Baseerat Online News Portal

احمد سعید ملیح آبادی: کچھ یادیں – کچھ باتیں

عبدالعزیز
کلکتہ میں میرے پیارے چچا صادق حسین اپنے بیٹے انجینئر عبد الغفار کے ساتھ1957 میں اس وقت کلکتہ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے لائے جب ہم لوگ اردو کی پہلی کتاب غنچہ اردو پڑھ چکے تھے اخبارات کی سرخیوں کو کسی طرح پڑھ لیتے تھے ہمارے چچا روز نامہ آزاد ہند کے خریدار اور قاری تھے۔ چچا کبھی کبھی دوچار افراد کے درمیان آزاد ہند اخبار کی خبریں اور اداریے پڑھ کر سنا تے تھے کبھی کبھی تبصرے بھی کرتے تھے اور سننے والے بھی حصہ لیتے تھے ۔اس میں نمکدان ایک کالم رہتا اسے خاص طور مزے لے کر پڑھتے تھے اس میں لطیفے اور حکاتیں بھی لکھی رہتی تھیں ۔کہانیوں اور لطیفوں کو مجھے بھی سننے میں لطف آتا تھا اس میں دانائی اور حکمت کی باتیں بھی ہوا کرتی تھیں جو مجھے اپیل کرتی تھیں یاد بھی کرلیتا تھا۔ اس وقت کی بہت ساری باتیں آج بھی مجھے یاد ہیں آزاد ہند کے تعلق سے احمد سعید ملیح آبادی صاحب کا ذکر خیر بھی کبھی کبھار سن لیتا تھا مگر اس وقت اخبار کی حقیقت ، ادا ریے، یا خبریں یا ادارت سمجھنے کا شعور نہیں تھا۔ پہلے صفحے پر جواہر لعل نہرو کا نمایاں لفظوں میں بیان چھپتا تھا حیرت ہوتی تھی کہ ان کا نام کیوں اس قدر چھپتا ہے وزیراعظم کس کو کہتے ہیں؟ حکومت کیا چیز ہوتی ہے؟ یہ سب کچھ معلوم نہیں تھا جب درجہ چہارم میں1958 میں ہمارا سی ایم او ہائی اسکول میں داخلہ ہوا تو ایک سبجیکٹ عام معلومات کا تھا۔ اس وقت پڑھایا جانے لگا کو ن ملک کا وزیر اعظم ہے؟ کون وزیر تعلیم ہے؟ مجھے یاد ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد وزیر تعلیم تھے یہ رٹ کر عام معلومات کے پرچے کے دن امتحان میں بیٹھا تھا ایک یا دو روز پہلے مولانا کا انتقال ہوگیا تھا جب ان کے نام کے ساتھ وزیر تعلیم لکھنے لگا تو یاد آیا کہ اب تو وہ دنیا میں نہیں رہے ان کے نام کے سامنے سابق وزیر تعلیم لکھ دیا ایسا انداز ہ ہوتا ہے کہ اخبار جو میرے چچا زور زور سے پڑھتے تھے اور تبصرے کرتے تھے اس کی وجہ سے لکھ دیا ہو گا۔ یہ بھی یاد ہے کہ مولانا کی موت کے دن موصوف کا کافی چرچا تھا ان کی کتابوں کابھی ذکر ہو رہا تھا خاص طور سے انڈیا ونس فریڈم کا۔ اللہ کے کرم وفضل سے رزلٹ نکلا تو درجہ میں اول آیا اس سے میرا حوصلہ بلند ہوگیا فرسٹ ہونے کا سلسلہ درجہ دہم تک ایک یا دو دفعہ کے علاوہ جاری رہا۔درجہ دہم پاس کرنے سے پہلے آزاد ہند میں کمان کے عنوان سے میری ایک کہانی بھی شائع ہوئی۔ اس سے لکھنے کا حوصلہ میرا بڑھا اسکول کی میگزین میں بھی ایک یا دو بار میری چیزیں شائع ہوئیں۔ درجہ ہشتم میں جب تھا اچھی طرح یاد ہے استاد محترم اور اردو زبان کے مشہور شاعر اعزاز افضل صاحب کی نگرانی میں جو اسکول میگزین نکلا اس میں میرا ایک مضمون شامل تھا۔ یاد اس لیے ہے کہ اعزاز افضل صاحب نے کلاس میں آکر سب طلبہ کے سامنے میرے مضمون کی وجہ سے میری پذیرائی کی تھی۔ کھیل کے تعلق سے بھی جب آزاد ہند کے کھیل کے کالموں میں میرے حوالے سے خبر شائع ہوتی تو خوشی ہوتی سب کو چھپی ہوئی خبر دکھاتے پھرتے۔ میری پہلی ملاقات1964میں مدیر آزاد ہند سے اس وقت ہوئی جب موصوف قیام مسلم مجلس مشاورت کے بعد دوقسطوں میں مجلس کے خلاف ادا ریے لکھے۔ اسے پڑھ کر کلکتہ خلافت کمیٹی کے صدر ملاجان محمد صاحب بیحد ناراض تھے ۔ملا صاحب مجلس کے تاسیسی جلسے میں شامل ہویے تھے اپنے دفتر میں مشاورت کے قیام کی ضرورت اور افادیت پر روشنی ڈال رہے تھے۔میں اور جناب کلیم الدین شمس کے ایک عزیز نعیم احمد (Ex WBC ) دونوں آزاد ہند کے دفتر ساگر دت لین میں پہنچے۔ سعید صاحب دفتر میں موجود تھے ہم لوگوں نے ملاجان محمد صاحب کے جذبات کی وہاں جا کر ترجمانی کی ۔ مدیر محترم کو مسلمانوں کی تنظیم سے جو مسلمانوں کے مطالبات اور حقوق اور اتحاد امت کے لیے وجود ت آئی ہو فرقہ پرستوں کو فرقہ پرستی میں شدت پیدا کرنے کے مواقع ہاتھ آجائیں گے اس کا خدشہ تھا۔ ہم لوگوں کی کم عمری گفتگو میں مانعِ نہیں آئی اچھے ماحول میں تبادلہ خیالات ہوئے۔ ہم لوگوں کو بھی خوشی ہوئی کہ ایک بہت بڑ ے اخبار کے ایک بہت عظیم مدیر سے ملاقات اور بات چیت کی اور قائل کرنے کی کوشش کی۔
1974 میں کلکتہ میں آل انڈیا اردو ایڈیٹر کانفرنس کا اجلاس کی تیاریوں کے لیے استقبالیہ کمیٹی کی تشکیل ہوئی کمیٹی کے صدر جناب احمد سعید ملیح آبادی صاحب ہوئے ، جنرل سیکرٹری جناب رئیس الدین فریدی (مدیر روزآنہ ہند )کو مقرر کیا گیا۔ خاکسار کو معاون سکریٹری کا عہدہ سونپا گیا اس وقت میں ہفتہ وار اخبار تحریک ملت کا مدیر تھا۔ جب کمیٹی کی پہلی میٹنگ ہوئی تو احمد سعید ملیح آبادی مجھے اپنے دفتر لے آیے اور مجھ سے کہا کہ ” تم رپورٹ لکھ دو "سعید صاحب میرے بارے میں حسن ظن رکھتے تھے میرے مضمون کو سراہتے تھے تحریک ملت میں اردو ایڈیٹر س کانفرنس کے کلکتہ میں منعقد ہونے والے اجلاس کے بارے میں جو کچھ لکھا تھا اس کی تعریف بھی کرچکے تھے مگر سچی بات یہ تھی کہ مجھے ٹھیک سے جلد بازی میں رپورٹ تیار کرنے پر اپنے آپ پر بالکل اعتماد نہ تھا میں نے سعید صاحب سے معذرت کرلی انہوں نے ذرا بھی برا نہیں مانا۔
دوسرے دن ان کی تیار کردہ رپورٹ کے ایک لفظ ایک لفظ کو غور سے پڑھا تسلسل کو دیکھا کہ کیسے تسلسل برقرار ہے حقیقت کے اس رپورٹ سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا اور رپورٹ کیسے جلد تیار کی جاسکتی ہے اپنے آپ پر بھروسہ آگیا۔ پھر جب بھی موصوف نے رپورٹ لکھنے کے لیے کہا خا کسار نے انکار نہیں کیا۔ اگرچہ میں نے نہ ان کے اخبار میں کام کیا اور نہ ان کی نگرانی میں اخبار ی کام انجام دیا مگر ان کی رپورٹنگ اور ان کے مضامین اور اداریوں کو طالب علمی کے زمانے سے پڑھتا اور سیکھتا رہا۔