دِی منی پور اسٹوری

از : مدثر آحمد شیموگہ۔9986437327
بے گناہوں کے قتل، خواتین کے ساتھ صریح زیادتیاں، اپنے ہی ملک میں پناہ گزین بننے کو مجبور لوگ، شرپسندوں کے خلاف قانون کے محافظوں کی سست کارروائی، تشدد کے مذہبی یا فرقہ وارانہ ہونے کے واضح اشارے ہم واقعات کے سلسلے کو دہراتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، بس درمیان میں ایک طویل وقفہ ہے۔یہ وقفہ 2002 سے 2023 کا ہے ۔ یہی ہے منی پور اسٹوری جو گجرات اسٹوری سے پوری طرح متاثر ہے۔منی پور میں تین کُکی خواتین کے ساتھ ہوئی جنسی درندگی اور ایک جنونی ہجوم کے ذریعے ان کی برہنہ پریڈ جبکہ پولیس مبینہ طور پر خاموش کھڑی تھی تقریباً تین ماہ قبل پیش آئے اس واقعہ کے وائرل ویڈیو نے دو دہائی پہلے گجرات کی بلقیس بانو کے ساتھ ہوئے گینگ ریپ ، موقع پر اس کے رشتہ داروں کے قتل اور آج بھی انصاف کے لیے جاری اس کی جدوجہد کی داستان کو از سر نو زندہ کر دیا ہے۔خبروں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب اس گھناؤنے جرم کے بارے میں ریاست کے وزیر اعلیٰ مسٹر این بیرین سنگھ سے کسی چینل پر پوچھا گیا تو انہوں نے یہ تسلیم کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کی کہ ‘ایسے سینکڑوں کیس ہیں۔ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسےہم ایسے واقعات کو پہلے بھی دیکھ چکے ہیںلیکن فرق صرف اتنا ہے کہ علاقہ بدل چکاہے ، چہرے بدل چکے ہیں، لوگ بدل چکے ہیں، ہنگاموں میں شامل تنظیمیں اور آرگنائزیشن کے لیبل بدل گئے ہیں ۔ یہی صورت حال 2002 میں گجرات میں دیکھی گئی تھی وہاں پر معاملہ ہندو مسلم کا تھا یہاں معاملہ قبیلوں کا ہے ، فرق صرف مذہب کا ہے لیکن کاٹنے مارنے اور جلانے والوں کی پشت پناہی کرنے والوں کا سپورٹ کرنے والے وہی پرانی پارٹی ہے جسے ہم اور آپ بی جے پی یا سنگھ پریوار کے طورپر جانتے ہیں ۔ جب بھی ملک اور ریاست میں ڈبل انجن حکومتیں بنی ہیں اس وقت لوگوں کے گھر ہی جلے ہیں ، اسوقت واجپائی اور مودی تھے اس بار مودی اور بیرن سنگھ ہیں ۔ ان حالات سے اس بات کااندازہ یہ بھی لگایا جاسکتاہے کہ پی یم کی کرسی پر بیٹھنے کے لئے گجرات جیسے حالات پیدا کرنا بی جے پی میں ٹریننگ کا ایک حصہ ہے اور اس میں جو کامیاب ہوگا وہی پی یم کی کرسی کا اہل ہوگا ۔ منی پور میں ہورہے فسادات ، عصمت دری ، حراسانی اور ظلم کی داستان ابھی اور بھیانک ہے جسے وہاں کی سرحد سے باہر نکلنے نہیں دیا جارہاہے ۔ صحافیوں کے منہ پر تالے لگائے جارہے ہیں ، انسانی حقوق پر کام کرنے والوں پر بندشیں عائد کئے جارہےہیں اور حکومت سچ کو دبانے کی پوری کوشش کررہی ہے ۔ یہی حالات گجرات میں 2002 میں ہوئے تشدد کے بعد شہری حقوق کے لیے کام کرنے والوں اورجمہوریت پسند لوگوں کی طرف سے کئی مقامات پر لوگ گئے تھے ۔ تشدد شروع ہونے کے تقریباً ڈھائی ماہ بعد وزیراعظم نے اپنی خاموشی ضرورتوڑی، لیکن صرف 30 سیکنڈ کے لیے کیونکہ کُکی برادری کی خواتین کے ساتھ جنسی درندگی کا یہ واقعہ قومی اور بین الاقوامی فورم پر سرخیوں میں آگیا۔ انہوں نے خواتین کے خلاف اس تشدد کی مذمت کرتے ہوئے اسے قومی شرم کا باعث قرار دیا، لیکن ریاست میں جاری نسلی تشدد کے بارے میں وہ کیا سوچتے ہیں، اس کے بارے میں وہ کسے ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، اس پر ایک بھی لفظ نہیں بولا اور نہ ہی امن کی کوئی اپیل کی، تشدد سے متاثرہ ریاست کا دورہ کرنے کی بات تو دور رہی ۔دو دہائی قبل ملک کے مغربی صوبے میں منظم تشدد شروع ہونے کے بعد ملک کے اس وقت کےوزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی ایک ماہ کے اندر اس صوبے میں پہنچے ضرور اور انہوں نے صوبائی حکومت کو اپنے راج دھرم کی یاد دلا دی ۔ ظاہر ہے کہ صورت حال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ان کے بیان کو بہت ہلکا سمجھا گیا، لیکن اس کے باوجود اس بیان نے انتظامیہ کی ناکامی کو اجاگر ضرور کیا تھا۔ویسے ابھی ہم یہ جاننے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ صدر جمہوریہ، جو خود قبائلی برادری سے ہیں— انہوں نے منی پور کے اس تشدد کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے یا نہیں، انہوں نے اس سلسلے میں وزیر اعظم کو خط لکھا ہے یا نہیں؛ لیکن ہم بخوبی جانتے ہیں کہ اس وقت کے صدر جمہوریہ کے آر نارائنن نے دو دہائی قبل جب گجرات میں ظلمکا ننگا ناچ ہو رہا تھا اور وہ عہدے پر ابھی فائزتھے، اس واقعہ کے بارےاپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس تشدد کے حوالے سے، جس میں حکومت کی ناکامی یا ہندوتوا تنظیموں کے ملوث ہونے کے الزامات تھے، اوربعد میں اس کی تحقیقات کے لیےبنے ناناوتی شاہ کمیشن کے سامنے کیا کہا تھا۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انہوں نے جو بات کہی وہ حکومت کے کانوں کے لیے یقینی طور پر سکون بخش نہیں رہی ہوگی۔اس وقت گجرات میں زکیہ جعفری ، بلقیس بانو اس تشدد کی زندہ مثال بنی اور آج منی پور سے سینکڑوں عورتیں اپنی کہانی بیان کرنے کو تیار ہیں لیکن ان عورتوں کی نہ سننے والاہے نہ کوئی انہیں انصاف دلانے والا ہے کیونکہ ہمارے ملک میں اس وقت جمہوریت کے چولے میں تانا شاہی کا راج ہے ۔ اب ہم گجرات ماڈل سے نکل کر نیو انڈیا کے نیو منی پور میں ہیں جہاں پر انسانیت شرمسار ہورہی ہے ، اقلیتی مررہے ہیں او ر حکومت سورہی ہے ۔گجرات فسادات کے بعد تقریباََ 40 فلمیں منظر عام پر آئی ہیں جسے دیکھنے کے بعد بھی بھارتیوں کا ضمیر نہیں جاگا اب منی پور پر نہ جانے کتنی فلمیںبنیں گی اورکس حدتک لوگوں کو انٹرٹائن کرینگی یہ دیکھنا ہوگا۔

Comments are closed.