نعوذ باللہ ! قرآن پاک کی توہین !

شکیل رشید
( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
پیر اور منگل کو ڈنمارک میں ، نعوذ باللہ ! قرآن سوزی کی جو دو ناپاک حرکتیں کی گئی ہیں ، انہیں چاہے ساری دُنیا کے لوگ ’ آزادیٔ اظہارِ رائے ‘ کا خوشنما نام دیں ، مگر مسلمان ، جو قرآن پاک کے آسمانی کتاب ہونے پر ایمان رکھتے ہیں ، اس گھناؤنے ، شرمناک اور ناپاک عمل کو ’ جرم ‘ کے علاوہ کچھ اور نہیں مانتے ۔ اور ان کا یہ ماننا جائز بھی ہے ۔ اور ان کا یہ مطالبہ بھی جائز ہے کہ ’ مجرموں ‘ کو کڑی سزا دی جائے ۔ پیر کو ترکیہ کے سفارت خانہ کے سامنے ، اور منگل کو مصر کے سفارت خانہ کے سامنے ، ایک کٹّر مسلم مخلاف جماعت ’ ڈینش پیٹریاٹس ‘ نے قرآن سوزی کا جرم کیا ، اس سے قبل جمعہ کے روز عراق کے سفارت خانہ کے سامنے قرآن سوزی کا جرم کیا گیا تھا ۔ یعنی پانچ دنوں کے اندر ڈنمارک میں تین بار قرآن پاک کی توہین کا ’ جرم ‘ کیا گیا ۔ اس گھناؤنے عمل سے ڈنمارک کی حکومت کو بری نہیں کیا جا سکتا ، بھلے وہ لاکھ کہے کہ ’’ ڈنمارک اس واقعہ کی مذمت کرتا ہے ، اور یہ اشتعال انگیز اور شرمناک کارروائیاں ڈنمارک کی حکومت کے خیالات کی نمائندگی نہیں کرتی ہیں ، لیکن آزادی اظہار رائے کے تحفظ کے قوانین کے تحت ان واقعات کو روک نہیں سکتے ۔‘‘ اس سے قبل سویڈن میں یہ ناپاک ’ جرم ‘ کئی بار کیا گیا ، اور سویڈن نے بھی اوپری اظہار افسوس کے ساتھ ’ آزادیٔ اظہارِ رائے ‘ کا بہانہ پیش کیا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ’ بنیادی حقوق ‘ سے بڑھ کر اظہارِ رائے کی آزادی کی اہمیت ہے ؟ دنیا کے تقریباً دو کروڑ مسلمانوں کا بنیادی حق ہے ’ تلاوت قرآن ‘ ، لیکن اس بنیادی حق کو بار بار پامال کرنے کی ناپاک حرکت کی جا رہی ہے ۔ ترکیہ نے اسے بجا طور پر ’ قابلِ نفرت حملہ ‘ کہا ہے ۔ یہ سوال اہم ہے کہ بار بار قرآن پاک کی توہین کا مطلب کیا ہے ؟ بار بار اس لیے کہا جا رہا ہے کہ ڈنمارک اور سویڈن میں قرآن پاک کو ( نعوذ باللہ ) جلانے کاناپاک ’ جرم ‘ کوئی پہلی دفعہ نہیں کیا گیا ہے ، یہ ’ جرم ‘ پہلے بھی کئی بار کیا جا چکا ہے ۔ 2020 سے ہی ، ڈنمارک کی پارٹی ’ سٹرام کرس ‘ سویڈن کے متعدد شہروں میں قرآن جلانے کا ناپاک ’ جرم ‘ کرتی آ رہی ہے ۔ اپریل 2022 میں ’ سٹرام کرس ‘ کے لیڈر راسموس پالوڈن نے قرآن پاک کے متعدد نسخے جلانے کا اعلان کیا تھا ، اس کے نتیجے میں سویڈن کے شہروں میں قرآن پاک کی منصوبہ بند بے حرمتی کی گئی تھی ، اور اس توہین کے خلاف جگہ جگہ فسادات پھوٹ پڑے تھے ، خاص طور پر 2020 اور 2022 کے سویڈن کے فسادات ۔ ڈنمارک میں قرآن پاک کی بےحرمتی کو قانوناناً جائز قرار دیا گیا ہے ، وہاں کی سخت گیر سیاسی پارٹی ’ سٹرام کرس ‘ کے کارکنان قرآن سوزی کی ناپاک حرکتیں کرتے رہتے ہیں ، بلکہ اس پارٹی کا سربراہ راسموس اپنی ریلیوں اور اپنے اجلاس میں قرآن پاک ، اسلام اور نبیٔ اکرم ﷺ کے خلاف مغلظات بھی بکتا رہتا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ ڈنمارک سے اسلام کا نام و نشان مٹا دیں گے ۔ سویڈن اور ڈنمارک سے لگے چھوٹے سے ملک ناروے میں بھی یہی صورت حال ہے ۔ ’ اسٹاپ اسلامائزیشن آف ناروے ‘ نام کے ایک گروپ نے ناروے میں اپنی ریلیوں میں قرآن پاک کی بار بار توہین کی ہے ۔ یہ گروپ قرآن کے نسخوں کو صرف جلانے کا ہی نہیں ، پھاڑنے اور ان پر نعوذ باللہ تھوکنے کا بھی مجرم ہے ۔ یہ صورتِ حال صرف اسکنڈنیاوی ممالک میں ہی نہیں ہے ، یورپ اور امریکہ میں بھی ایسے نسل پرست ہیں جو قرآن پاک کی بے حرمتی اور اسلام و پیغمبر اسلامﷺ کی شان میں گستاخی کو ’ آزادیٔ اظہار رائے ‘ قرار دیتے ہیں ۔ یاد رہے کہ 2010 میں امریکہ میں فلوریڈا کے ایک عیسائی پادری ٹیری جونس نے 11/9 کی مذمت میں قرآن پاک کو نذر تش کرنے کا اعلان کیا تھا ، بعد میں اس نے اپنا اعلان واپس لے لیا تھا لیکن 20 ، مارچ 2010 کے روز اپنے چر چ کے اندر اس نے قرآن پاک جلانے کی ناپاک جسارت کی تھی ، جس کے نتیجے میں افغانستان میں تشدد پھوٹ پڑا تھا اور بارہ لوگ مارے گئے تھے ۔ ایک سال بعد 2011 میں میگن فہیلپس نام کے ایک باپٹسٹ پادری نے ایک ڈاکیومینٹری میں یہ اعتراف کیا تھا کہ اس نے لوگوں کے سامنے قرآن کو جلایا تھا ۔ افغانستان میں امریکی فوج کے اڈے ’ بگرام ایئر بیس ‘ پر 2012 میں قرآن پاک کی بےحرمتی کے واقعہ کے بعد زبردسست احتجاج ہوا تھا ، اور تشدد میں امریکی فوجیوں سمیت تیس سے زائد لوگ مارے گیے تھے ۔ گونتانامو بے میں ، جہاں عراق و افغانستان کے قیدیوں کو رکھا گیا تھا ، قرآن پاک کی توہین کے ناپاک واقعات سامنے آئے ہیں ۔ امریکی ہفت روزہ ’ نیوز ویک ‘ نے ایک تفتیشی رپورٹ شائع کی تھی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ قیدیوں سے پوچھ گچھ کرنے والے امریکی فوجی افسران نے ، تفتیش کے دوران قرآن پاک کی بےحرمتی کی تھی ۔ یہ ناپاک حرکت جلد رکنے والی نہیں ہے کیونکہ اس ’ ناپاک حرکت ‘ کو نام نہاد جمہوری و سیکولر ممالک نے ’ آزادیٔ اظہار رائے ‘ کا نام دے رکھا ہے ۔ لیکن اب اس نام نہاد ’ آزادیٔ اظہار رائے ‘ کے خلاف سخت قدم اٹھانے کا وقت آ گیا ہے ۔ اسلامی ممالک کی تنظیم ’ او آئی سی ‘ نے ۳۱ ، جولائی کو اس معاملے پر ایک اجلاس طلب کیا ہے ، اسے چاہیے کہ اس اجلاس میں کوئی ایسا فیصلہ لے جس سے قرآن پاک کی بے حرمتی پر قابو پایا جا سکے ۔ اگر یہ ممالک قرآن پاک کی توہین کو ’ آزادیٔ اظہار رائے ‘ سے جوڑتے ہیں ، تو اسلامی ممالک بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم قرآن پاک کی توہین کو ، چاہے وہ جس صورت میں بھی ہو ، ’ جرم ‘ سمجھتے ہیں ۔ مجرموں کے خلاف اقدامات کیے جا سکتے ہیں ، یہ اقدامات معاشی اور سفارتی سطح پر کیے جا سکتے ہیں ۔ اس ’ جرم ‘ کو روکنا اس لیے ضروری ہے کہ اس ناپاک عمل کے ذریعے یہ ’ مجرم ‘ صرف مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ہی ٹھیس پہنچانا نہیں چاہتے ، یہ بھی چاہتے ہیں کہ ایک ایسی فضا طاری ہو کہ مسلمان اپنی کتابِ مقدس و پیغمبر اسلامﷺ کی ناپاک توہین کے خلاف ردعمل کرنا چھوڑ دیں ۔ بالفاظ دیگر وہ توہین کی ان حرکتوں کو نظرانداز کرنے لگیں ، اس طرح ان کے دلوں سے ’ کتاب ‘ اور صاحبِ کتابﷺ کی عظمت نکل جائے ، اور وہ بس نام کے مسلمان رہ جائیں ۔
Comments are closed.