بصیرت آن لائن کی انقلابی پہل

از: محمد اللہ قیصر قاسمی
آج بتاریخ 9 جولائی 2023، کو عروس البلاد ممبئی میں بصیرت آن لائن کے مجوزہ "بصیرت جرنلزم اینڈ لینگویج اکیڈمی "کا افتتاحی پروگرام منعقد ہوا جس کی صدرات فقیہ العصر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے فرمائی، میدان صحافت سے تعلق رکھنے والی معزز شخصیات نے شرکت کی، اور تمام شرکاء نے بیک زبان بصیرت آن لائن کے جواں عزم چیف ایڈیٹر مولانا غفران ساجد قاسمی کی اس پہل کو انقلابی قدم سے تعبیر کیا، اور پوری بصیرت ٹیم کو مبارکباد پیش کی، نیز اکیڈمی کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
درست ہے کہ مدارس اسلامیہ کا اصل مقصد علوم دینیہ کی حفاظت اور اس کی نشرو اشاعت ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آزاد ہندستان میں دینی علوم کی حفاظت انہی مدارس کے مضبوط قلعوں میں ہوئی، ملت کو دین سے وابستہ رکھنے والی ہر ڈور کا سرا یہیں سے ملتا ہے، ہندستان آزاد ہوا، ملک کی تقسیم ہوئی، مسائل کا انبار مسلمانوں کو حواس باختہ کر رہا تھا، آزاد ہندستان میں مسلمانوں کی سیاسی پوزیشن، اقتصادی بہتری، سماجی انصاف، تعلیمی مواقع کی فراہمی کی فکر کھائے جارہی تھی تو مدارس کے بوریہ نشینوں پر یہ فکر سوار تھی کہ مسلمانوں کو دین سے وابستہ رکھنے کی شکل کیا ہوگی، علوم دینیہ کے حفاظت کی کیا سبیل ہوگی،پھر وہ اللہ پر توکل کرکے اپنے مشن پر لگ گئے، اور تاریخ نے کھلی آنکھوں دیکھا کہ اس بے آسرا اور لٹی پٹی قوم کے علماء نے علوم دینیہ کی حفاظت کا فریضہ اس طرح انجام دیا کہ آج ہر گلی اور کوچہ میں دین کی رہنمائی کرنے والا مل جائے گا، بلکہ ان مدارس کے فیض یافتگان نے دنیا بھر میں پھیل کر علم دین کی قندیلیں روشن کیں۔
اس وقت جن علوم کی شدید ضرورت تھی انہی کے تعلیم و تعلم پر زور دیا گیا، وہیں سے بڑے بڑے اہل قلم پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی تحریروں سے ایک طرف دینی علوم کے جواہر پارے سمیٹ کر اگلی نسل کے حوالہ کیا تو دوسری طرف دین بیزاروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، نیز شکوک و شبہات کے کیچڑ میں لتھڑے دلوں سے گندگی صاف کرکے انہیں اجلا کیا، یہ ان کے ذوق و شوق اور دین کے تئیں ان کی تڑپ اور سوز دروں نتیجہ تھا، مدارس میں تحریری صلاحیت کے نکھار پر جزوی توجہ اس طرح تو دی گئی کہ انہیں لکھنے کی تلقین کے ساتھ تحریری مقابلوں کے انعقاد کی حوصلہ افزائی کی گئی، لیکن صحافت کو باضابطہ بطور فن پڑھانے کی طرف توجہ نہیں دی گئی، جبکہ مدارس میں اس کے امکانات بہت زیادہ تھے، اور ہیں،
بصیرت آن لائن نے اس ضرورت کو شدت سے محسوس کیا، ایسا ادرہ ہونا چاہئیے جہاں لکھنے کاشوق رکھنے والے طلبہ کو صحافت کی فنی تعلیم دی جا سکے، فقہ و فتاوی اور دیگر علوم دینیہ میں تخصص کے خواہشمندوں کیلئے بے شمار ادارے ہیں لیکن میدان صحافت میں دلچسپی رکھنے والوں کیلئے کوئی خصوصی انتظام نہیں ہے، لہذا اس وقت ایسے ایک دینی ادارہ کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے جہاں طلبہ خالص اسلامی ماحول میں عصری صحافت اور اس کے رموز سے آگاہ ہو سکیں،
فن صحافت کی پرپیچ گھاٹیوں اور اس کے پیچ و خم سے واقف ہو سکیں تاکہ اس شاہراہ پر دوڑنا ان کیلئے آسان ہوجائے اور وہ دجل و فریب کی گندگی میں لت پت معاصر "میڈیا” کا مقابلہ کرسکیں، نیز جہاں انہیں یہ ہنر بھی سکھایا جا سکے کہ صحافت کو دعوت کیلئے کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے، تسلیم ہے کہ دور حاضر میں میڈیا کے وسائل لا محدود ہیں، سیاسی اور اقتصادی قوت میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ "سوشل میڈیا "کے اس دور میں سچائی کا ایک دیپ تو جلاہی سکتے ہیں، کوئی تو ہوگا جو مکر وفریب کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں حق بیانی کی ٹمٹماتی روشنی کی طرف متوجہ ہوگا۔
