاف کے دوران حیض (ماہواری) آجائے تو اعتکاف ختم ہوجائے گا۔ یا کسی کے بعد روزہ رکھ کر ایک دن کی اعتکاف کی قضا کر لے۔ (21)اگر وضو سے قبل وضو خانہ پر بیٹھ کر صابن سے ہاتھ منہ دھوئے تو اس سے اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ (22)اگر وضو کے بعد وضو خانہ پر کھڑے ہوکر رومال سے وضو کا پانی خشک کیا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ (احسن الفتاویٰ ص:517، ج:4) (23)اگر عورت اعتکاف میں ہے اور درس دینے کے لئے ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جائے تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ (24)جو مسجد کئی منزلہ ہو اس کی اوپر منزل میں اعتکاف ہوسکتا ہے اور کسی اور ایک منزل میں اعتکاف کی فرض سے بیٹھ جانے کے بعد اس کی دوسری منزل پر بھی اعتکاف کیا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ آنے جانے کا زینہ (سیڑھی) مسجد کے اندر ہی ہو۔ حدود مسجد سے باہر نہ ہو، اگر مسجد کی حدود سے دو چار سیڑھی بھی باہر ہو جاتی ہو تو بھی جائز نہیں ہے۔ (25)اعتکاف سے اگر بغیر شرعی و طبعی حاجت کے مسجد سے نکلا اور ایک پاؤں مسجد سے نکالا اور ایک پاؤں مسجد کے اندر ہے تو اعتکاف نہیں ٹوٹا اور اگر دونوں پاؤں مسجد سے نکالے تو تب اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ (فتاویٰ محمودیہ ص:297، ج:7) (26)اعتکاف کے دوران کوئی ووٹ ڈالنے گیا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ (27)کوئی طالب علم اعتکاف میں بیٹھا ہو تو علم حاصل کرنے کے لئے مسجد سے باہر نہیں جاسکتا، گیا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ (28)کوئی ماسٹر صاحب اعتکاف میں بیٹھے اور ٹیوشن پڑھانے کے لئے مسجد سے نکلے تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ (فتاویٰ محمودیہ ص:154، ج:13)
دوران اعتکاف مستحب اعمال
(1) دوران اعتکاف زیادہ سے زیادہ قرآن کریم کی تلاوت کی جائے۔
(2) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا جائے۔
(3) درود شریف کثرت سے پڑھا جائے، تکبیر اولیٰ کا خاص اہتمام کیا جائے۔
(4) دینی اور مذہبی کتابوں کی تعلیم لی اور دی جائے۔
(5) مسنون و ماثور دعاؤں کا اہتمام کیا جائے۔
(6) وعظ و نصیحت کی باتیں کی جائیں۔
(7) بقدر سہولت صلوٰۃ التسبیح (تسبیح کی نماز) پڑھی جائے۔
(8) اشراق، چاشت، اوابین، تہجد، تحیۃ المسجد اور تحیۃ الوضو بالالتزام پڑھی جائے۔
(9) فجر کی نماز سے اشراق تک اور عصر کی نماز سے غروب آفتاب تک زیادہ سے زیادہ خیر کے کاموں مثلاً ذکر و اذکار، دعائے ماثورہ اور تلاوت قرآن کریم۔ جس شخص کے ذمہ گزشتہ نمازیں قضا باقی ہیں وہ زیادہ نوافل پڑھنے کے بجائے اپنا وقت قضا نمازوں میں گزارے تاکہ موت سے پہلے فرائض واجبات ذمے سے ساقط ہوجائیں۔
(10) رمضان المبارک کے اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں خاص طور پر عبادت میں زیادہ وقت لگایا جائے اور ان راتوں کے ایک ایک لمحہ میں اپنے آپ کو عبادات میں مستغرق رکھا جاے اور کثرت سے شب قدر کی یہ دعا پڑھتا رہے اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُوْا عَنِّیْ۔
