جمعہ نامہ:فضیلتِ شہادت

 

ڈاکٹر سلیم خان

ارشادِ ربانی ہے :’’ اور جو لوگ خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ (قیامت کے روز) ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر خدا نے بڑا فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ اور ان لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے‘‘۔  اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ  ایک صحابی رسول ﷺ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ میرے دل میں آپ کی محبت اپنی جان سے بھی زیادہ ہے، اپنی بیوی سے بھی، اپنی اولاد سے بھی، بعض اوقات میں اپنے گھر میں بےچین رہتا ہوں یہاں تک کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کی زیارت کرلوں تب سکون ہوجاتا ہے، اب مجھے فکر ہے کہ جب اس دنیا سے آپ کی وفات ہوجائے اور مجھے بھی موت آجائے گی تو میں جانتا ہوں کہ آپ جنت میں انبیاء ؑ کے ساتھ درجات عالیہ میں ہوں گے اور مجھے اول تو یہ معلوم نہیں کہ میں جنت میں پہنچوں گا بھی یا نہیں، اگر پہنچ بھی گیا تو میرا درجہ آپ سے بہت نیچے ہوگا میں وہاں آپ کی زیارت نہ کرسکوں گا تو مجھے کیسے صبر آئے گا ؟آنحضرت ﷺ نے ان کا کلام سن کر کچھ جواب نہ دیا، یہاں تک کہ یہ آیت  نازل ہوگئی تو نبیٔ کریم  ﷺ نے انہیں  بشارت سنا دی کہ اطاعت گذاروں کو جنت میں انبیاء ؑ اور صدیقین اور شہداء اور صالحین کے ساتھ ملاقات کا موقع ملتا رہے گا۔ اقبال نے کیا خوب کہا؎

دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو                        عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی

آیتِ مذکورہ  میں درجہ بندی کے لحاظ سے انبیائے کرام ؑ کے بعد صدیقین اور پھر شہداء کا ذکر ہے مگر ایک  صحیح حدیث میں یہ  بھی آیا ہے کہ انبیاءؑ صرف درجہ نبوت کے سبب شہداء سے  افضل ہیں ۔فرمانِ ربانی ہے:’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں ان سے (جنت کا وعدہ) اللہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے توراۃ اور انجیل اور قرآن میں اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟‘‘ اللہ  تبارک و تعالیٰ  کو   جنت کے بدلے مال و جان  فروخت کردینے کے بعد  بندۂ مومن پر  لازم ہے بوقتِ ضرورت  اس عہد کو پورا کرتے ہوئے  شہید ہوجائے۔رب کائنات کے ساتھ   اپنے  عہد پورا کرتے  ہوئے اپنی  جان  کا نذرانہ پیش کرکے  گواہی کا حق ادا کر دے   ۔  اللہ کی راہ میں لڑ کر جان دینے والے کو  شہید کہتےہی اس لیے  ہیں کہ وہ جان دے کر اپنے ایمان کی گواہی دیتا ہے۔ ایسی پاکیزہ نفوس کے بارے میں ارشادِ قرآنی ہے:’’ ایمان والوں میں کچھ مرد ایسے ہیں کہ انہوں نے جس بات کا اللہ سے عہد کیاتھا اسے سچ کر دکھلایا پھر بعض تو ان میں سے وہ ہیں جنہوں نے اپنا ذمہ پورا کر لیا اور بعض ان میں سے ( اللہ کی راستے میں جان قربان کرنے کے لیے ) راہ دیکھ رہے ہیں اور وہ ذرہ (برابر ) نہیں بدلے‘‘۔یہی بات علامہ اقبال بھی فرماتے ہیں ؎

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن                         نہ مالِ غنیمت نہ کِشور کشائی

مندرجہ بالا آیت کے شانِ نزول یہ ہے کہ حضرت انس بن نضیر   ؓ  چونکہ جنگ بدر میں شریک نہیں ہوسکے تھے اس لیے   ان کو اس کابہت افسوس تھا۔  جنگ احد کا موقعہ آیا تو انہوں نے حضرت سعد بن معاذؓ سے یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے  کہ  واللہ مجھے احد پہاڑ کی طرف سے جنت کی خوشبوئیں آرہی ہیں۔  مسلمان چونکہ  لوٹ گئے تھے  اس لیے وہ تنہا ہوگئے  اس کے باوجود بےپناہ حملوں سے کفار کے دانت کھٹے کردئیے۔ بالآخر   چاروں طرف سے گھیرکر کفار نے انہیں  شہید کردیا۔ آپ کو 80 سے زیادہ  زخم آئے  اس لیے  شہادت کے بعد کوئی  پہچان نہ سکا یہاں تک کہ آپ کی ہمشیرہ نے انگلیوں کی پوروں سے شناخت  کی ۔اس طرح حضرت انس ؓ نے  جو کہا تھا کر دکھایا۔  اوپر اپنی جان و مال کو فروخت کرنے کی آیت کا اختتام اس طرح ہے کہ :’’ پس خوشیاں مناؤ اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے‘‘۔  موت و حیات کا سارا معاملہ شہادت و جہاد سے وابستہ ہے اور ہر دو صورت میں یہ سودا عظیم ترین کامیابی کی بشارت ہے ۔اہل ایمان  کے نزدیک شہادت کی سعادت      موت نہیں کامیاب ترین  زندگی  کی علامت ہے  کیونکہ ؎

کُشادِ درِ دل سمجھتے ہیں اس کو                            ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں

غزوۂ احد میں   70 جلیل القدر صحابی درجۂ شہادت پر فائز ہوئے اور  اہل ایمان جیتی ہوئی بازی ہار گئے تو ان کا حوصلہ بلند کرنے کے لیے  یہ آیات نازل ہوئیں:’’ جو   لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو، وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں ۔جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اُس پر خوش و خرم ہیں، اور مطمئن ہیں کہ جو اہل ایمان ان کے پیچھے دنیا میں رہ گئے ہیں اور ابھی وہاں نہیں پہنچے ہیں ان کے لیے بھی کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے ۔ وہ اللہ کے انعام اور اس کے فضل پر شاداں و فرحاں ہیں اور ان کو معلوم ہو چکا ہے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا ‘‘۔  شہید اعظم امام حسین ؓ کی  سیرت پاک کو اگر ان قرآنی آیات کے تناظر میں دیکھا جائے تو  عصرِ حاضر  بلکہ ہر دور میں  شہادت کی معنویت کھل کر واضح ہو جاتی  ہے ۔جوش ملیح آبادی کی  یہ رباعی اس  حقیقت کی ترجمان   ہے؎

کیا صرف مُسلمان کے پیارے ہیں حُسین

چرخِ نوعِ بَشَر کے تارے ہیں حُسین

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو

ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حُسین

 

Comments are closed.