اذیت کا خاتمہ (افسانہ)

ازقلم: تاج الدین محمد، جامعہ نگر، نئی دہلی۲۵
یہ جون کی ایک حبس بھری رات تھی کہ اچانک موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ بارش کے قطرے کھڑکیوں پر بجنے لگے۔ ٹپ ٹپ کی آواز دل میں ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔ میں ایک ناول سے گھنٹوں جھوجھ رہا تھا۔ اس کہانی کا مرکزی کردار ایک بدصورت لڑکی تھی جو معاشرے کی ناانصافیوں و ناہمواریوں کی زد میں زندگی کے شب و روز گزار رہی تھی۔ بدصورتی و بدہیئتی پر میرا بھی ایک افسانہ حال ہی میں کسی رسالے میں شائع ہوا تھا۔
دفعتاً موبائیل کی گھنٹی بجی میں نے فون اٹھایا، علیک سلیک کے بعد اس نے اپنا تعارف پیش کیا۔ میں نسرین ہوں کچھ یاد آیا یا بالکل ہی بھول گئے؟ مدتوں بعد اس کا فون آیا تھا۔ تکلف نام کی کوئی چیز اب بھی اس میں موجود نہیں تھی۔ میں شاداں و فرحاں اس سے محو گفتگو تھا۔ پتہ نہیں اس نے میرا سراغ کیسے لگایا؟ میرا پرانا نمبر تو ایک حادثہ میں بہت پہلے ہی بند ہو چکا تھا اور سب کچھ ضائع ہو گیا تھا۔ ممکن ہے نیا نمبر کسی قریبی سے حاصل کیا ہو۔
میں بھی کافی دنوں تک نسرین سے ملاقات کا متمنی رہا۔ اس سے ملنے کی بڑی کوششں کی۔ اس کے گھر کا کئی دفعہ چکر بھی لگایا لیکن وہ مکان بدل کر کہیں اور جا چکی تھی۔ پاس پڑوس میں کسی کو اس کے نئے پتہ کا علم نہ تھا۔
تین چار برس پہلے کالج میں اس سے میری آخری ملاقات ہوئی تھی۔ اسوقت اس نے مجھے بتایا تھا کہ امی گاؤں گئی ہوئی تھیں وہیں دل کا دورہ پڑنے سے اچانک ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ اب میں بالکل تنہا ہو گئی، زندگی کا آخری سہارا بھی ٹوٹ چکا ہے۔ میں ابھی ابھی چند دنوں قبل گاؤں سے واپس آئی ہوں۔ والد پہلے ہی فوت ہو چکے تھے۔ میں نے تاسف کا اظہار کیا اسے تسلیاں دیں لیکن ڈھارس و دلاسا سے بے پناہ دکھوں کا مداوا کہاں ممکن ہے۔
گفتگو کے دوران نسرین نے مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ پتہ میسیج کے ذریعہ ارسال کیا۔ اس نے سابقہ عادت کے مطابق مختصر گفتگو کی۔ دوپہر کا کھانا ساتھ کھائیں گے باقی باتیں گھر پر ہوں گی۔ ضرور آئیے گا اس نے پکا وعدہ لیا۔ وہ وقت کی پابند کم گو اور ایک سنجیدہ لڑکی تھی۔
دو بجے کے قریب میں اس کے گھر پہنچ چکا تھا۔ اس نے خندہ پیشانی سے خیر مقدم کیا۔ اب اس کی عمر تیس سے پار کر چکی ہوگی۔ میں نے اچٹتی ہوئی ایک نگاہ اس پر ڈالتے ہوئے اندازہ لگایا لیکن دیکھنے میں چالیس سے کم کی نہیں لگ رہی تھی۔ وہ سادہ اور سفید لباس زیب تن کیے ہوئے تھی۔ پہلی نظر میں ہی مجھے اس کی بیوگی کا گمان پیدا ہوا پھر خیال آیا ممکن ہے اتنے برسوں کے اس طویل مدت میں اس کی شادی ہو گئی ہو اور بدصورتی کے سبب اپنی سگی بہن کی طرح مطلقہ ہو گئی ہو۔