(11) جہاں تک ہو سکے اپنے قول و عمل سے کسی کو بھی ذرہ برابر تکلیف نہ پہنچائی جائے اور نہ کسی بھی طرح سے کسی کی دل آزاری کی جائے۔
مسجد کی حد
مسجد وہ حصہ ہے جسے بانی مسجد نے مسجد قرار دیکر وقف کیا ہو۔ لہٰذا بعض مقامات کو ہم تو مسجد کہتے ہیں مگر وہ شرعاً مسجد نہیں ہوتے۔ مثلاً وضو خانہ، غسل خانہ، امام کا حجرہ وغیرہ۔ ان پر مسجد کے احکام جاری نہ ہوں گے، لہٰذا معتکف ان جگہوں میں بغیر شرعی حاجت کے چلا گیا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ عام طور پر مسجد کی سیڑھیاں بھی مسجد سے باہر ہوتی ہیں، جن کے ذریعے اوپر منزل پر جاتے ہیں، لہٰذا ان سیڑھیوں پر بھی بغیر شرعی حاجت کے گیا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ ہاں وہ سیڑھیاں اگر مسجد کے اندر ہوں تو پھر ان سیڑھیوں پر جانا اور ان کے ذریعے اوپر والی منزل پر بھی جانا جائز ہے۔ بعض مساجد میں امام کا حجرہ اور بچوں کے پڑھنے کی جگہ بھی مسجد سے باہر ہوتی ہے۔ وہاں جانے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ اسی طرح بعض مساجد میں سامان رکھنے کے اسٹور واور گودام بھی مسجد سے باہر ہوتے ہیں، وہاں جانے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ بعض مساجد کے صحن میں حوض بنا ہوتا ہے وہ بھی مسجد سے خارج ہوتا ہے، وہاں جانے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ اسی طرح بعض مساجد میں کلی وغیرہ کرنے کے لئے جوتوں کی جگہوں پر واش بیسن لگے ہوتے ہیں، وہ مسجد سے عموماً باہر ہوتے ہیں وہاں جاکر کلی کرنے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ اسی طرح معتکف نے افطاری کی، کھانا کھایا تو صرف ہاتھ دھونے اور کلی کرنے کے لئے وضو خانے نہیں جاسکتا، گیا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ ہاں وضوکرنے جائے تو ساتھ میں ہاتھ بھی دھل جائیں گے اور کلی بھی ہوجائے گی۔ عام طور پر مسجد سے متصل وضو خانے، غسل خانے اور پاخانے ہوتے ہیں، اس لئے عام طور پر لوگ اس کو بھی مسجد کا حصہ سمجھتے ہیں جو صحیح نہیں۔ اس لئے لوگ احتیاط نہیں کر پاتے، کبھی ہمارا وضو ہوتا ہے اور ہم تازہ وضو کے لئے جاتے ہیں یا میل کچیل، صفائی اور نظافت کے لئے غسل کرتے ہیں اس خیال سے کہ یہ بھی مسجد ہے بے دھڑک نہاتے ہیں اور روز نہاتے ہیں اور اچھا سمجھ کر وضو پر تازہ وضو کرتے ہیں۔ احادیث و فقہ کے متن کی روشنی میں اس کی بالکل گنجائش نہیں معلوم ہوتی۔ البتہ کسی بڑے ٹب میں بیٹھ کر غسل کرنا یا تازہ وضو کرنا ممکن ہو تو مسجد کے اندر ہی ایسا کیا جاسکتا ہے، مگر شرط ہے کہ مسجد میں پانی نہ گرنے پائے۔ بہتر ہے کہ رومال وغیرہ کو بھگو کر بدن پونچھ لیا جائے، جیسا کہ رسول اللہ صلّٰی اللہ علیہ وسلم اپنا سر مبارک باہر نکال دیتے اور پورا جسم اطہر مسجد کے اندر رہتا تھا۔
اعتکاف کا رکن اعظم
