ظلم ایک نفسیاتی بیماری

از: محمد اللہ قیصر
کچھ دنوں قبل میرے گاؤں میں ایک بڑا حادثہ پیش آیا، ایک شادی شدہ لڑکی کا قتل ہو گیا، الزام ہے کہ اس جرم کے پیچھے لڑکے اور اس کے گھروالے ہیں، عام لوگوں کا تاثر بھی یہی ہے، کہتے ہیں کہ پورے واقعہ کی تفصیل سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے ، لڑکے والے اس جرم سے انکار کررہے ہیں، حقیقت کیا ہے،یہ تحقیق کا موضوع ہے۔
یہ سچ ہے کہ سردست جو ظلم ہوا ہے وہ بڑا ہے کسی کی بیٹی کا قتل ہوا ہے، کسی کی جان لے لی گئی، اس پر خاموشی لعنت سے کم نہیں، اس پر مستزاد یہ کہ سماج کے افراد اس کی خوشی و غم میں شرکت کریں۔ اور اس سے بڑا ظلم ہے کہ اس کا تعاون کریں۔
لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ سماج اس ذلت تک پہونچا کیسے؟ سماج کے کسی فرد میں یہ ہمت کیسے پیدا ہوئی کہ وہ کسی کی جان لینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا، قانون کا خوف نہ سماج کا ڈر، یہ جرأت آئی کہاں سے، اسے سمجھنے کیلئے ظلم کی "فطرت” کو سمجھنا ہوگا۔
ظلم متعدی ہوتا ہے، جس طرح حیاتیاتی انفکش موافق ماحول ملنے کی صورت میں، تیزی سے پھیلتا ہے، اسی طرح ظلم ایک نفسیاتی انفکشن ہے، اسے بھی موافق ماحول ملتا ہے تو یہ سماج کے ہر فرد کو اپنی چپیٹ میں لے لیتا ہے، ہر جگہ اپنا رنگ دکھلاتا ہے۔
مالی، جسمانی اور افرادی قوت ظلم کے ذرائع ہیں، دوسروں پر غلبہ کی خواہش ، اور بالادستی کا اظہار، ظلم کے بنیادی مقاصد ہیں،
اور سماجی خاموشی لا قانونیت،اور نا انصافی ظلم کے انفکشن کو موافق ماحول فراہم کرتے ہیں، ان تینوں کا اجتماع جہاں ہوگا وہاں ظلم ایسے پھیلتا ہے جیسے سوکھی گھاس میں آگ۔
شریعت ظلم کو دبانے پر زور دیتی ہے، اس کی نظر میں ظلم کا واحد علاج ہے "خوف” چناں چہ مظالم کے خلاف شریعت کے احکامات پر غور کریں تو واضح ہوجاتا ہے کہ ظلم کی سرکوبی کا واحد راستہ ہے کہ افراد میں خوف پیدا ہو، یہ کام شریعت دو سطح پر کرتی یے، پہلے ظلم و طغیان پر اللہ جل جلالہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غیض و غضب کا اظہار کرتی ہے، ظلم سے نفرت کا اعلان کرتی ہے، شریعت ایسی دوٹو ہدایات و توجیہات سے بھری پڑی ہے جن میں ظالم سے اظہار برأت کے ساتھ اسے ظلم سے باز رہنے کا حکم دیا گیا ہے، سرکشی کی صورت میں خدائی رحمت سے دوری کا اعلان آخرت میں سخت ترین سزا کی وعیدیں سنائی گئیں، تاکہ انسان ظلم سے باز رہے۔ دوسری طرف سماج کو حکم دیا گیا کہ وہ لوگوں کو ظلم سے روکنے کے سارے جتن کرے، حتی کہ ظالم کے خلاف قوت کے استعمال کی اجازت بھی دی گئی ہے،
دوسری سطح یہ ہے کہ اگر انسان ظلم کا ارتکاب کربیٹھے تو اسے ظلم کے مراتب کے مطابق سزادی جائے جتنا بڑا ظلم اتنی سخت سزا،حدود و قصاص اسی سلسلے کی انتہائی کڑیاں ہیں، ہمارا ملکی قانون بھی ظلم کے خلاف سخت ہے، لیکن بڑی مصیبت ہے کہ رشوت خوری عام ہے جس سے قانون کا نفاذ تقریبا معدوم ہے۔
