تیستا سیتلواد: کہتا ہے مگر یہ عزم جنوں صحرا سے گلستاں دور نہیں

ڈاکٹر سلیم خان
دنیا کے تمام مہذب معاشروں میں سماجی جہد کاروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کا حترام کیا جاتا ہے ۔ مظلوموں کو انصاف دلانے کی خاطر جدو جہد کرنے والوں کی پذیرائی ہوتی ہے اور جو اس کام کے لیے اپنی جان کو جوکھم میں ڈال دے اس کو تو بے حد سراہا جاتا ہے ۔اس کی جیتی جاگتی مثال تیستا سیتلواد ہیں ۔ گجرات فساد کے دوران غیر معمولی دلیرانہ انداز میں خدمات انجام دینے کے بعد انہیں 1993 میں حقوق انسانی کی ملک میں سب سے بڑی تنظیم پی یو سی ایل نے انسانی حقوق کے لیے صحافت کا اعزاز دیا ۔ اسی سال انہیں غیر معمولی خاتون صحافی کا ایوارڈ بھی ملا ۔ اس سے قبل 1999 میں ان کو اپنے خاوند جاوید آنند کے ساتھ مشترکہ طور پر مہارانا میواڑ فاونڈیشن کی جانب سے حکیم خان ایوارڈ سے نوازہ گیا تھا۔ اس کے ایک سال بعد دلت لبریشن ایجوکیشن ٹرسٹ نے ان کو حقوق انسانی کے ایوارڈ سے سرفراز کیا ۔ 2002 میں انہیں کانگریس نے ہرش مندر کے ساتھ راجیو گاندھی سدبھاونا ایوارڈ سےنوازہ ۔ایک سال بعد 2003 میں انہیں نیومبرگ بین الاقوامی انسانی حقوق کا اعزاز ملا۔ 2004 میں ہیلن کلرک کے اشتراک میں ان کو ارکانِ پارلیمان برائے عالمی ایکشن نے جمہوریت کے محافظ کا ایوارڈ دیا۔
2004 میں تیستا سیتلواد کو اویجیل انڈیا موومنٹ نے ای اے تھامس نیشنل ہیومن رائٹس ایوارڈ سے نوازہ ۔2006 میں ان کو ٹاٹاگروپ نے نانی پالکھی والااعزاز دیا ۔ 2007 کے اندر ماتوشری بھیمبانی ایوارڈ اور اسی سال حکومت ہند نے معروف قومی اعزاز پدم شری سے نوازہ۔ 2009 میں انہیں کویت کے اندر فیڈریشن آف مسلم ایسوسی ایشن نے ایوارڈ دیا ۔ اس کے بعد اوینجلک گروپ نے آسٹریلیائی فنکار ایڈی نی بون کے ساتھ پیکس کرسٹی انٹرنیشنل پیس ایوارڈ پیش کیا ۔ 2020 کے اندر یونیورسٹی آف برٹس کولمبیا نے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا فرمائی ۔ آئندہ سال آر ایس ایس اپنے سو سال پورے کررہا ہے ۔ اس پورے عرصے میں وہ کوئی ایک ایسا فرد بتا دے جس کو اس طرح مختلف النوع تنظیموں کی جانب سے دنیا کے اتنے سارے ممالک میں انعام و اکرام سے نوازہ گیا ہو بلکہ یہ دعویٰ کردے کہ آئندہ سو سالوں میں ان کے اندر سے کسی کی ایسی پذیرائی ہوگی تو یہ بھی غیر عقلی دعویٰ قرار پائے گا ۔
وطن عزیز میں 2014 کے بعد تبدیلیوں کا جو سلسلہ شروع ہوا اس کے نتیجے میں سب کچھ بدلتا چلا گیا اور اب یہ حالت ہے کہ معروف سماجی جہد کار تیستا سیتلواد پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ جہدکاری کے میدان میں سیتلواد اتنی معروف ہیں جتنے سیاست کے تالاب میں نریندر مودی مشہور ہیں ۔ ان دونوں میں فرق ہے تو بس اتنا کہ ایک نیک نام اور دوسرا بدنام ہے۔ گجرات اے ٹی ایس کے ذریعہ ان کی گرفتاری جس قدر حیرت انگیز تھی، عدالت عظمیٰ کے اندر ملنے والی ضمانت بھی کم تعجب خیز نہیں تھی۔ سپریم کورٹ نے 19 جولائی(2023) کے دن تیستا سیتلواد کو گجرات فسادات سے متعلق معاملے میں ضمانت دے دی لیکن ساتھ ہی گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا ۔سپریم کورٹ کا کسی ہائی کورٹ کے فیصلے کو بدل دینا معمولی بات ہے ۔ لوگ اسی غرض سے اعلیٰ عدالت میں جاتے ہیں لیکن اپنے فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے اپنا مافی ضمیر بیان کرنے کی خاطر ایک تو فیصلے کو متضاد کہا لیکن ساتھ ہی اسے perverse بھی قرار دیا ۔ ویسے انگریزی کے اس لفظ کالغوی ترجمہ ٹیڑھا بنتا ہے لیکن یہ معاملہ اتنا سیدھا سادہ بھی نہیں ہے۔ عدلیہ نے جس تناظر میں اسے استعمال کیا تو اس کا قریب ترین ترجمہ’ بدنیتی پر مبنی ‘بنتا ہے۔