اب وہ غیر فطری طور پر قدرے موٹی ہو گئی تھی۔ میں نے اس کی چھائیوں بھرے سانولے چہرے پر ایک سرسری نگاہ ڈالی۔ اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں اندر کو دھنس گئی تھیں جو بدصورتی میں مزید اضافہ کر رہی تھی۔ موٹاپے سے اس کی ناک اور پھیل گئی تھی جو اس کی شکل پر بھونڈی لگ رہی تھی۔ بھنویں ابھر کر آنکھ کے پپوٹے پر جھریوں کے ہونے کا شبہ پیدا کرتی رہیں۔ مجھے اس کے خالق سے بےانتہا شکایت تھی جس نے اس کریہہ چہرہ و بدنما شکل کے اندر ایک صاف شفاف دھڑکتا ہوا پاک دل رکھ دیا تھا۔
میں صوفے میں دھنسا بیٹھا چند ساعت کچھ سوچتا رہا۔ پانی کا ایک گلاس اور اردو کا وہ رسالہ جس میں میرا افسانہ چھپا تھا جو مجھ سے رابطے کا موجب بنا، میرے ہاتھ میں دے کر ابھی آئی کہتی ہوئی وہ باورچی خانے کو چلی گئی۔ میں نے افسانے کے عنوان پر ایک نظر ڈالی، صفحہ کے آخر میں میرا پتہ و موبائیل نمبر لکھا ہوا تھا۔ میں نے خود سے سوال کیا کہیں مجھے گھر بلانے کا سبب یہ افسانہ تو نہیں؟ یقیناََ میں نے یہ افسانہ اس کی زندگی پر ہی لکھا تھا۔
میں نے اس کے بوسیدہ مکان پر ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ ایک پرانا فریج جس کا ایک پایہ آدھے اینٹ پر رکھا ہوا تھا۔ ایک عدد پرانا پنکھا جو رہ رہ کر چوں چوں کی آواز پیدا کر رہا تھا۔ لکڑی کی ایک خستہ الماری اور ایک فرسودہ حال صوفہ، وہاں سب کچھ پرانا ہی تھا چمک دمک نام کی کوئی چیز کہیں نظر نہ آئی۔ مفلوک الحالی ببانگ دہل دہلیز سے چیخ رہی تھی اور زبوں حالی مکان کے در و دیوار سے لپٹی پڑی تھی۔
وہ کوئی پاؤ گھنٹے بعد باورچی خانہ سے چائے کی دو پیالی کچھ نمکین اور بسکٹ کی ایک پیکٹ کے ساتھ حاضر ہوئی۔ چائے کی ٹرے کو میز پر رکھتے ہوئے قمیض کو درست کیا اور دونوں پیروں کو ملا کر سلیقے سے سامنے پڑی ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔
اور کہو کیسے ہو؟ بہت دنوں بعد ملاقات ہوئی۔ میں نے تمہیں فون کرنے کی بڑی کوشش کی جب بھی تمہاری یاد نے میرے دل پر دستک دی، اس امید پر کہ شاید تم سے بات ہو جائے اور میں اپنا دکھ درد تم سے بیان کر سکوں؟ لیکن تمہارا نمبر بند پڑا تھا۔ اتنے دنوں کہاں غائب تھے؟ کہیں باہر تو نہیں چلے گئے تھے؟ کچھ بتایا بھی نہیں؟ اور سب خیریت تو ہے نا؟
وہ آہستہ آہستہ بولتی چلی گئی مانو لفظ کو چبا چبا کر باہر نکال رہی ہو۔ وہ کم سخن تھی لیکن اس کی گفتگو واضح اور صاف ہوتی تھی یہاں کچھ بھی مبہم نہیں تھا۔ باتوں کے دوران اس کی سکڑی ہوئی آنکھوں میں مسرت چمک رہی تھی۔ پھر چائے کی پیالی میری طرف سرکاتے ہوئے کہنے لگی اب تو تم بھی موٹے ہو گئے ہو؟ کالج میں صحت و تندرستی کے تعلق سے تو بڑی لمبی لمبی تقریریں کیا کرتے تھے؟ لیکن وقت کے آگے کس کی چلی ہے؟ عمر کے بھی کچھ تقاضے ہیں؟ اب ہم دونوں ایک ہی نیاّ کے سوار ہیں۔
