جی ہاں! مسلمانوں کو’’ مسجد ضرار‘‘ اور’’ مسجدقبا‘‘ کے فرق کو سمجھنا ہوگا

دانش ریاض
معیشت،ممبئی
یوں تو ملت کو سبوتاژ کرنے کے لئے روزانہ نئی سازشیں رچی جاتی ہیں اور اس پر مسلسل کام ہوتا ہے لیکن ان دنوں مسلم جماعت،تنظیم،اجتماعیت خاص نشانے پر ہیں۔دشمن نے پرانے ہی طریقہ کار میں بس اتنا اضافہ کیا ہے کہ منافقین کی تعداد کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کی ہے ۔منافقوں کو سمجھنے میں ملت دھوکے کا شکار رہے اس کے لئے مخلصین کو بھی منافقین کی صف میں شامل کرایا گیا ہے تاکہ مخلصین کے چہرے کی آڑ میں منافقین بآسانی شب خون مار سکیں۔’’ملت کے سرمایہ کو ملت کے اندر ہی ضائع کرنے‘‘کا جو سلسلہ گذشتہ دہائیوں میں شروع ہوا ہے اس نے اب ٹیکنالوجی کے سہارے ’’منظم انداز‘‘اختیار کر لیا ہے۔حق و باطل کو اس قدر گڈ مڈ کردیا گیا ہے کہ عام مسلمان صحیح و غلط کی تمیز میں پریشانی کا شکار نظر آتا ہے۔منافقین اس تاثر کو عام کرنے میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں کہ ’’ہمیں مل جل کر کام کرنا چاہئے‘‘حالانکہ مومنین و منافقین کے ایپروچ میں زمین و آسمان کا فرق صاف دکھائی دیتا ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ یہ چیزیں پہلی بار ہورہی ہیں بلکہ اسلامی تاریخ تو ہزاروں واقعات سے بھری پڑی ہے جس میں ایک اہم واقعہ ’’مسجد ضرار‘‘ اور’’ مسجد قبا‘‘ کا ہے۔ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمروبن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے مسجد قبا بنائی او نبی کریم سرکار دو عالم ﷺ کو مذکورہ مسجد میں نماز ادا کرنے کا پیغام بھیجا تو آپﷺ تشریف لائےاور مسجد قبا میں نماز ادا فرمائی۔ اس واقعہ کو دیکھ کر دشمنوں کو بھی خیال آیا کہ کیوں نہ ہم بھی ایک مسجد تعمیر کریں اور اس میں نبی کریم ﷺ کو نماز کے لئے بلائیں تاکہ ہمیں سازش کرنے اور اسلام کے خلاف کام کرنے کے لئے ایک جگہ میسر آجائے ۔لہذاقبیلہ خزرج سے وابستہ ابو عامر نےمدینہ منورہ کے منافقین کو خط لکھا کہ’’ میں شام میں یہ کوشش کر رہا ہوں کہ کسی طرح روم کا بادشاہ مدینہ منورہ پر چڑھائی کردےتاکہ وہاں سے مسلمانوں کا خاتمہ ہوجائے لیکن اس کام کے لیے ضروری ہے کہ تم لوگ اپنا ایک ایسا محاذ بناؤ کہ جب روم کا بادشاہ حملہ کرے تو تم اندر سے اس کی مدد کرسکو‘‘۔کہتے ہیں کہ اسی نے یہ مشورہ بھی دیا کہ ’’تم ایک عمارت مسجد کے نام سے تعمیر کرو جو بغاوت کے مرکز کے طور پر استعمال ہو اس میں خفیہ طور سے ہتھیار بھی جمع کرو اور آپس میں مشورے بھی یہیں کیا کرو اور میری طرف سے کوئی ایلچی اگر جائے تووہ وہیں ٹھہرابھی کرے‘‘۔روایات میں ہے کہ 12منافقوں نے اس پیغام پر لبیک کہا اور’’ مسجد ضرار‘‘ کی تعمیر ہوئی ۔ جب نبی کریم ﷺ کو مذکورہ مسجد میں نماز کی ادائیگی کے لئے دعوت نامہ بھیجا گیا تو ان دنوں آپ غزوہ تبوک کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد تعمیر کرنے کی وجہ پوچھی تو کہا گیا کہ’’ بہت سے کمزور لوگوں کو مسجد قبا دور پڑتی ہے ساتھ ہی علاقے کے مسلمانوں کو بارش وغیرہ میں دور جانے سے تکلیف ہوتی ہے اس لیے قریب ہی مسجد بنا لی گئی ہے‘‘۔اس جواب کے بعد آپ ﷺنے فرمایا کہ ’’ابھی تو میں تبوک جا رہا ہوں، واپسی پر اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو میں وہاں آکر نماز پڑھ لوں گا۔