اعتکاف کا رکن اعظم یہ ہے کہ دوران اعتکاف مسجد کے حدود میں رہے اور حوائج ضروریہ کے سوا مسجد سے ایک لمحہ کے لئے بھی نہ نکلے۔ اب ذرا حدود مسجد کی شرح بھی سمجھ لی جائے۔ ہمارے یہاں عرف میں مسجد کی پوری چہار دیواری مسجد بولی جاتی ہے۔ مگر مسجد کے اندر مسجد کی دیگر ضروریات کے لئے بھی جگہ یا کمرہ ہوتا ہے، مثلاً مسجد کا آفس، امام و مؤذن کے کمرے، غسل خانے، استنجا اور بیت الخلاء کے مقام،وضو خانہ، نماز جنازہ کے لئے جگہ وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ یہ فنائے مسجد تو ہیں مگر مسجد نہیں، مسجد تو وہی حصہ ہے جہاں نماز ہوتی ہے اور معتکف کو اسی جگہ محصور کر دیا گیا ہے، البتہ شرعی اور طبعی ضرورت سے وہ مسجد کے باہر اپنی ضروریات پوری کرنے کی حد تک تو جاسکتا ہے مگر راستہ میں نہ وہ بلا ان سببوں کے ٹھہر سکتا ہے اور نہ فضول بات کر سکتا ہے، البتہ چلتے چلتے بلا رکے اور ٹھہرے مزاج پرسی علیک سلیک کر سکتا ہے، رک کر اور ٹھہر کر یہ کام بھی نہیں کر سکتا، کوئی ڈاکٹر یا حکیم ہے تو مسجد کے اندر نسخہ وغیرہ لکھ سکتا ہے۔
اعتکاف کی جگہیں
اعتکاف کی سب سے افضل جگہ مسجد حرام، پھر مسجد نبوی اور اس کے بعد مسجد اقصیٰ ہے اور ان مساجد کے بعد جامع مسجد ہے، یوں تو کسی مسجد میں بھی اعتکاف کیا جاسکتا ہے۔ (بدائع الصنائع ص:28، ج:2)
ضرورت شرعیہ کی وضاحت
معتکف کو پیش آنے والی حاجتیں تین قسموں کی ہوتی ہیں (1)حاجت شرعیہ (2)حاجت طبعیہ (3)حاجت ضروریہ۔ حاجت شرعیہ جن امور کی ادائیگی شرعاً فرض واجب ہو اور اعتکاف کی جگہ میں معتکف انہیں ادا نہ کر سکتا ہو ان کو حاجت شرعیہ کہتے ہیں۔ جیسے نماز جمعہ، عیدین اور اذان یعنی اگر اذان کہنے کی جگہ مسجد سے باہر ہو وہاں جانا بھی حاجت کے ضمن میں آتا ہے۔ ان سے اعتکاف باطل نہیں ہوگا۔ (2)حاجت طبعیہ جیسے پاخانہ، پیشاب اور غسل جنابت یعنی احتلام ہو جانے کی صورت میں غسل کرنا۔ یہ ایسے امور ہیں جن کو کرنے کے لئے انسان مجبور ہے اور یہ کام مسجد میں نہیں کیا جاسکتا۔ حاجت ضروریہ معتکف کو اچانک کوئی ایسی شدید ضرورت پیش آجائے جس کی وجہ سے اسے اعتکاف کی جگہ چھوڑنا پڑ جائے تو ایسی باتوں کو حاجت ضروریہ کہتے ہیں۔ مثلاً مسجد گرنے لگے اور معتکف کو دب جانے کا خطرہ ہو جائے یا ظالم حاکم گرفتار کرنے آجائے یا ایسی شہادت دینا ضروری ہوگئی ہو جو شرعاً معتکف کے ذمہ واجب ہے کہ مدعی کا حق اس کی شہادت پر موقوف ہے، دوسرا کوئی گواہ نہیں ہے، اگر معتکف گواہی نہ دے تو مدعی کا حق فوت ہوجائے گا یا کوئی آدمی یا بچہ پانی میں ڈوب رہا ہے یا آگ میں گر پڑا ہے یا خطرہ ہے یا سخت بیمار ہوگیا یا گھر والوں میں سے کسی کی جان، مال، آبرو کا خطرہ ہے یا جنازہ آگیا ہے اور جنازہ کی نماز کوئی بھی پڑھانے والا نہیں یا جہاد کا حکم ہوگیا اور جہاد میں شریک ہونا فرض عین ہوگیا ہو یا کسی نے زبردستی ہاتھ پکڑ کر مسجد سے نکال دیا یا جماعت کے نمازی سب چلے گئے، اب مسجد میں جماعت کا انتظام نہ رہا، اس قسم کی ساری حاجات ضروریہ کہلاتی ہیں۔ اکثر صورتوں میں اعتکاف ترک کرنا فرض اور واجب ہوجاتا ہے اور اعتکاف چھوڑنے کا گناہ بھی نہیں ہوتا۔ رہا اعتکاف چھوڑ دینا تو اس کی قضا کرنا ہوگی۔
فضائل و مسائل اعتکاف
مفتی عبدالرشید صاحب قاسمی ودیشوی دامت برکاتہم