ظہور سے پہلے ظلم کی روک تھام میں بڑا اور بنیادی کردار سماج کا ہوتا ہے، سماج میں ظلم کے خلاف جس قدر بیداری، نفرت اور غصہ ہوگا لوگ اسی قدر ظلم سے دور رہیں گے، اگر سماج طغیانی و سرکشی کے خلاف سردمہری، یا لاتعلقی کا اظہار کرتا ہے تو ظلم کا دائرہ مزید بڑھتا ہے، کیوں کہ ایسی صورت میں کسی کا خوف نہیں ہوتا، جبکہ یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے، اس کا واحد علاج خوف ہے، خوف نہیں ہوگا تو اس پر لگام لگانا ناممکن ہے
اس طرح دیکھیں تو قانونی سطح پر ظلم کی سرکوبی کا واحد راستہ ہے کہ خوف پیدا کیا جائے۔
اس وقت ظلم کے تعلق سے سماج کا رویہ انتہائی مجرمانہ اور قابل مذمت ہے، جب شخصی مفاد، ظالم کا خوف، لالچ، خود غرضی اور طرفداری بڑھتی ہے تو ظالمانہ طبیعتیں سر ابھارتی ہیں، سماج میں کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں ہوتا تو ایسے لوگ کسی بھی کمزور کو نشانہ بناتے ہیں، اور ایک کے بعد ایک ظلم کے واقعات رونما ہوتے ہیں، دوسروں کو بھی حوصلہ ملتا ہے۔
سماج کا دوہرا رویہ اسے بڑھاوا دیتا ہے، ایک طرف اپنی مجلسوں میں ظلم کے خلاف ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں لیکن جب مظلوم کے تعاون اور ظلم کے خلاف اواز بلند کرنے کی نوبت آتی ہے تو مفاد پرستی اور خوف ان کی زبانیں گنگ کردیتی ہیں، سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ لوگ سماج میں ظالم کا انتخاب چن کے کرتے ہیں” پنک اینڈ چوز” کی پالیسی اپناتے ہیں، جن سے قربت ہے ان کا ظلم انصاف نظر آتاہے اور دوری ہو تو "آہ” بھی سراپا” ظلم بن جاتا ہے، یہ دوہرا رویہ جس قدر بڑھاوا دیتا ہے وہ ناقابل بیان ہے، ایسی صورت میں ظالم کو معاون مل جاتا ہے، اور وہ مزید ظلم و تعدی کی طرف بڑھتا ہے۔
سب سے پہلے سماج کو دینی حکم پر عمل کرتے ہوئے ظالم کو روکنا ہوگا، اس سے منہ پھیرنا ہوگا، اسے احساس دلانا ہوگا ظلم چاہے جس درجہ کا ہو وہ جرم ہے، ظالم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں بھی مبغوض، بندگان خدا کی نظر میں بھی مذموم، وہ کسی بھی سماجی تعاون اور ہمدردی کا مستحق نہیں ہے، اسے سزا ملنی ہی چاہئیے، بلا تفریق ہر ظالم کے خلاف آواز بلند ہوگی تو سماج اس بلا سے نجات پا سکتا ہے، تفریق کی صورت میں ظلم بڑھتا ہے گھٹنے کا امکان نہیں، ظلم وتعدی اور دیگر تمام برائیوں کی جڑوں پر وار کرنے والا نبوی فرمان پر پیش نظر رہے تو سماجی برائیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
من رأى منكم منكرا فليغيره بيده ، فإن لم يستطع فبلسانه ، فإن لم يستطع فبقلبه ، وذلك أضعف الإيمان
تم میں سے جوشخص کوئی ناقابل قبول، غلط بات دیکھے، اسے اپنے ہاتھ (قوت) سے بدل دے، اوراگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے غلط کہے، اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اپنے دل سے (اسے برا سمجھے اور اس کے بدلنے کی مثبت تدبیر سوچے) اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔“
Comments are closed.