بھوپال کی خواتین نثرنگار

ڈاکٹر مرضیہ عارف (بھوپال)
خواتین ہمارے معاشرہ کا نصف حصّہ ہیں جن کی معقول نمائندگی کے بغیر نہ کوئی سماج ترقی کرسکتا ہے، نہ ادب کو فروغ حاصل ہوسکتا ہے لیکن آج سے ایک صدی پہلے یہ تصوّر ہندوستان میں عام نہ تھا، حالانکہ اُس وقت بھی عورتوں کے بارے میں سوچنے والے اور اُن کے مسائل پر قلم اُٹھانے والے موجود تھے لیکن یہ کام مردوں کے وسیلہ سے ہورہا تھا، ایک طرف گاندھی جی کی تحریک میں عورتوں کی شرکت، دوسری جانب ترقی پسند ادب کی مقبولیت سے خواتین کو اپنی ضرورت اور مسائل پر لکھنے کا حوصلہ ملا، لیکن بھوپال جیسی جاگیردارانہ نظام کی پروردہ ریاست میں سب سے پہلے یہ کام یہاں کی تیسری خاتون حکمراں نواب شاہجہاں بیگم نے انجام دیا، بیگم صاحبہ سے پہلے کوئی خاتون نثرنگار یہاں نہیں ملتی، شاہجہاں بیگم نے شاعری اور نثرمیں اپنے جوہر دِکھائے، دوسرے اہلِ قلم کی سرپرستی بھی کی۔ مولوی صدیق حسن خاں سے نکاح کے بعد تو بیگم صاحبہ کی علم پروری میں کافی اضافہ ہوگیا مختلف علوم و فنون کی نہایت بلندپایہ کتابیں حکومت کی سرپرستی میں تصنیف و تالیف ہوئیں۔
نواب شاہجہاں بیگم کی بیٹی نواب سلطان جہاں بیگم نے حکومت و انتظام کے شعبوں میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوانے کے ساتھ ساتھ اکتالیس کتابوں کی مصنّفہ کا اعزاز حاصل کیا، اُن کے زمانے میں ریاست کے سبھی قوانین اردو میں مرتّب ہوئے، سبھی مدارس میں اردو کی تعلیم لازم کی گئی، ملازمت کا اعلیٰ معیار اُردو دانی کو قرار دیا گیا، دفترِ تاریخ قائم کرکے بڑے پیمانے پر علمی کتابیں لکھوائی گئیں، مشہور اہلِ قلم حضرات کی بھوپال میں سرپرستی کی گئی اور یہاں کی مالی امداد سے باہر بھی کتابیں شائع ہوئیں، جن میں علامہ شبلیؔ نعمانی کی ’’سیرۃ النبیؐ‘‘ سرِفہرست ہے، سلطان جہاں بیگم کی توجہ سے بھوپال میں حمیدیہ لائبریری قائم ہوئی جو علم و ادب کا بیش بہا خزانہ تھی، اسی زمانہ میں ’’الحجاب‘‘ اور ’’ظل السلطان‘‘ کے نام سے خواتین کے دو ماہنامے جاری ہوئے، خود سلطان جہاں بیگم فصیح اردو لکھتیں اور بولتی تھیں، اُنھوں نے مختلف شہروں کی علمی و ادبی مجلسوں کے علاوہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کانویکشن میں جو تقاریر کیں، وہ اردو نثر کا معیاری نمونہ ہیں، خواتین کے لیے اُن کے کارناموں کے بارے میں مہتمم دفتر تاریخ محمد امین زبیری لکھتے ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ کثرتِ مطالعہ نے جو زمانہ ولی عہدی میں بیگم صاحبہ کا خاص مشغلہ تھا، معلومات میں غیرمعمولی وسعت و ہمہ گیری پیدا کردی تھی، تصنیف و تالیف کا شوق بھی موروثی وفطری تھا ، اس کی طرف بھی توجہ مائل ہوئی، سب سے پہلے ۱۹۰۳ء میں اپنی جددہ محترمہ خلد نشیں کے نقوش قدم پر ’’سفرنامہ حرمین شریفین‘‘ مرتّب کرکے شائع کیا، اس کے بعد آخرسال حیات تک تصنیف وتالیف کا مشغلہ رہا، اُنھوں نے ساٹھ سے زیادہ کتابوں کے ترجمے کرائے، جن کا تعلق عورتوں کی زندگی کے مختلف شعبوں سے تھا اور جن کے ۱۰ ہزار ۷سو ۴۶ مختلف سائز کے صفحات ہیں‘‘۔
(حیاتِ سلطانی۔ صفحہ:۳۰۳)