اگر میں انہیں اپنا گرو یا استاد کہوں تو شاید غلط نہ ہوگا مجھے اس وقت بڑی خوشی ہوئی جب ڈاکٹر مقبول احمد صاحب پر ان سے ایک مضمون لکھنے کی گزارش کی تو موصوف فوراً تیار ہوگئے۔ ان کا مضمون کتاب ’’ ڈاکٹر مقبول احمد… ایک مرد مجاہد‘ ایک ہمدرد ڈاکٹر‘‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ اس سے بھی زیادہ اس وقت خوشی ہوئی جب ان کا میرے پاس فون آیا کہ ’’ بھئی اخبار مشرق میں میرے نام سے ڈاکٹر مقبول احمد کے بارے میں ایک مضمون شائع ہوا ہے وہ آپ کا مضمون ہے مجھے معلوم ہے لیکن میں اس کی تردید نہیں کروںگا‘‘ جواب میں میں نے کہا کہ مجھے بیحد خوشی ہورہی ہے کہ آپ تردید کرنے نہیں جا رہے ہیں نا چیز کے ایک مضمون کو اپنا تسلیم فرما کر میری عزت افزائی کر رہے ہیں بہت بہت شکریہ
آل انڈیا اردو ایڈیٹر س کانفرنس کی استقبالیہ کمیٹی کے صدر کی حیثیت سے تشکیل کے بعد ہی سے احمد سعید ملیح آبادی صاحب سرگرم عمل ہوگئے۔ موصوف نہایت مستعدی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے کہ کانفرنس کے اجلاس سے ایک ہفتہ پہلے نمو نیہ کے مرض میں مبتلا ہو گئے۔ ڈاکٹر مقبول احمد صاحب ملیح آبادی کے معالج تھے جو تجربہ کار ڈاکٹر تھے اور سعید صاحب کے دیرینہ دوستوں میں سے تھے ایک دوسرے سے گہرا لگاؤ تھا۔ مغربی بنگال کے اس وقت وزیر اعلی سدھارت شنکر رائے تھے جنہیں مسلمانوں اور اردو زبان سے اچھا خاصا لگا ئو تھا۔ موصوف بھی کانفرنس کے اجلاس سے دلچسپی لے رہے تھے۔ ایمرجنسی پورے ملک میں نافذ تھی مگر مغربی بنگال میں وزیر اعلیٰ سدھارت شنکر رائے کی وجہ سے زیادہ اثر نہیں تھا۔ وزیر اعلیٰ مغربی بنگال سنجے گاندھی کی سرگرمیوں سے خوش نہیں تھے ۔اس کی وجہ سے دونوں میں کشیدگی بھی تھی اس کا اثر اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور وزیر اعلی مغربی بنگال کے تعلقات پر تھا۔ ان ہی حالات میں یہ اجلاس منعقد ہو رہا تھا ۔اجلاس میں جموں و کشمیر کے وزیراعلی شیخ عبداللہ اور وزیر اعلیٰ اتر پردیش ہیم وتی نندن بہو گنا بھی مدعو تھے۔ شیخ صاحب تو اجلاس میں شرکت کے لیے کلکتہ تشریف لائے مگر بعض وجوہ سے بہو گنا نہیں آسکے۔ سعید صاحب شدید قسم کی بیماری کے باوجود چادر اوڑھ کر اجلاس میں شریک تھے۔ اسٹیج پر انگریزی روزنامہ اسٹیسمین دہلی کے ایڈیٹر مسٹر کلدیپ نیر کو دیکھ کر مسٹر سدھارت شنکر رائے پریشان ہوگئے کیونکہ کلدیپ نیر ان بڑے اور مشہور صحافیوں میں سے تھے جو ایمرجنسی اور اندرا گاندھی کے سخت خلاف تھے۔ اس کی وجہ سے کچھ دنوں کے لیے انہیں جیل بھی جا نا پڑا تھا۔ وزیر اعلیٰ مغربی بنگال نے اپنی کرسی سے اٹھ کر محمد رستم کو جو بنگلہ اخبار ’ پیغام‘ کے نامہ نگار تھے اور وزیر اعلیٰ کے قریب سمجھے جاتے تھے بلایا اور کہا کہ کلدیپ نیر کیوں بلائے گئے ہیں؟