اعتکاف اس کو کہتے ہیں کہ یہ ارادہ کرکے مسجد میں پڑا رہے کہ اتنے دنوں تک بدون پیشاب پائیخانہ وغیرہ کی مجبوری کے یہاں سے نہ نکلوں گا۔
(حیاۃ المسلمین)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا! جو شخص رمضان المبارک میں (آخری) دس روز کا اعتکاف کرے گا وہ دو حج و دو عمروں کا ثواب پائے گا۔
ایسے اعتکاف کی فضیلت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ عشرہ اخیر کا اعتکاف فرماتے تھے۔ (لہٰذا ہر مؤمن کو عمر میں ایک بار تو اس سنت کو حاصل کر ہی لینا چاہیے)
۱۔ رمضان المبارک کے اخیر دس دن میں اعتکاف کی نیت سے مسجد میں رہنا ایسی سنت ہے جو سب کے ذمہ ہے لیکن اگر بستی میں ایک بھی کر لے تو سب کی طرف سے کافی ہے۔ (ص:129، ج:2، در علی الشامی)
۲۔ اعتکاف کے لئے تین چیزیں ضروری ہیں۔
(الف) مسجد باجماعت میں ٹھہرنا۔
(ب) اعتکاف کی نیت کرکے ٹھہرنا (اگر بغیر ارادہ مسجد میں ٹھہرے گا تو اعتکاف ادا نہ ہوگا)
(ج) حیض و نفاس و جنابت سے پاک ہونا۔
۳۔ اعتکاف رمضان کے لئے روزہ شرط ہے۔ (ص: 130، ج: 2، در علی الشامی)
۴۔ عورت عشرۂ اخیرہ کا اعتکاف اپنے گھر نماز پڑھنے کی جگہ مقررہ جگہ پر کر لے تو جائز ہے۔ (ص: 110، ج: 1، فتاویٰ رحیمیہ)
۵۔ حالت اعتکاف میں بیوی سے ضروری بات جائز ہے۔ (ص: 272، ج: 2، فتاویٰ رحیمیہ)
۶۔ بڑے قصبہ کی مسجد میں اعتکاف کرنے سے چھوٹی بستی والوں کے ذمہ سے یہ سنت ادا نہ ہوگی۔ (501، فتاویٰ دارالعلوم) لہٰذا ہر بستی اور ہر محلہ میں اعتکاف کرنا چاہئے۔
۷۔ معتکف کو بھی مسجد میں ریاح خارج کرنے کی اجازت نہیں ہے، مسجد سے باہر چلا جائے جیسے پائخانہ کے لئے جاتا ہے۔ (کلمۃ الحق) البتہ اگر ریاح (بار بار) خارج ہونے کا مرض ہوگیا ہے تب کوئی حرج نہیں، ایسی حالت میں اعتکاف نہ چھوڑے۔(الافاضات الیومیہ 227)
۸۔ دوران اعتکاف اگر عورت کو حیض آجائے تو اعتکاف چھوڑ دے پاکی کے بعد کم از کم ایک دن کا اعتکاف مع روزہ قضا رکھے۔
(بدائع، ص: 89، ج:1)
۹۔ اگر مردے کو غسل دینے والا کوئی نہ ہو تو معتکف کو جانا ضروری ہے مگر ایک دن کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا، لہٰذا بعد میں مع روزہ قضا کرے۔
(208 فتاویٰ رحیمیہ)
۱۰۔ عشرہ اخیرہ کے اعتکاف میں جمعہ کے مسنون غسل یا گرمی کے غسل کے لئے باہر جانے کی اجازت نہیں، صرف واجب غسل کے لئے مسجد سے نکلنے کی اجازت ہے۔ (210 رحمیہ)
۱۱۔ جس کے بدن (بغل منہ) سے زیادہ بدبو آتی ہو اسے نہ اعتکاف میں بیٹھنا چاہئے نہ مسجد میں نماز باجماعت کو جانا چاہئے۔ اسے اپنی بدبو سے لوگوں کو بچانا ضروری ہے۔ البتہ اگر معمولی بدبو ہو تو عطر وغیرہ سے دفع کرکے مسجد آنا چاہئے۔ (211 رحیمیہ)
۱۲۔ اگر مسجد کا صحن مسجد سے باہر ہو اور جماعت کی نماز گرمی کی وجہ سے باہر صحن میں ہورہی ہو تو معتکف کو باہر صحن میں آکر جماعت میں شریک ہونا جائز ہے۔ مگر صحت میں بلا ضرورت باہر آنا جائز نہیں۔ (کیونکہ وہ مسجد سے خارج ہے۔ ہاں اگر صحن مسجد میں داخل مان لیا گیا ہے تو اب وہ مسجد کے حکم میں ہے)
۱۳۔ اگر اعتکاف والی مسجد میں جمعہ نہ ہو تا ہو تو جمعہ کی نماز کے لئے ایسے وقت جائے کہ تحیۃ المسجد اور چار سنت جمعہ وہاں پڑھ سکے اور بعد نماز بھی سنت پڑھنے کے لئے ٹھہرنا جائز ہے۔ (بہشتی زیور: 712)