مولانا غفران ساجد قاسمی انفرادی سطح پر یہ کام برسوں سے کر رہے ہیں، بے شمار اہل قلم کے نام لئے جا سکتے ہیں جنہیں مولانا غفران ساجد قاسمی نے لکھنے پر نہ صرف آمادہ کیا بلکہ انہیں پلیٹ فارم دیکر مختلف صورتوں میں آگے بڑھاکر ان کے اندر خود اعتمادی پیدا کی اور انہیں نہ صرف مہمیز کیا، بلکہ لکھنے کیلئے کبھی کبھی "محبت بھری زبردستی” کی اور ان پر "برادرانہ و مشفقانہ جبر” کیا کہ وہ لکھیں، اس طرح آج وہ خود اعتمادی سے بھرپور تحریر لکھنے پر قادر ہیں، بلکہ ان میں سے کئی ملک کے مشہور اردو پورٹل چلارہے ہیں، مفید انسان وہ نہیں جسے دست قدرت نے کسی صلاحیت سے نوازا ہو، بلکہ حقیقی معنوں میں مفید وہ ہے جس کی صلاحیت متعدی ہو، جو قوم و ملت کے نونہالوں کے لئے چراغ راہ ثابت ہو سکے، ہمارے سماج میں بڑی بڑی صلاحیت کے مالک بیٹھے ہیں لیکن ان کا فائدہ یا تو ان کی ذات تک محدود ہے یا زیادہ سے زیادہ ان کے اہل خانہ مستفید ہو رہے ہیں، دوسروں کو روشنی فراہم کرنے والے بہت کم ہیں۔
مولانا غفران ساجد قاسمی کا امتیاز یہ ہے کہ "جہاں روشنی کی کمی ملی وہیں ایک چراغ جلا دیا”
ان کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں خلاق عالم نے دل درد مند عطاء کیا ہے، انہیں شخصی مفاد سے زیادہ ملت کا مفاد عزیز ہے، عزم و حوصلہ ان کے یاران باوفا ہیں، خدمت کا بے لوث جذبہ ان کی رگ و جاں میں شامل ہے، یہی وجہ ہے کہ ملت کیلئے کوئی مفید منصوبہ سوجھتا ہے تو بے بضاعتی، وسائل کی کمی اور حالات کی دشواری پر آنسو بہا کر بیٹھتے نہیں بلکہ "بسم اللہ توکلت علی اللہ” پڑھ کر پتوار سنبھالتے ہیں، مشکلات کے طوفانوں سے لڑتے بھڑتے آگے بڑھتے ہیں، بالآخر منزل پر پہونچ کر ہی دم لیتے ہیں۔
اسی طرح آج بھی انہوں نے اپنے نئے مشن کا آغاز کیا ہے، قوم کے نونہالوں کو قلم کے ہتھیار سے لیس کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے، ملت کے دردمندوں کی دعائیں ان کے ہم رکاب ہیں، ہمیں یقین ہے کہ ان شاءاللہ وہ اپنے اس مشن میں ضرور کامیاب ہوں گے۔
اس موقع پر فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ذرائع ابلاغ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس طرف توجہ کی شدید ضرورت ہے، سوشل میڈیا کا کھلا میدان اور آن لائن نیوز پورٹلس ہمارے لئے غنیمت ہیں، اس وقت ضرورت ہے کہ اس میدان میں مہارت رکھنے والے افراد تیار کئے جائیں، اور اس اکیڈمی کو آن لائن اور آف لائن دونوں سطح پر چلایا جائے، تاکہ اس کا فائدہ عام ہو، مشہور ملی و سماجی شخصیت اور اکیڈمی کے سرپرست حافظ اقبال صاحب چونا والا نے خصوصی مبارکباد پیش کرتے ہوئے دعاؤں سے نوازا ور ہر قدم پر تعاون کا وعدہ کیا، ممبئی کے علمی حلقوں میں خصوصی مقام کے حامل،اکیڈمی کے تعلیمی امور کے نگراں جناب ڈاکٹر سلیم خان صاحب، نے قیمتی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اکیڈمی کے قیام کو وقت کی اہم ترین ضرورت قراردیا،بصیرت کے سرپرست حضرت مولانا رشید احمد ندوی کے بے لوث جذبہ کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، نام و نمود کی خواہش سے پاک ہوکر کام کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے، بصیرت کے پلیٹ فارم سے ہو، ان سے ملکر ہمیشہ ہمیشہ یہ احساس تازہ ہوتا ہے کہ انسان کو صرف اپنے لئے نہیں جینا چاہئیے۔
شرکاء میں حضرت مولانا محمد فاروق قاسمی، مولانا محمود دریابادی ،مفتی سعید الرحمن فاروقی قاسمی، جناب محمود حکیمی، عارف شیخ، مفتی محمد احمد قاسمی، خان افسر قاسمی مینیجنگ ڈائریکٹر بصیرت آن لائن، مفتی محمد شرف الدین عظیم قاسمی، مفتی طہ جونپوری ،مولانا کلام الدین قاسمی، مولانا عمران قاسمی ،مولانا محمد اسلم قاسمی، مولانا نوشاد صدیقی ،مولانا قاضی زکریا قمرقاسمی وغیرہ قابل ذکر ہیں، ان تمام حضرات نے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اکیڈمی سے ایک امید کی کرن بیدار ہوئی ہے، میدان صحافت سے دلچسپی رکھنے والے نوجوان طلبہ و طالبات کو بڑے فائدے کی امید ہے.
Comments are closed.