نواب سلطان جہاں بیگم کا یہ کارنامہ بھی سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے کہ اُنھوں نے عورتوں کو سماجی بندھن اور بیجا رسم و رواج سے نجات دِلانے کی ہرممکن کوشش کی اور اُن کے اندر خوداعتمادی وخودشناسی کے جوہر پیدا کئے، وہ چاہتی تھیں کہ ریاست کی لڑکیاں تعلیم پائیں، اُنھیں اچھی تربیت ملے چنانچہ اِس کا احساس دِلاتے ہوئے وہ خود کہتی ہیں:
’’تمہاری تعلیم مصیبت کے وقت تم کو خود اپنی مدد آپ کرنے کے قابل بنادیگی اور خدانخواستہ اگر تم میں سے کسی پر مصیبت کا وقت پڑے تو غیرت وحمیت کے ساتھ اپنی روزی پیدا کرسکو اور جب تم صاحبِ اولاد ہوتو اس کی تعلیم و تربیت اپنی گود سے شروع کرو‘‘۔
(خطباتِ سلطانی۔ صفحہ: ۲۳۵)
نواب سلطان جہاں بیگم کے علمی مذاق اور مشغلہ تصنیف و تالیف کے اعتراف میں علامہ شبلیؔ نعمانی، نواب وقارالملک، مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا ابوالکلام آزادؔ، مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی اور خواجہ حسن نظامی ایک زبان ہیں، مولانا آزادؔ کی تحریر کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’حضورِ عالیہ کی ذاتی قابلیت و لیاقت، قوتِ تدبیر، نظمِ ریاست اور علم پروری ایسے اوصافِ حسنہ ہیں، جن میں سے ہر ایک وصف انسان کے شرف و امتیاز کا بہتر نمونہ ہوسکتا ہے، اِس پر مستزاد یہ ہے کہ وہ بحیثیت مصنفہ اور اہلِ قلم کے بھی جلوہ افروز ہیں اور مسلسل مفید کتابیں اُن کی تالیف و تصنیف میں شائع ہوچکی ہیں‘‘۔
(حیاتِ سلطانی۔ صفحہ:۳۰۳)
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آخری بیگم بھوپال علم و ادب، سماجی خدمات اور علم پروری کا کتنا اعلیٰ ذوق رکھتی تھیں کہ مشاہیر بھی اِس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے۔
نواب سلطان جہاں بیگم کے بعد اُن کی بہو بیگم میمونہ سلطان کا نام بھوپال میں خاتون نثرنگار کی حیثیت سے سامنے آتا ہے، وہ نواب حمیداللہ خاں کی اہلیہ تھیں، اُن کی تعلیم وتربیت نواب سلطان جہاں نے خود کی اور ہمیشہ اپنے ساتھ رکھا، اِسی کا نتیجہ ہے کہ لکھنے پڑھنے سے اُن کا شوق بڑھتا گیا، سب سے پہلے علامہ شبلیؔ نعمانی کے رسالہ ’’بدرالاسلام‘‘ کا ترجمہ فارسی سے اُردو میں کیا، ۱۹۱۱ء؁ میں یوروپ اور ترکی کا سفر کیا تو وہاں کے حالات اپنے سفرنامے ’’سیاحتِ سلطانی‘‘ میں رقم کیے، میمونہ سلطان کی دوسری تصانیف میں ’’ذکرِ مبارک‘‘ اور ’’خلافتِ راشدہ‘‘ مقبول ہوکر بھوپال، علی گڑھ، حیدرآباد کے نصاب میں داخل ہوئیں، بچوں کی اخلاقی تعلیم وتربیت پربھی کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
بھوپال میں شاعروں کے مقابلہ میں نثرنگاروں کی کمی رہی ہے، یہاں افسانہ نگاری کا باقاعدہ آغاز نیاز فتح پوری نے کیا۔ ۱۹۱۵ء میں وہ بھوپال آئے تو گیارہ سال تک یہیں مقیم رہے، یہی اُن کی افسانہ نگاری کے عروج کا زمانہ ہے، جس نے ہم عصر قلم کاروں کو بھی اِس صنف کی طرف راغب کیا، جن میں اخترجمال، زہرہ جمال دونوں بہنیں سرِفہرست ہیں، زہرہ جمال کی کہانیوں میں جہاں اختصار ملتا ہے وہیں اخترجمال نے اپنے افسانوں میں وضاحت سے کام لیا ہے لیکن دردمندی اور انسانیت نوازی دونوں کا مشترکہ جوہر ہے، دونوں کی کہانیوں کے مجموعہ شائع ہوچکے ہیں۔ کوثرجہاں خواتین کہانی کاروں میں اپنے مجموعہ ’’جادونگری‘‘ کے وسیلہ سے مشہور ہوئیں، ان کی کہانیوں میں کرداروں کے ذریعہ انسانی اخوت ومحبت کو اُبھارا گیا ہے اور تجربے و مشاہدے کی آنچ سے کہانیوں میں گہرائی پیدا کی گئی ہے، فرحت جہاں کہانیوں کو معمولی معمولی واقعات سے سنوارنے کا ملکہ رکھتی ہیں۔ ’’بازیافت‘‘ ان کی کہانیوں کا مجموعہ ہے اس کی سبھی کہانیاں ذہن پر ایک خاص اثر چھوڑتی ہیں۔