۱۴۔ اذان مسجد سے باہر سنت ہے، اندر نہیں۔ لہٰذا اذان دینے معتکف کو مسجد سے باہر جانا جائز ہے۔ (در علی الشامی 132)
۱۵۔ حالت اعتکاف میں بالکل چپ بیٹھنا بھی مکروہ تحریمی ہے، ہاں بری بات زبان سے نہ نکالے، جھوٹ نہ بولے، غیبت نہ کرے، بلکہ قرآن مجید کی تلاوت یا کسی دینی علم کے پڑھنے پڑھانے یا کسی اور عبادت میں اپنے اوقات صرف کرے۔ مقصود یہ ہے کہ چپ بیٹھنا کوئی عبادت نہیں۔
(466۔ علم الفقہ)
۱۶۔ اعتکاف کی اصل روح و مقصود دل کو اللہ پاک کے ساتھ وابستہ کر کے عشق و محبت خداوندی کو بڑھانا ہے۔ جس کا ظاہر تو سب گھر بار، کاروبار چھوڑ کر دربار خداوندی میں حاضر ہونا ہے اور اس کا باطن سب مخلوقات کو دل سے نکال کر صرف ایک ذات پاک کی یاد میں کھو جانا ہے۔
لہٰذا جن ہنگامی کھانے پکانے افطار و سحر سے یہ غرض و مطلوب فوت ہوتا ہو اُن سے اپنے آپ کو بچنا بچانا چاہئے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔
کیا اعتکاف کے لئے نیت ضروری ہے؟
تمام عبادتوں کے تعلق سے رسول اکرم صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے ایک جامع قاعدہ بیان کر دیا ہے کہ ’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق اجر و ثواب حاصل ہوگا‘‘، لہٰذا اعتکاف کے لئے بھی نیت ضروری ہے۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ نیت دل کی کیفیت اور قلبی ارادے کا نام ہے، ہاں زبان سے بھی کہہ لے تو بہتر ہے۔ مسجد میں داخل ہوتے ہوئے اس طرح داخل ہو کہ سیدھا پاؤں پہلے مسجد میں رکھے اور دعاء پڑھے: بِسْمِ اللّٰہِ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ اَللّٰہُمَّ افْتَحْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ۔ اس کے ساتھ اعتکاف کی دعا پڑھ لے۔ نویت الاعتکاف مادمت فی ہٰذا المسجد۔
اعتکاف کی ابتداء کس سال ہوئی؟
اصل اعتکاف تو سنت قدیمہ ہے، حضرت ابن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نذرت ان اعتکف لیلہ فی المسجد الحرام (رواہ البخاری) اور بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ سنت ابراہیمیہ ہے، جس کے کچھ آثار (باقی تھے لیکن اعتکاف مسنون کی ابتداء تو بظاہر ہجرت کے بعد ہے۔ روزہ کی فرضیت شعبان ۲ ؁ھ میں ہوئی ہے اور خیال یہ ہے کہ اعتکاف مسنون اس کے بعد شروع ہوا۔ تصریح کہیں نہیں ملی۔ البتہ بدائع میں اتنی بات ہے: ولم یترک الاعتکاف منذرخل المدینۃ الی ان مات صلی اللہ علیہ وسلم۔
(بدائع الصنائع ص:373، ج:2)
روزہ کے فاسد ہونے سے اعتکاف کا حکم
اعتکاف مسنون اور واجب دونوں کے لئے روزہ رکھنا شرط ہے اس لئے اگر کسی عذر کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جائے تو اعتکاف بھی باقی نہیں رہتا، البتہ اگر بغیر روزے کے اعتکاف میں بیٹھا رہا تو نفلی اعتکاف شمار ہوگا۔
(شامی ص: 431، ج: 3، فتاویٰ عثمانی ص:94، ج:2)
نیت کب کی جائے