‘‘روایات میں ہے کہ آپ ﷺ تبوک سے واپس ہو کر مدینہ کے قریب ذواوان پہنچے تو جبرئیل امین سورہ التوبہ کی آیات 107 تا 110 لے کر نازل ہوئے جس میں آپ کو منافقین کے ناپاک اغراض و مقاصدسےآگاہ کیا گیا اور آپ کو وہاں نماز پڑھنے بلکہ کھڑے ہونے کی بھی ممانعت کردی گئی اور بتلا دیا گیا کہ اس مسجد کی اصل غرض ضرار ہے یعنی مسلمانوں کو ضرر پہنچاناہے۔ اسی وجہ سے یہ "مسجد ضرار” کے نام سے مشہور ہوئی ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں واضح طور پر کہا (ترجمہ)’’اور (ان میں سے ایسے بھی ہیں) جنہوں نے اس غرض سے مسجد بنوائی کہ ضرر پہنچائیں اور کفر کریں اور مومنوں میں تفرقہ ڈالیں اور جو لوگ خدا اور اس کے رسول سے پہلے جنگ کرچکے ہیں ان کے لیے گھات کی جگہ بنائیں۔ اور قسمیں کھائیں گے کہ ہمارا مقصود تو صرف بھلائی تھی۔ مگر خدا گواہی دیتا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں۔تم اس (مسجد) میں کبھی (جاکر) کھڑے بھی نہ ہونا۔ البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے اس قابل ہے کہ اس میں جایا (اور نماز پڑھایا) کرو۔ اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنے کو پسند کرتے ہیں۔ اور خدا پاک رہنے والوں کو ہی پسند کرتا ہے۔ بھلا جس شخص نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے خوف اور اس کی رضامندی پر رکھی وہ اچھا ہے یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد گر جانے والی کھائی کے کنارے پر رکھی کہ وہ اس کو دوزخ کی آگ میں لے گری اور خدا ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں (موجب) خلجان رہے گی (اور ان کو متردد رکھے گی) مگر یہ کہ ان کے دل پاش پاش ہو جائیں اور خدا جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘
قرآن پاک کے فرمودات اور ’’مسجد ضرار‘‘ کی روشنی میں اگر موجودہ مسلم اداروںاورمسلم این جی اوز کا جائزہ لیں تو محسوس ہوگا کہ بڑی ساری انجمنیں ،جماعتیں اور این جی اوزجہاں ’’مسجد قبا‘‘ کےکردار کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہی ہیںوہیں ان این جی اوزکا کردار’’ مسجد ضرار‘‘ کے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا بھی ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ نبی کے زمانے میں جہاں ’’مسجد ضرار‘‘اور ’’مسجد قبا‘‘کے فرق کو واضح طور پرسمجھا جاتا تھا موجودہ زمانے میں یہ فرق اس قدر مٹ چکا ہے کہ بھولے بھالے لوگ ’’مسجد ضرار‘‘ کو ہی ’’مسجد قبا‘‘تسلیم کرکے جہاں اپنا سب کچھ قربان کررہے ہیں وہیں وہ ’’شر‘‘سے ’’خیر‘‘کی امید بھی وابستہ کئے بیٹھے ہیں۔ ابو عامر(لعنۃ اللہ علیہ) کےپرستار گروہ در گروہ جہاں منافقین کو جمع کررہے ہیں وہیں بھیڑ کو دیکھ کر سادہ لوح مسلمان بھی مغالطے کا شکار ہو تےنظرآرہے ہیں۔پوری امت پر ایک ایسی کیفیت طاری ہے کہ جہاں خیر و شر کی تمیز بالکل مٹ سی گئی ہے۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ہم نظام دجل میں زندگی گذار رہے ہیں۔ٹیکنالوجی نے نظام دجل کو خوشنما بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ،روز بروز انسان ٹیکنا لوجی کا جس قدر غلام بنتا جارہا ہے ممکن ہے کہ آنے والے دور میں جب ’’مسجد ضرار‘‘کے موجودہ سربراہان امت مسلمہ پر شب خون ماریں تو وہ بھولے بھالے مسلمان بھی ان کا ساتھ دیں جو ٹیکنالوجی سے مرعوب نظر آتے ہیں۔لہذا میں یہ سمجھتا ہوںکہ ملت کےتمام کے تمام معاملات میں بھی ہمیں تحقیق و تفتیش سے کام لینا چاہئےکہیں ایسا نہ ہو کہ ہم وضو تو ’’مسجد قبا ‘‘میں نماز کی ادائیگی کے لئے کریں لیکن عملی طور پر ’’مسجد ضرار ‘‘میں نماز ادا کر آئیں۔
Comments are closed.