بھوپال کی خاتون نثرنگاروں کا یہ تذکرہ صفیہ اختر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا، حمیدیہ کالج کے قیام تک بھوپال میں اُن کے علاوہ عام خواتین میں سے کسی نثرنگار خاتون کا سراغ نہیں ملتا، صفیہ مجازؔ لکھنوی کی بہن اور جاں نثار اختر کی اہلیہ تھیں جو لکھنؤ سے براہِ گوالیار بھوپال وارد ہوئیں اور حمیدیہ کالج میں اپنے شوہر جاں نثار اختر کے ساتھ اردو تدریس سے وابستہ ہوگئیں، وہ پانچ سال سے زیادہ یہاں نہیں رہیں، تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’اندازِ نظر‘‘ کے علاوہ لکھنؤ، علی گڑھ اور بھوپال سے اُنھوں نے جاں نثار کے نام جو مکتوب تحریر کیے اُن کے دو مجموعے ’’حرفِ آشنا‘‘ اور ’’زیرِلب‘‘ کے نام سے شائع ہوئے ہیں، خواجہ احمد فاروقی اِن کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’صفیہ کے خطوط میں اُن کی شخصیت گُھل مل گئی ہے، وہ عصرِ حاضر کی تاریخ بھی ہیں، اُردو کا المیہ بھی، ذہن کا دریچہ بھی، دل کی کہانی بھی، یہ خطوط صفیہ اختر کو بحیثیت نثار اورمکتوب نگار زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں‘‘۔ فراق’ گورکھپوری صفیہ کے خطوط کو ’’آپ بیتی‘‘ اور جگ بیتی‘‘ کا سنگم قرار دے کر تمنا کرتے ہیں کہ کاش اردو میں ایسی اور بھی کتابیں دستیاب ہوتیں‘‘۔ کرشن چندر بھی صفیہ کے خطوط کو پڑھ کر اُنھیں ہندوستانی گھرانے کی سچی تصویر سے تعبیر کرتے ہیں اور اُن کی ادبیت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، وہ صفیہ کو اپنے بھائی مجازؔ سے بڑا نثرنگار مانتے ہیں‘‘۔
صفیہ اختر کے بعد بھوپال کی خاتون نثرنگاروں میں ایک بڑا نام ممتاز ادیبہ ڈاکٹر شفیقہ فرحت کا ہے، جنھوں نے افسانہ نویسی اور طنزنگاری میں ملک گیر مقبولیت حاصل کی، اُن کی بیانیہ تحریریں اپنے گردوپیش کی ناہمواری اور سماجی کمزوری کو جس فنکاری سے نشانہ بناتی اور زندگی کی روشن قدروں کی پاسبانی کرتی ہیں، وہ اُن کا ہی حصّہ ہے۔ پروفیسر شفیقہ فرحت کے انشائیوں کے ۱۹۸۱ء؁ سے ۲۰۰۳ء؁ تک چار مجموعے ’’لو آج ہم بھی ‘‘۔ ’’رانگ نمبر‘‘، ’’گول مال‘‘ اور ’’ٹیڑھا قلم‘‘ شائع ہوئے ہیں، اِن کے علاوہ متعدد تنقیدی مضامین، ریڈیائی ڈرامے اور خاکے بھی اخبارات ورسائل کی زینت بن چکے ہیں، زبان وا دب کی تدریس کے ساتھ اپنی ترقی پسندانہ فکرونظر سے وہ بھوپال کے ادبی حلقوں میں ایک امتیازی مقام کی مالک بن گئی تھیں۔
