10؍محرم کی رات

الطاف جمیل شاہ کشمیر
شاید ہر کسی صاحب ایمان اور حب نبوی ﷺ سے سرشار انسان کے لئے یہ رات یہ دن کسی طرح بھی سخت ذہنی اذیت اور قلبی آزردگی سے کم نہ ہو یہ وہ رات و دن ہے جب خاندان رسالت مآب ﷺ کے چشم و چراغ ناموس میدان کربلا میں اپنوں کے جور و جفا کو اپنی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے ، جب خیمہ فاسقین سے وحشت و بربریت کے زہر آلود قہقہے بلند ہورہے تھے اور ان غریب الدیار کے خیموں سے ہچکیاں اور آہیں بلند ہورہی تھی میں انہیں خیالات میں بہتے ہوئے ،، تصورات خیالات کی ایک ایسی دنیا میں کھو جاتا ہوں جو۔ مجھے میرے حال و ماضی سے الگ کرتے ہوئے تاریخ کے ان تاریک پنوں سے جوڑتے ہوئے کربلا و نجف کی سرزمین پر پہنچا دیتے ہیں ۔ جب میں تھوڑی دیر کے لئے سوچوں میں کھو کر تصور کرتا ہوں کہ
نواسہ رسولﷺ کے وہ مبارک لمحات زندگی کے جب وہ کبھی اپنے نانا کے کاندھے پر تو کبھی نانا کی گود میں بیٹھے رہنا سوچتا ہوں میں انسان ہوں سو محسوس کرتا ہوں کہ نانا نے اپنے اس نواسے کے کتنے بوسے لئے ہوں گئے کہاں کہاں نہ پیار کیا ہوگا، یہ وہ نواسہ کہ جس کی تربیت ایسے پاکیزہ ماحول جہاں حیاء پاکدامنی غیرت و حمیت ایمانی لذت و چاشنی کا ماحول ہر سو میسر تھا نواسہ رسول ﷺ کی کتنی نمازیں ہوں گئیں جو اپنے نانا کے سامنے ادا ہوئی ہوں گئیں ، کتنے ادائیں ایسی رہی ہوں گئیں جن پر ان کے نانا کو پیار آیا ہوگا ، پھر زمانے نے کروٹ بدلی ماحول بدلا ، ہواؤں کے مزاج بدلے وہی نواسہ رسول ﷺ جن کے لڑکھڑاتے قدم جب مسجد نبوی میں پڑے تو ان کے نانا نے انہیں سہارا دیا کہ کہیں گر نہ جائیں آج
تنہا بے دست و وپا اپنے نانا کے ماننے والوں کے سامنے ٹوٹے دل اور تھکن سے چور بدن لئے حسرت و یاس کا مجسم بنے کھڑے تھے میدان کربلا میں جو سامنے ڈٹ گئے تھے وہ نمازیں بھی ادا کر رہے تھے نعرہ تکبیر بھی بلند کرتے رہے اپنے ایمان کا گمان لئے بھی رہے پر اپنے نبی کریم ﷺ کے نواسہ کے لئے زمین تنگ کرنے کے لئے تن گئے اف وہ کیا منظر رہا ہوگا جب لشکر فسق و فجار نے وضو کیا ہوگا اور نمازیں ادا کی ہوں گئی مگر جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و فرمانبرداری میں یہ کر رہے تھے اسی کا نواسہ پانی کی چند بوندوں کے لئے ترس رہا تھا انہیں کے سامنے ہائے فرشتے محو حیرت رہے ہوں گئے کہ کیسے شقی القلب ہیں یہ لوگ بھی
پھر کائنات نے وہ منظر بھی دیکھا کہ کس طرح نواسہ رسول کائنات ﷺ کو زخم پر زخم دیے گئے اور تب تک دیے جب تک وہ گر نہ پڑے زمین پر ، ہائے یہیں بس کہاں ہوا سر مبارک تن سے جدا کرتے ہوئے کیا اس بدبخت کے ہاتھ تھرائے بھی نہ ہوں گئے
وہ خاندان نبوت کے چشم و چراغ اپنوں کی اس وحشت کا کس طرح سامنا کر رہے ہوں گئے جب امام حسین رضی اللہ عنہ کی بہن بیٹیوں کی چینخیں بلند ہوئی ہوگئیں خیموں کی طنابیں جب ٹوٹ رہی ہوں گئی کائنات کی سب سے بہتر خواتین نے پردے کے لئے جتن کئے ہوں گئے تب
کیا آسمان نہیں رویا ہوگا
میں یہ سوچ کر ہی تھرا رہا ہوں
بس تخیلات میں سوچتے ہوئے نواسہ رسول اللہ ﷺ کے قدموں کا بوسہ لیتے ہوئے چند آنسو بہا کر دل کو تسلی دیتا ہوں مت رو آئے دل تو حسینی خیمہ کا نہ سہی گرد پا تو ہے فکر حسینی کا
فی امان اللہ
Comments are closed.