مسنون اعتکاف میں رمضان المبارک کی بیسویں تاریخ کو غروب آفتاب سے پہلے اعتکاف کی نیت کر لینا چاہئے، خواہ مسجد میں داخل ہوتے وقت نیت کی جائے یا مسجد میں داخل ہونے کے بعد، دونوں صورتوں میں صحیح ہے۔ لیکن اگر غروب آفتاب کے بعد نیت کی گئی تو یہ رمضان کے اخیر عشرہ والا اعتکاف ادا نہیں ہوگا۔ کیوں کہ نیت کرنے سے پہلے اخیر عشرہ کا کچھ وقت گزر گیا، جس میں اعتکاف کی نیت نہیں تھی، لہٰذا پورے عشرہ کا مسنون اعتکاف نہیں ہوا۔ (امداد الفتاویٰ) اور شامی میں ہے کہ 20 رمضان المبارک کی نماز کے بعد سورج غروب ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے اعتکاف کی نیت سے مسجد میں داخل ہوجائے اور جب عیدالفطر کا چاند نکل آئے تو اعتکاف ختم کردے اور مسجد سے نکل آئے۔
(شامی ص: 452، ج:2)
سنت مؤکدہ کفایہ کا کیا مطلب ہے؟
سنت مؤکدہ کفایہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر محلے کا کوئی شخص بھی مسجد میں معتکف نہ ہو تو سب کے سب ترک سنت کے گنہگار ہوں گے۔ یعنی جس مسجد میں نماز پنج گانہ ادا کی جاتی ہو اگر ایک شخص بھی اعتکاف میں بیٹھ جائے تو پورے محلہ، گاؤں اور شہر کے تمام مسلمانوں کی جانب سے یہ سنت ادا ہوجائے گی اور اگر محلہ، گاؤں یا شہر میں سے ایک آدمی بھی اعتکاف میں نہ بیٹھے تو پورے محلہ، گاؤں اور شہر کے مسلمان گنہگار ہوں گے اور ترک سنت کے وبال میں گرفتار ہوں گے۔ (البحرالرائق ص:526، ج:2)
کئی لوگوں کا مل کر اعتکاف کرنا
بعض مسجدوں میں 21 رمضان سے کئی احباب مل کر یکے بعد دیگرے شوال کے چاند دیکھنے تک اعتکاف میں بیٹھتے ہیں، اس طرح ایک دوسرے کا باری باری کرکے اعتکاف میں بیٹھنے سے اعتکاف کی سنت ادا نہیں ہوتی، اس طرح محلہ والوں پر اس کی ذمہ داری باقی رہ جاتی ہے۔ کیوں کہ سنت اعتکاف یہ ہے کہ ایک ہی شخص بیس رمضان کے غروب آفتاب سے قبل مسجد میں داخل ہو جائے اور عید کا چاند نکلنے تک اعتکاف کی حالت میں رہے۔
(مرقاۃ المفاتیح ص:329، ج:4)
کیا اعتکاف کے لئے بالغ ہونا ضرری ہے؟
اعتکاف کے صحیح ہونے کے لئے بالغ ہونا شرط نہیں، البتہ سمجھدار اور باشعور ہونا ضروری ہے، لہٰذا نابالغ لڑکا جو سوجھ بوجھ اور عقل و شعور رکھتا ہے، اگر اعتکاف میں بیٹھے تو اس کا اعتکاف درست ہے اور اس کے اعتکاف کی وجہ سے سنت مؤکدہ علی الکفایہ ادا ہوجائے گی۔
(البحر الرائق ص:299، ج:2)
مستورات کا مسجد میں اعتکاف کرنا کیسا ہے؟
عورتوں کے لئے اعتکاف کی سب سے افضل جگہ وہ ہے جہاں وہ نماز پڑھتی ہیں۔ عورت کو اپنے گھر کے کسی کونے میں ایک جگہ کو مخصوص کرکے وہیں پر اعتکاف کرنا چاہئے، مردوں کے لئے تو پوری مسجد اعتکاف کی جگہ ہے مگر عورتوں کے لئے گھر کا وہ حصہ جہاں وہ اعتکاف کی نیت سے ٹھہری ہوئی ہیں اعتکاف کی جگہ ہے۔ عورتوں کا مسجد میں اعتکاف کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ (طحطاوی ص:382، الدرالمختار مع رد المحتار ص:422، ج:3)
کیا معتکف کا جمعہ کے غسل کیلئے باہر نکلنا جائز ہے؟