اس کی وضع قطع مکان کی بدحالی گھسے پٹے سامان کی ارزانی دیکھ کر مجھ میں کچھ پوچھنے کی ہمت نہیں تھی۔ میں کسی خیال میں غلطاں وپیچاں بتدریج برف کی مانند جم رہا ہے۔ آخر کار انسان کی سرشت میں جو چنگاری ہے وہ بھڑک اٹھتی ہے۔ اس نے میرے جواب کا انتظار کیے بغیر پوچھا چپ کیوں ہو گئے؟ کچھ بولتے کیوں نہیں؟ کیا یہاں نہ بولنے کی قسم کھا رکھی ہے؟
قدرے توقف کے بعد اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے تین برسوں کے خلا کو پُر کرتا ہوا خلاصہ کلام میں نے اس کے آگے پیش کر دیا۔ وہ سن کر بہت محظوظ ہوئی اور بڑے انہماک سے ساری باتیں سنتی رہی۔ قدرے تامل کے بعد کہنے لگی اب یقین آیا کہ تم واقعی ایک اچھے افسانہ نگار ہو گئے ہو۔
چائے گرچہ ٹھنڈی ہو چکی تھی لیکن ایک آخری گھونٹ اپنے گلے میں اتارتے ہوئے میں نے کہا۔ تم اکثر و بیشتر شرمندہ کیے دیتی ہو۔ میں نے تمہارے سامنے بولنے کی جرآت کی، یہی کیا کم ہے۔ وہ زیر لب مسکرائی اس کا چہرہ کسی مرجھائے ہوئے کاسنی گلاب کی طرح اچانک کھل اٹھا۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا انسان اگر ہر وقت مسرور رہتا تو شاید کبھی بوڑھا نہ ہوتا۔
چند ساعت بعد میں گھر بلانے کی کوئی خاص وجہہ جاننے کا متجسس ہوا۔ ظہرانہ کی کوئی خاص وجہہ ضرور ہونی چاہیے۔ گمان غالب تھا کہ کوئی تقریب رہی ہوگی لیکن یہاں تو بالکل سناٹا تھا۔ کچن سے برتن کے کھنکنے کی آواز مسلسل آتی رہی۔ تھوڑی دیر بعد بڑی بہن نے کھانا لگا دیا۔
جس بات کو پوچھنے سے میں کافی دیر سے جھجھک رہا تھا کھانے کے دوران ہمت جٹا کر ذرا محتاط طریقے سے دریافت کیا۔ اس نے سر اٹھا کر مجھے غور سے دیکھا اور کہا۔ نکاح کی پاکیزگی و حرمت میرے نذدیک کس قدر اہمیت کی حامل تھی لیکن تقدیر نے میرے لیے کچھ اور ہی لکھا تھا۔
وہ کیا؟ میں نے متعجب ہو کر پوچھا۔ اس نے اپنی آنکھیں میرے چہرے پر گاڑ دی اور کہا۔ میں فطرت کے خلاف جنگ نہیں کر سکتی فطرت کے خلاف میری تمام مساعی بیکار ثابت ہوئی ہیں۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی انتہا ضرور ہے اور مجھ میں اتمام تک پہنچنے کی ہمت نہیں ہے۔ بہن کا حشر ہمارے سامنے ہے۔ تم اس واقعے سے بخوبی واقف بھی ہو۔
سب کچھ واضح تھا کچھ بھی غیر واضح نہیں تھا۔ وہ ایم اے اردو کی ممتاز طالبہ تھی۔ لیکن یہ قصد تمہاری خطرناک زندگی کا محرّک ہے، میں نے اپنا متذبذب فیصلہ سنایا۔ وہ کچھ دیر خاموش رہی پھر رک رک کر کہنے لگی۔ انسان سوچتا ہے کہ اس کا ہر کام حسب منشاء ہو جائے گا جب کہ ایسا نہیں ہوتا۔ کوشش کے باوجود ناکامی ہی خدا کے ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے اور تقدیر پر ایمان لانے کا یقین پختہ کر دیتی ہے۔