بھوپال کی نثرنگاروں میں محترمہ طیبہ بی صاحبہ کا نام سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے، موصوفہ نے درس وتدریس کے علاوہ تصنیف وتالیف میں حصّہ لیا، اُن کی کتاب ’’تاریخ فرمانروایانِ بھوپال‘‘ اپنے موضوع اور مواد کے لحاظ سے قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے، یہ کتاب اگرچہ نصابی ضرورتوں کے پیشِ نظر لکھی گئی مگر اِس میں سابق ریاست بھوپال کا جائے وقوع ، جغرافیائی اہمیت، حکمرانوں کے فلاحی کام، خصوصیت سے بیگمات بھوپال کے عہدِ زرّیں کو رقم کرکے اُس کی خصوصیات کو اِس طرح بیان کیا گیا کہ نوابی دور کی جیتی جاگتی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے اور آج کے جمہوری حکمرانوں کے مقابلہ شخصی حکمرانی کا امتیاز واضح ہوجاتا ہے۔
ڈاکٹر رضیہ حامد کے نثری کام کی طویل فہرست میں نواب صدیق حسن خاں کی حیات و خدمات پر تحقیقی کتاب، افسانوں کا مجموعہ ’’لمحوں کا سفر‘‘ کے علاوہ دیگر تحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ شامل ہیں، وہ پچیس برسوں سے سہ ماہی رسالہ ’’فکروآگہی‘‘ مرتّب کررہی ہیں، جس کے ضخیم نمبروں نے ملک گیر شہرت ومقبولیت حاصل کی ہے اِن میں بھوپال نمبر اپنے مواد کے لحاظ سے سرِفہرست ہے، رسالہ کا محمد احمد سبزواری نمبر، بشیر بدرنمبر، اخترسعید خاں نمبر، مسلم یونیورسٹی نمبر، رفعت سروش نمبر، بیکل اُتساہی نمبر شائع ہوچکے ہیں، اُن کے افسانوں میں روانی اور شائستگی کے ساتھ معاشرہ کی وہ تصویریں ملتی ہیں جو صحت مند قدروں کی نمائندہ اور انسانی جذبات و احساسات سے آراستہ ہیں۔ نواب شاہجہاں بیگم اور نواب سلطان جہاں بیگم پر بھی اُن کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
پروفیسر عارفہ سیمیں جنہیں برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال کے شعبہ عربی کی سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ آرٹس فیکلٹی کی ڈین ہونے کا اعزاز حاصل ہوا، نثرنگاری میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرچکی ہیں، عربی سے اردو ترجمہ پر مشتمل مضامین کے تین مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔
اُردو کے مشہور طنزومزاح نگار تخلص بھوپالی کی ہمشیرہ، رشیدہ بیگم اپنے بھائی کے رنگ میں لکھنے پر قادر ہیں، جو شائع بھی ہوتا رہا ہے لیکن اُن کی تحقیقی کاوش ’’اردو نثر کے طنزیہ ومزاحیہ ادب میں بھوپال کا حصّہ‘‘ اِس لیے قابل ذکر ہے کہ بھوپال کے پیش رو طنز ومزاح نگاروں کا اِس میں جائزہ ملتا ہے غالباً ایم۔اے۔ کے لیے یہ اُن کا تحقیقی مقالہ ہے جس کو شائع کرنے سے پہلے بعد کی نسل کو بھی اُس میں شامل کرلیا جاتا تو اِس میں تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر انیس سلطانہ خواتین نثرنگاروں میں کئی حیثیتوں کی مالک ہیں، اُن کی زندگی کا بڑا حصّہ کالج میں طالبات کو اردو پڑھانے میں گزرا، ’’بھوپال میں تحقیق وتنقید کا ارتقاء‘‘ پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، ’’قصور معاف‘‘ اُن کے انشائیہ، مزاحیہ اور طنزیہ مضامین کا مجموعہ ہے جو ۲۰۰۳ء میں شائع ہوا، لکھنے و پڑھنے سے گہری رغبت کے باعث وہ خواتین نثرنگاروں میں اپنی جداگانہ شناخت قائم کرچکی ہیں، اُن کی نثر کی شگفتگی کا ادب کے کئی نباض اعتراف کرچکے ہیں۔
ڈاکٹر کشور سلطان کی عمر وفا کرتی تو نثر میں اُن کے جوہر اور کُھلتے، پھر بھی ’’جاں نثار اختر حیات وفن‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں اُن کا تحقیقی کام کافی اہم ہے، اس کے علاوہ پریم چند پر اُنھوں نے کام کیا ہے، اردو تدریس کے ساتھ کشور سلطان کے لکھنے کا ذوق آخر تک جاری رہا۔