جمعہ کے لئے غسل کرنا سنت ہے، حدیث میں اس کی بہت تاکید آئی ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ابتداء اسلام میں رسول اللہ صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے غسل جمعہ کو واجب قرار دیا تھا، فقہاء کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ غسل فرض ہو یا نفل دونوں کیلئے معتکف کو مسجد سے نکلنا جائز ہے، ظاہر ہے کہ غسل جمعہ بھی غسل نفل میں شامل ہے۔ چنانچہ شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’غسل جمعہ کے بارے میں کتب اصول میں مجھے کوئی صریح قول نہیں ملا، سوائے اس کے کہ شرح امدادیہ میں کہا گیا ہے کہ غسل فرض ہو یا نفل اس کے لئے معتکف باہر نکل سکتا ہے۔‘‘
(اشعۃ اللمعات ص:128، ج:2 بحوالہ کتاب الفتاویٰ ص:459، ج:3)
اعتکاف مسنون میں معتکف کے لئے مسنون غسل کی وجہ سے مسجد شرعی کے باہر نکلنا جائز نہیں ہے اور اگر کوئی شخص مسنون اعتکاف شروع کرنے سے پہلے باہر نکلنے کی نیت کرلے تو ایسی صورت میں بہت سے مفتیان کرام نے باہر نکلنے کی گنجائش دی ہے، لیکن بعض مفتیان کرام کی رائے عدم جواز کی ہے۔ لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ اس صورت میں بھی باہر نہ نکلا جائے۔
معتکف کے لئے حاجت طبعیہ اور ضروریہ کے لئے مسجد سے نکلنا جائز ہے اور تمام فقہاء نے حاجت طبعیہ میں صرف یہ چیزیں ذکر فرمائی ہیں: پیشاب، پاخانہ اور غسل احتلام۔ اس لئے حالت اعتکاف میں غسل مسنون یا غسل تبرید کے لئے نکلنا جائز نہیں۔ اگر اس کے لئے نکلے گا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ درمختار میں ہے: الالحاجۃ طبعیۃ کبول و غائط و غسل لواحتلم اس میں لو احتلم کی قید صراحۃً غسل جمعہ کو خارج کر رہی ہے۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہتمام کے ساتھ اعتکاف فرمایا ہے۔ لیکن غسل مسنون کے لئے نکلنا ثابت نہیں، البتہ جمعہ کا غسل کرنا ہو یا ٹھنڈک کے لئے نہانا ہو تو اس کی ایسی صورت اختیار کی جاسکتی ہے جن سے پانی مسجد میں نہ گرے، مثلاً کسی ٹب میں بیٹھ کر نہا لے یا مسجد کے کنارے پر اس طرح غسل کرنا ممکن ہو کہ پانی مسجد کے باہر گرے تو ایسا بھی کر سکتے ہیں۔ ان غسلہ فی المسجد فی اناء لاباس بہ لانہ لیس فیہ تلویث المسجد (خانیۃ: ص: 223، ج:1، فتاویٰ محمودیہ ص: 243، ج:10) امداد الفتاویٰ ص:152، ج: 2، کفایت المفتی ص:243، ج:4، فتاویٰ دارالعلوم ص:502، ج:6، خیر الفتاویٰ ص:132، ج:4)
معتکف کا مسجد میں چہل قدمی کرنا کیسا ہے؟
معتکف کا اعتکاف کی حالت میں تفریحاً چہل قدمی کرنا مناسب نہیں، البتہ طبی نقطہ نظر سے چہل قدمی کرنا درست ہوگا۔ مثلاً ریاحی اور شوگر کے مریض کو طبی اغراض کے تحت چہل قدمی کرنا علاج کے قبیل سے ہے اور یہ انسان کی بنیادی حاجت میں داخل ہے اور معتکف کے لئے اس حالت میں ضروری امور انجام دینے کی اجازت ہے۔
(کتاب الفتاویٰ ص:4591، ج:3)
شوہر کی اجازت کے بغیر اعتکاف
عورت کو چاہئے کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر اعتکاف میں نہ بیٹھے لیکن جب شوہر اجازت دے دے تو اعتکاف میں بیٹھ سکتی ہے مگر شوہر کو چاہئے کہ جب وہ اجازت دے چکے تو پھر اس کے بعد اس کو منع کرنے کا اختیار نہیں اور اگر منع کرے تو ممانعت صحیح نہیں۔ (عالمگیری ص:31، ج:2) اسی طرح جب شوہر اعتکاف کی اجازت دے دے تو پھر اس سے صحبت نہیں کرنا چاہئے۔
معتکف کا خروج ریح کیلئے باہر نکلنا