حال سے انتہائی مایوسی اور مستقبل سے پر امید ہو کر اس نے کہا مجھے افسوس ہے کہ خالق نے مجھے اچھی شکل و صورت نہیں دی لیکن مجھے اپنی زندگی سے شکایت ضرور ہے کہ اتنے اعلیٰ تعلیم کے باوجود میں ایک اچھی نوکری نہ پا سکی؟ ممکن ہے اس میں میری بھی کچھ کمی رہی ہو؟ لیکن لوگوں کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ میرا مذاق اڑائیں ہمارے حقوق پامال کریں اور بلاوجہ مجھے ذلیل کریں، کہتے کہتے وہ تھوڑی دیر کو رک سی گئی۔ قدرے توقف کے بعد کہنے لگی۔ دوستوں کے متعصبانہ رویہ سے دھیرے دھیرے میرے اندر کا اعتماد جاتا رہا اور خود اعتمادی مجھ سے رخصت ہو گئی۔
اس غیر متوقع گفتگو نے گردوپیش پر افسردگی کی دبیز چادر اوڑھا دی تھی۔ جانے انجانے میں اس نے ماحول کو غیر مانوس سا بنا دیا تھا۔ چند دقیقہ بعد مجھے یوں محسوس ہوا جیسے گردونواح پر موت سی خاموشی طاری ہے۔
تم بدصورت نہیں ہو قبول صورت ہو اور ذہین بھی۔ میں سچ کہتا ہوں مجھ پر یقین کرو۔ کوشش کرنے میں کیا جاتا ہے۔ یہ سنتے ہی اس کے سانولے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ دوپٹے کو درست کرتے ہوئے بولی عورت کی ذہانت آج تک اس کی خوبصورتی کا مقابلہ نہیں کر سکی، کیا یہ بات مجھے تم جیسے پڑھے لکھے آدمی کو سمجھانی پڑے گی؟ تمہیں خدا سے ڈر نہیں لگتا؟ سچ بات بولتے ہوئے گھبراتے کیوں ہو؟ کتنا اچھا ہوتا ہے جب لوگ گفتگو میں تصنع نہیں برتتے۔
اب وہ کافی ہشاش بشاش نظر آ رہی تھی۔ ذرا دیر بعد کہنے لگی تم کیا سمجھتے ہو کہ میں نے کوئی کوشش نہیں کی ہوگی؟ کیا میں اتنے دنوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی؟ آدمی مصیبت میں گرفتار ہو کر ہی سمجھ سکتا ہے کہ اپنے جذبات پر قابو رکھنا کس قدر دشوار ہے۔ ہم اس چھوٹی سی زندگی میں کئی بار مرتے ہیں پھر زندہ ہو جاتے ہیں اسی اذیت سے بھری زندگی کو جینے کے لیے گرچہ ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا۔
اپنی بدصورتی کے باوجود مجھے اپنی زندگی سے کچھ نہ کچھ امیدیں ضرور وابستہ تھیں، لیکن بے انتہا کوشش کے بعد بھی کامیابی نہیں ملی، شاید یہی میری تقدیر تھی۔ مجھے شکوہ کرنا اچھا نہیں لگتا، ناشکری کا احساس ستانے لگتا ہے۔ لیکن اب دل پر ایک ہیجانی کیفیت کا نزول ہو رہا ہے۔ دھیرے دھیرے زندگی سے ایک لاتعلقی سی ہونے لگی ہے۔
میں کچھ سمجھا نہیں؟ میں نے حیرت سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔ میرے اس جھوٹ نے اس کے جسم میں جیسے جھرجھری سی پیدا کر دی۔ کہنے لگی کسی کو جھوٹی تسلی کبھی نہیں دلانی چاہیے۔ سچ چاہے کتنا ہی کڑوا کیوں نہ ہو اسے حلق تک اتارنے کی ہمت جٹانی پڑتی ہے۔
تم نے کوئی سرکاری نوکری حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی؟ یہ سنتے ہی اس کی مُندی مُندی سی بند آنکھیں اچانک چھلک پڑیں۔ آنسوؤں کو دوپٹے سے پوچھتے ہوئے کہنے لگی بڑی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی وجہ ظاہر ہے۔ اب ایک نجی نوکری کر رہی ہوں بہت کم تنخواہ ملتی ہے، اسی میں مکان کا کرایہ بھی دینا پڑتا ہے۔ آپا اکثر بیمار رہتی ہیں۔ کہتے کہتے یکلخت ہی چپ ہو گئی۔