، وزیر اعظم اندرا گاندھی ناراض ہوجائیں گی‘۔ خاکسار کے قریب ہی دونوں ایک دوسرے سے مخاطب تھے رستم صاحب جواب دینے سے قاصر تھے میں نے مناسب سمجھا کہ حقیقت حال وزیر اعلی پر واضح کردیں خاکسار نے وزیر اعلی سے کہا کہ ’’ کلدیپ نیر آل انڈیا اردو ایڈیٹر س کانفرنس کے بانی صدر ہیں وہ بلائے نہیں گئے ہیں اپنے عہدے کی حیثیت سے شریک اجلاس ہیں‘‘۔ اس پر سدھارت شنکر رائے خاموش ہوگئے۔ کلدیپ نیر صاحب نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز اردو روزنامہ ’’ انجام‘‘ سے کیا تھا۔ خاکسار جب روزنامہ ’’اقرا‘‘ کا ایڈیٹر تھا تو اقرا کے لیے بھی وہ ہفتے میں ایک مضمون حالت حاضرہ پر لکھ کر بھیجتے تھے۔ اجلاس بہت شاندار طریقے سے منعقد ہوا ایک گھنٹے کے وقفے کے علاوہ دن بھر اجلاس جاری رہا سعید صاحب بیماری کے باوجود اجلاس کی کاروائیوں میں شریک رہے۔
دوسرے دن گریٹ ایسٹرن ہوٹل میں آل انڈیا مشاعرہ بھی کانفرنس کی طرف سے منعقد ہوا جس میں کیفی اعظمی کے علاوہ دیگر بڑے شعرا کرام نے شرکت کی۔ وزیر اعلی مغربی بنگال بھی مشاعرے میں شریک رہے۔احمد سعید ملیح آبادی صاحب بھی تھوڑی دیر کیلئے مشاعرے میں آئے ۔ دوسرے دن بہت سے شرکا ناراض تھے کہ سعید صاحب ان سے ٹھیک ملاقات کرنے جہاں وہ قیام پذیر تھے نہیں آئے ۔ کلکتہ کے ایک روزنامہ اخبار کے ایڈیٹر صاحب بھی سعید صاحب سے ناراض تھے کہ ان کو نظر انداز کیا گیا اجلاس کے اختتام کے د و تین روز بعد جب میں سعید صاحب کے گھر ملا قات کیلئے حاضر ہوا تو سعید صاحب نے جہاں اجلاس کے اچھے طریقے سے اختتام پر خوشی کا اظہار کیا وہیں چند شرکا پر بیحد ناراض اور ناخوش نظر آئے ۔ کہنے لگے ’’ عجیب لوگ تھے یہ جاننے کے باوجود کہ میں شدید قسم کے مرض میں مبتلا ہو ں پھر بھی چاہتے تھے کہ مریض صحت مند اور توانا اور تندرست مہمانوں کی قیام گا ہوں پر جاکر جاکر ایک ایک سے ملاقات کرے اور ان کی مزاج پرسی کرے اور خیر وعافیت دریافت کرے ۔ایسے بھی کچھ ہیں ہمارے اردو کے شریف اور شائستہ صحافی جو مریض کی عیادت کرنے کے بجائے اپنی مزاج پرسی کے قائل ہیں‘‘۔سعید ملیح آبادی صاحب نہایت شریف النفس انسان تھے ۔لوگوں کی غلطیوں کو نظر انداز کرتے۔ جب میں اقرا کی ادارت سنبھال رہا تھا تو اسی زمانے میں میرے اور ان کے درمیان تحفظ شریعت کی مہم کے تعلق سے کچھ غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں جو رنجشوں میں تبدیل ہوگئیں میں نے بہت کچھ ان کے اخبار کے خلاف لکھ دیا۔ مجھ سے ان کی شان میں گستاخیاں بھی سرزد ہوگئیں۔ لیکن وہ جلد سب کچھ فراموش کر دئے ۔ مجھ سے پہلے جیسا تعلق قائم ہوگیا جس کاذکر میں بار بار اپنے کئی مضامین میں کرچکا ہوں۔ ملیح آباد میں جب آخری زمانے میں رہنے لگے تو اکثر وبیشتر فون کر کے موصوف میری خیر وعافیت دریافت کرتے کلکتے کے لوگوں کا حال چال معلوم کرتے۔ میں بھی اکثر ان کی خیریت جاننے کیلئے فون کیا کرتا تھا۔ لکھنؤ کے اخبار ات میں اگر میرا کوئی مضمون پڑھتے خاص طور سے روزنامہ ’’ آگ‘‘ میں تو اس کابھی تعریفی کلمات کے ساتھ ذکر کرتے۔ دہلی میں جب راجیہ سبھا کے ممبر کی حیثیت سے رہنے لگے تھے تو اس وقت بھی یہی انداز تھا۔ آخری وقت میں جب سماعت کم ہوگئی تھی اسپتال میں زیر علاج تھے تو میں نے ان کے ایک تیمار دار اور بھانجے محمد طارق سے گزارش کی کہ کسی طرح میرا سلام پہنچا دیں۔دوسر ے دن طارق نے کہا کہ آپ کانام سن کر بہت خوش ہوئے اور وعلیکم سلام کہا۔ طارق سے میری اس وقت ملاقات ہوئی تھی جب وہ کانفرنس کے اجلاس میں شر کت کے لیے کلکتہ آئے تھے۔ سعید ملیح آبادی صاحب کے انتقال کے دوسرے دن انہوں نے مجھے بتایا کہ چند دنوں پہلے ماموں جان کی بہو اپنے ایک رشتے دار کے ساتھ عمرہ کے لیے جانے سے پہلے عیادت کے لیے آئیں۔ ماموں نے کہا کہ میرے لیے کیا اللہ تعالیٰ سے دعا کرو گی؟ بہو نے کہا کہ صحت یابی اور درازی عمر کے لیے۔ماموں نے کہا کہ نہیں‘ دعا کرنا کہ میرا خاتمہ بالخیر ہو ۔
احمد سعید صاحب میں سیاسی دور بینی بہت تھی جب جنتا پارٹی میں جن سنگھ کو شامل کیا گیا تو ان کی پیش گوئی تھی کہ آر ایس ایس کی طاقت بڑھے گی۔جب وی پی سنگھ بی جے پی کی مدد سے حکومت سازی کر رہے تھے تو اس وقت بھی سعید صاحب کی وہی رائے تھی جو جنتا پارٹی میں جن سنگھ کی شمولیت کے وقت تھی ۔بعدکے دور میں یہ بات صحیح ثابت ہوئی جو آزاد ہند کے ایڈیٹر احمد سعید ملیح آبادی کہتے اور لکھتے تھے۔ سعید صاحب سیکوزم اور سوشلزم کے داعی تھے لیکن وہ دین سے بیزار نہیں تھے ان کے اندر سچائی اور شرافت کوٹ کر بھری ہوئی ہوئی تھی۔ وہ غلط فہمی کی وجہ سے اسلام یا اسلامی شخصیات کے خلاف ضرور لکھ دیتے تھے۔ سچائی جاننے کے بعد انہیں افسوس بھی ہوتا تھا مگر دین اسلام کے خلاف کبھی نہیں لکھا یا کبھی تقریر کی۔ کئی بار حج بھی کئے۔ اپنے اخبار میں پہلی بار حج کی واپسی پر قسط وار سفر حج کی رودادِ ’’خدا کے گھر میں‘‘ کے عنوان سے شائع کرتے رہے۔ جسے لوگ بہت شوق و ذوق سے پڑھتے تھے اور آئندہ کی قسط کے منتظر رہتے تھے ۔بعد میں اسے کتابی شکل میں شائع کیا گیا۔ سعید صاحب اہل زبان تھے زبان پر عبور حاصل تھا تحریر اور تقریر میں ادبی چاشنی ہوتی تھی ۔زبان اس قدر آسان ہوتی کہ عوام اور خواص دونوں کی سمجھ میں آسانی سے آجاتی تھی ان کے مضامین اور اداریے سے اہل اردو بہت کچھ سیکھتے تھے۔آزاد ہند اخبار سے راجیہ سبھا کی ممبری کے بعد موصوف دور ہوتے گئے۔ 2010 میں اسے بعض وجوہ سے انہیں فروخت کرنا پڑا جو اردو صحافت کیلئے خاص طور سے کلکتہ کی اردو صحافت کے لیے ایک سانحہ سے کم نہیں تھا۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068

Comments are closed.