فقہاء نے عام حالات میں مسجد میں خروج ریح سے منع کیا ہے، کیوں کہ اس سے بدبو پھیلتی ہے۔ حضور اکرم صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے بدبو دار چیز کو مسجد میں لانے سے منع فرمایا ہے اور معتکف کے لئے طبعی حاجت کے لئے باہر نکلنا جائز ہے اور خروج ریح بھی طبعی حوائج میں داخل ہے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ اگر پہلے سے اس کا تقاضا ہو تو استنجاء کے بہانے باہر آجائے تاہم یہ حکم ازراہ استحباب ہے، واجب نہیں، اس لئے جس شخص کو عذر ہو اس کے لئے مسجد سے باہر نہ جانے کی بھی گنجائش ہے۔
(الفتاویٰ الہندیہ ص:321، ج:5)
اجرت پر اعتکاف
بعض جگہ تو یہ ظلم ہوتا ہے کہ کوئی شخص اعتکاف میں بیٹھنے کو تیار نہیں ہوتا جس سے سارا محلہ گنہگار ہوتا ہے اور بعض جگہ پر کوئی نہ ملے تو کسی کو اجرت دیکر اعتکاف میں بٹھاتے ہیں اس طرح نہ معتکف کو کوئی ثواب ہوتا ہے نہ بٹھانے والوں کو اور اگر اس کو اجرت مسجد کے فنڈ سے دی ہے تو جن لوگوں نے مسجد کے فنڈ سے وہ روپیہ دیا ان پر لازم ہے کہ وہ اپنی جیب سے مسجد کے فنڈ میں وہ روپیہ جمع کریں۔
اعتکاف کی قضا
جس دن میں اعتکاف ٹوٹا ہے صرف اسی دن کی قضا واجب ہوگی۔ پورے دس دن کی قضا واجب نہیں۔ اس ایک دن کی قضا کا طریقہ یہ ہے کہ اگر اسی رمضان میں وقت باقی ہو تو اسی رمضان میں کسی دن غروب آفتاب سے اگلے دن غروب آفتاب تک قضا کی نیت سے اعتکاف کر لے اور اگر اس رمضان میں وقت باقی نہ ہو یا کسی وجہ سے اس میں اعتکاف ممکن نہ ہو تو رمضان کے علاوہ کسی بھی دن روزہ رکھ کر ایک دن کے لئے اعتکاف کیا جاسکتا ہے۔ (احکام اعتکاف ص:46)
معتکف کا شب عید مسجد میں گزارنا کیسا ہے؟
حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرات (صحابہ و تابعین) مستحب سمجھتے تھے کہ معتکف شب عید مسجد ہی میں گزارے۔ یہاں تک کہ صبح ہوجائے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ92/3 رقم: 977)
حضرت ابی مجلز فرماتے ہیں کہ شب عید اسی مسجد میں گزارو، جس میں اعتکاف کیا ہے۔ صبح عید گاہ وہیں سے جاؤ۔
(مصنف ابی شیبہ: 92/3 رقم: 9772)
آخری بات
ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ رسول اکرم صلّٰی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی میں اس اہم اور مہتم بالشان عبادت کی انجام دہی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے، خصوصاً اس زمانے میں جبکہ لوگ مادیت پرستی، دنیا میں انہماک اور آخرت بیزاری کی وجہ سے شریعت سے کافی دور جاچکے ہیں، اس طرح کی عبادت کو خود انجام دے اور دیگر مسلمانوں کو اس سے مطلع کرے، یہی نہیں، بلکہ ایک مسلمان پر یہ بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کو اس بارے میں وارد رسول اکرم صلّٰی اللہ علیہ وسلم کے آداب و سنن سے آگاہ کرے اور خود بھی جب اعتکاف کرے تو ان کی پاسداری کرے تاکہ وہ حقیقی معنوں میں رسول اکرم صلّٰی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو زندہ کرنے والا تصور کیا جائے۔ اللہ رب العزت تمام مسلمانوں کو اس کی توفیق سعید عطا فرمائے، آمین۔
٭٭٭

Comments are closed.