صبر کے سارے بند ٹوٹ چکے تھے میں رو پڑا، تھوڑی دیر بعد انتہائی مایوسی کے عالم میں اپنے دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرتے ہوئے کہنے لگی۔ عورت کی نوکری بھی ایک گندے نالے کی طرح بہتی رہتی ہے، پتہ نہیں کب کسی گڈھے یا پرنالے میں جا گرے یا کہیں کسی کیچڑ میں مل کر ہمیشہ کے لیے منجمد ہو جائے۔
میرے دل کی دھڑکنیں مجھے صاف سنائی دے رہی تھیں۔ میں نے دکھ بھرے لہجے میں کہا تمہیں اپنے منفی جذبات پر قابو پانا ہوگا، یہ کہتے ہوئے میں نے اپنی آنکھیں میچ لیں۔ یہ سن کر اس کے چہرے پر تشنج پیدا ہوا۔ اس کے اوپر ایک اضطرابی کیفیت طاری ہوئی جیسے وہ کسی چیز کی متلاشی ہو۔ پھر کہنے لگی میرے پاس کچھ منفی نہیں ہے سب مثبت ہی ہے لیکن منفی کو مثبت مان لینے کا برا انجام میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی ہوں باجی کی زندگی ہمارے سامنے ہے۔
میں بت کی مانند بے حس و حرکت بیٹھا رہا۔ تھوڑے سے وقفہ کے بعد رنج کی ملی جلی کیفیت کے عالم میں کہا۔ میں نے تمہیں بہت تلاش کیا کئی بار تمہارے گھر بھی گیا لیکن تم کہیں ملی نہیں؟ تم نے علاقہ ہی چھوڑ دیا پتہ نہیں کیوں؟
ایک گھنٹے کی مسافت روز طے کرنا میرے بس کی بات نہیں تھی۔ میں بس رکشہ میٹرو میں لوگوں کی توجہ کا مرکز نہیں بننا چاہتی تھی، اس لیے مجبوراً مجھے یہاں سے منتقل ہونا پڑا۔ اس نے غم سے نڈھال ہو کر جواب دیا۔
قدرے تامل کے بعد اس نے میرے چہرے پر نظر جماتے ہوئے کہا۔ میری امی بھی اچھی شکل و شباہت کی نہیں تھیں۔ میں نے امی سے سنا تھا کہ ان کی شادی بھی بڑی مشکلوں سے ہوئی تھی۔ میرے ابو عمر دراز تھے جنہوں نے مجبوراً میری امی کو اپنا لیا تھا۔ پھر امی نے ہم دونوں کو جنم دیا۔ اچھا ہوا دونوں پہلے ہی گزر گئے ورنہ ہمیں دیکھ دیکھ کر روز ہی مرتے اور گھٹ گھٹ کر جیتے۔
میں نہیں چاہتی ہوں کہ اب اس ازلی و ابدی تکلیف و کوفت میں کوئی اور گرفتار ہو؟ اس لیے میں نے شادی نہ کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ اس کا یہ عجیب و غریب فیصلہ انتہائی حیرت انگیز تھا۔ اس کا دل اذیت کی آماجگاہ تھا۔ پتہ نہیں کس قدر درد اس نے اپنے اندر چھپا رکھا تھا جس کا مداوا شاید میرے لیے ممکن نہ تھا۔
پھر مجھے یہاں بلانے کا مقصد؟ صرف ایک ملاقات تھی یا بیتے دنوں پر تبادلہ خیال کرنا تھا یا کچھ اور؟ یہ کہتے ہوئے میں نے اس کی اداس آنکھوں میں جھانکا۔ وہ مجھے ٹکٹکی باندھے دیر تک دیکھتی رہی۔ اس کے لب گویا سل گئے تھے۔ اس نے سر کو ذرا سی جنبش دی میرے قریب آئی اور آہستہ سے بولی "تمہارا افسانہ پڑھ کر یہ جاننا چاہتی تھی کہ کیا افسانے حقیقت میں بدل جاتے ہیں”۔
ازقلم: تاج الدین محمد، جامعہ نگر، نئی دہلی۲۵
Comments are closed.