منی پور : اقلیتیں آخر کیا کریں؟!

ڈاکٹر عابد الرحمن (چاندور بسوہ)
منی پور میں جو کچھ ہوا نیا نہیں ہے،فسادات کی جانچ پڑتال اور تجزیہ کرنے والے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اب فسادات میں عورتوں لڑکیوں اوربچوں کو خاص طور پر منظم طریقے سے جنسی تشدد اور ہراسانی کا نشانہ بنایا جارہا ہے جس کی شروعات گجرات فسادات سے ہوئی اسکے بعد مظفر نگر میں یہی ہوا دہلی فسادات کے متعلق تو اقلیتی کمیشن نے مسلم عورتوں کے خلاف جنسی جرائم کے لئے خوددہلی پولس کی جانچ کرنے کی مانگ کی تھی۔اور اب منی پور میں بھی یہی ہوا۔کہا جارہا ہے کہ ایسا اس لئے کیا جارہاتا کہ پوری کمیونٹی کو احساس ذلت اورخوف و ہراس میں مبتلا رکھا جاسکے۔اس کے علاوہ عام حالات میں ’سلی ڈیل‘ اور’ بلی بائی ‘ جیسی اپلیکیشنس بناکر مسلم عورتوں کو بدنام کرنے کی کوششوں کے ذریعہ یہ سلسلہ دراز کیا جارہا ہے۔
عورتوں کے خلاف جرائم کے معاملات میں طرح طرح کی مشکلات پیدا کرکے مظلوم اور اس کے اہل خانہ کو خاموش کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے- ہر سرکار انصاف کی فراہمی میں تاخیر ہی کرتی ہے یا اگر خود تاخیر نہیں کرتی تو تاخیر کو روکنے کے لئے بھی کوئی موثر اقدام نہیں کرتی-َجس طرح منی پور کے معاملے کی ایف آئی آر وقوعے کے چار دن بعد ہی درج کروائی جاچکی تھی لیکن اس میں کارروائی اب یعنی قریب دومہینے بعد اس وقت ہورہی ہے جب اس کا ویڈیو وعوام کے سامنے آیا ۔یہاں تک کہ قومی کمیشن برائے حقوق نسواں نے بھی اس معاملے میں شکایتیں متعلقہ اتھارٹیز یعنی سی ایم اور ڈی جی پی کو فارورڈ کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا ان کا فیڈ بیک بھی نہیں لیا جبکہ کہا جارہا ہے کہ اسے یہ شکایتیں ویڈیو وائرل ہونے سے بہت پہلے ہی بھیجی جا چکی تھیں-سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا ریاست کے ُوزیر اعلی مرکزی وزیر داخلہ اور وزیر اعظم بھی اتنے بے خبر تھے کہ انہیں اس واقعہ کا علم بھی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ہی ہوا؟ اگر بے خبر تھے تو یہ پورے ملک کی بد نصیبی ہے انہیں فوراً اپنے عہدے سے مستعفی ہوجانا چاہئے لیکن اگر باخبر تھے اوراسی وقت اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کروائی اب غم و غصہ اور درد کا اظہار کررہے ہیں کسی کو نہیں بخشا جائے گا کا اعلان کررہے ہیں تو سمجھئے کہ مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں عبرتناک کارروائی اب بھی ان کی منشا نہیں َ۔سپریم کورٹ نے اس پر اچھا اسٹینڈ لیا ہے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اگروہ اس معاملہ میں کوئی کارروائی نہیں کرتی تو کورٹ خود کرے گی- لیکن معاملات میں امتیاز اس طرح کے اقدامات کو کھوکھلا کردیتا ہے کہ قابل صد احترام سپریم کورٹ نے گجرات معاملے کے مجرمین کی رہائی کا ازخود نوٹس نہیں لیا تھا۔
اقلیتوں کے ساتھ واقع ہونے والے اس طرح کے معاملات میں پورے ملک کی اکثریت اتنی بے شرم ثابت ہوئی ہے کہ وہ ان معاملات کے ملزمین کی حمایت میں سڑکوں پر بھی اتاری جاسکتی ہے جو کٹھوعہ کشمیرکے معاملے میں ہم دیکھ چکے ہیں اور اس کے باوجود اگر انصاف مل جائے تو مجرمین کی سزا کم کرنے کی بھی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے جس کی نظیر بھی گجرات ہی کے معاملے میں موجود ہے یہی نہیں بلکہ ان مجرمین کا پرتپاک خیرمقدم بھی کیا گیا جیسے کہ وہ کسی تیرتھ یاترا سے آئے ہوں۔ اور ایسا کرنے والے کسی خاص پارٹی نہیں سبھی پارٹیوں میں موجود ہے اور ان واقعات کے بعد پارٹیوں نے انہیں سسپینڈ کیا لیکن پارٹی سے نکالا نہیں یعنی پارٹیوں کو ایسے لوگوں سے کوئی دقت نہیں ہے۔ لیکن اگر معاملہ کسی نر بھیا کا ہو تو نہ اس کی فیملی کو چپ رہنے کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے نہ کسی خطرے کے باعث سیکیورٹی کی ضرورت پڑتی ہے نہ اس کے مجرمین کی حمایت میں کسی عوامی احتجاج کا خدشہ ہوتا ہے اور نہ اس کے مجرمین کو قبل از وقت رہائی اور پرتپاک خیرمقدم کی کوئی امید۔
تو اب سوال یہ ہے کہ اقلیتیں اور ہمیشہ فسادات کا شکار ہونے والے گروہ اس صورت حال سے بچنے کے لئے کیا کریں؟ سرکار یں خواہ کسی پارٹی کی ہوں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس ضمن میں ہمیشہ مایوس ہی کرتے آئے ہیں۔خبر ہے کہ منی پور کی ٹارگیٹیڈ کوکی کمیونٹی اپنی ماؤں بہنوں اور عورتوں کی حفاظت کے لئے باقائدہ ہتھیاروں کے ساتھ پہرہ دے رہی ہے، لیکن مسلمان کسی صورت ایسا نہیں کرسکتے۔تو آخر ہمیں کیا کرنا چاہئے اس سوال کا جواب تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔
[email protected]
Comments are closed.