کوثر جہاں کو ہمعصر خواتین کہانی کاروں میں اس لیے اوّلیت کی مستحق ہیں کہ اُن کے افسانوں کا مجموعہ ’’جادونگری‘‘ شائع ہوگیا ہے، اس کی کہانیوں میں کردار کے وسیلہ سے انسانی محبت اور اخوت کو اُجاگر کیا گیا ہے، فرحت جہاں اپنی کہانیوں کو معمولی معمولی واقعات سے خوب سنوارتی ہیں اور چھوٹے چھوٹے جملوں میں انسانی نفسیات کو بیان کردیتی ہیں، خواتین نثر نگاروں میں ڈاکٹر ارجمند بانو افشاںؔ کا تحقیقی کام ’’ریاستِ بھوپال اور مشاہیرِ اردو‘‘شائع ہوچکا ہے۔ اُن کے تنقیدی مضامین بھی معیاری ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صفیہ ودود، ڈاکٹر بلقیس جہاں اور حدیقہ بیگم مرحومہ کے بغیر خاتون نثرنگاروں کا یہ ذکر مکمل نہیں ہوسکتا۔ تینوں نے تحقیق و تنقید میں طبع آزمائی کی یے۔ جبکہ خالدہ بلگرامی بیس سال تک اردو کی مختلف روزناموں میں کام اور مضمون نگاری کرکے ایک منفرد شناخت بناچکی ہیں۔
اِسی سلسلہ کا ایک اہم نام وسیم بانو قدوائی کا ہے جنھوں نے حقیقت میں اپنے ناول اور افسانوں سے بھوپال کی نثر کو مالامال کردیا، ضرورت اِس کی ہے کہ بھوپال کی اِس کہنہ مشق نثرنگار پر تحقیقی کام ہو تاکہ اُن کی افسانہ نگاری اور ناول نویسی کا صحیح مقام متعین ہوسکے۔اسی طرح خواتین افسانہ نگاروں میں اہم نام ذکیہ سلطان حزیںؔ کا ہے، جو کافی مقبول ہوا، سلطانہ حجاب صحافت و شاعری دونوں شعبوں میں مخصوص شناخت کی مالک ہیں۔ جب کہ ڈاکٹر رفعت سلطان نے مفکرِ اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی پر تحقیقی کام کیا جو ابھی شائع نہیں ہوا لیکن ایک کتاب بشیر بدر نئی آواز منظرِ عام پر آگئی ہے۔ اُردو میں خواتین کی خودنوشت سوانح عمریاں کے زیر عنوان ڈاکٹر شبانہ سلیم کا تحقیقی کام بھی شامل ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر پری بانو نے محترم اختر سعید خاں پر تحقیقی کام کیا ہے،پروفیسر طاہرہ عباس، ڈاکٹر فیروزہ یاسمین، ڈاکٹر شمسہ عارف نے نثرنگاری میں اپنے جوہر دِکھائے ہیں، اِس سلسلے کی مزید تفصیلات اِسی عنوان سے میرے دوسرے مضمون میں آچکی ہیں۔
راقم (مرضیہ عارف) کے ۲۸ سالہ نثری کاوش کا نتیجہ تحقیقی، تنقیدی، سماجی اور شخصی مضامین کے دو مجموعے ’’بساطِ فکر‘‘ (۲۰۰۰ء) اور ’’کاوشِ فکر‘‘ (۲۰۱۶ء) ہیں،’’ قرآن کریم کے قسموں کا ادبی و سائنسی جائزہ ‘‘کے زیر عنوان تحقیقی کام اور سفرنامہ حج شائع ہوچکے ہیں۔ خالدہ بلگرامی صاحبہ اِن مضامین کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں ’’مرضیہ عارف نے خواتین کی کیفیت و ہیئت کو بیان کرنے اور اُن کے مسائل کو چھیڑنے پر خاص توجہ دی ہے، وہ تنقید و تحقیق سے بھی گہری دلچسپ رکھتی ہیں‘‘۔ بھوپال کی خواتین نثرنگاروں کے اِس اجمالی جائزہ سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ نثرنگار خواتین کی تعداد مردوں کے تناسب میں کم نہیں بلکہ اس شعبہ میں خواتین کی دلچسپی، لگن اور انہماک لائق اطمینان اور قابلِ تحسین ہے۔
(آل انڈیا ریڈیو بھوپال سے نشر تحریر، نظرثانی کے بعد)

Comments are closed.