مذکورہ بالا بیان کی سنگینی کے بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے اس طرح کے فیصلے یکے بعد یگرے گجرات ہی سے آتے ہیں ۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ نام نہاد نمونے کی ریاست ہندوستان میں ہی ہے یا کسی اور سیارے پر ہے؟ اس لیے سیاق و سباق کا جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے کہ سپریم کورٹ نے یہ کیوں کہا؟ سپریم کورٹ سہل ترین منطق یہ تھی چونکہ فردِ جرم داخل کی جاچکی ہے اس لیے ملزم کو حراست میں لے کر مزید تفتیش کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ یہ دلیل کہ استغاثہ نے آئین کی دفع 482 ، 226 ، 32 کے تحت درج شدہ فرد جرم کو چیلنج نہیں کیا اس لیے وہ ضمانت کی مستحق نہیں ہے نہ صرف ناقابلِ قبول ہے بلکہ بدنیتی کی غماز ہے۔ اس کے بعد تیستا سیتلواد کو باقاعدہ ضمانت دیتے ہوئے عدالتِ عظمیٰ نے فوراً حاضر ہونے کے ہائی کورٹ فیصلے کو مسترد کردیا ۔اس کا کہنا تھا کہ اگر یہی سلسلہ رہا تو مذکورہ درخواست کے بغیر کوئی ملزم ضمانت کا مستحق ہی نہیں ٹھہرے گا ۔ اس لیے یہ تفتیش ہی ناقص ہے ۔چند گواہوں کے بیانات کی بنیاد پر مقدمہ درج کرنا سراسر متضاد ہے۔
یہ معاملہ عدالتِ عظمیٰ میں اس لیے پہنچا کیونکہ گجرات ہائی کورٹ نے اس مہینے کے شروع میں سیتلواڑ کی ضمانت کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے انہیں فوری طور پر خودسپردگی کا حکم دے دیا تھا۔ سپریم کورٹ کی عبوری ضمانت نے انہیں پچھلے سال اگلی سماعت تک گرفتاری سے محفوظ رکھا تھا۔ تیستا سیتلواد پر 2002 کے گجرات فسادات کی بابت مبینہ طور پر من گھڑت ثبوت پیش کرنے کا الزام ہے۔تیستا کے لیے یکم جولائی کو دیر رات کی نشست میں سپریم کورٹ جسٹس بی آر گوائی نے سیتلواد کو عبوری راحت دیتے ہوئے پوچھا تھا کہ ’’اگر کچھ دنوں کے لیے عبوری تحفظ دیا جائے تو کیا آسمان گر جائے گا؟‘‘ بعد ازاں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ان کی عبوری ضمانت میں 19 جولائی تک توسیع کر دی تھی ۔یہ مرکزی حکومت کے پنجرے میں بند ہائی کورٹ کے طوطے کی خاطر حیرت کا جھٹکا تھا اس لیے کہ اسے سپریم کورٹ سے بھی یہی امید تھی کہ وہ اس کی ہاں میں ہاں ملائے گا ۔ ان دونوں عدالتوں کے متضاد فیصلوں نے ثابت کردیا کہ احمد آباد میں عدلیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنےوالی مودی سرکار دہلی کے اندر اپنے مقصد میں ناکام ہوگئی ۔
اس معاملے کا خلاصہ یہ ہے کہ 25 جون 2022 کو حراست میں لیے جانے کے بعد تیستا سیتلواد کو 2 جولائی کو عدالتی تحویل میں بھیجا گیا ۔ گجرات ہائی کورٹ میں انہوں نے ضمانت کے لیے رجوع کیا تو عرضی کو خارج کر دیا گیا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ سے عارضی عدالت ملی اس کے خاتمہ پر ہائی کورٹ نے فوری طور پر خودسپردگی کا حکم صادر فرمادیا ۔ جسٹس نیرج دیسائی کی بنچ نے سیتلواد نے کہا، چونکہ درخواست گزار سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی عبوری ضمانت پر باہر ہیں ، اس لیے انہیں فوری طور پر ہتھیار ڈالنے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ اس کے بعد پھر سے تیستا نے عدالت عظمیٰ کے دروازے پر دستک دی اور انہیں یکم جولائی کو سپریم کورٹ نے دیر رات خصوصی سماعت کرتے ہوئے گرفتاری سے تحفظ فراہم کردیا نیز ہائی کورٹ کے حکم پر ایک ہفتہ کیلئے روک لگا دی ۔ سپریم کورٹ کی تین ججوں کی بنچ نے اپیل کے وقت کہا کہ ایک عام مجرم بھی کچھ عبوری راحت کا حقدار ہوتا ہےتاکہ اسے سنگل جج کے حکم کو چیلنج کرنے کے لئے وقت مل سکے۔
تیستا سیتلواد کا آزمائشوں سے گزرنا یہ دکھاتا ہے وزیر اعظم جس جمہوریت کی ماں کو ساری دنیا میں خوشنما بناکر پیش کرتے ہیں اس کے تحت ظلم کے خلاف جدوجہد کرنے والے کس حالت میں ہیں ۔ گجرات کے اندر بدترین قسم کے فسادات کرواکر لوگ خراماں خراماں وزیر اعلیٰ سے وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچ جاتے ہیں ۔ فساد زدگان کو انصاف دلانے کی خاطرلڑنے والے تیستا سیتلواد جیسے لوگوں کو الٹا مجرم بنا دیا جاتا ہے۔ اس نظامِ زحمت میں جب حاکم کی نیت بگڑتی ہے تو مقننہ ، انتظامیہ اور عدلیہ تک سارے کے سارے ادارے انصاف پسندوں کے دشمن بن کر انہیں ایسا نشانِ عبرت بنانے کی سعی کرتے ہیں کہ جن کو دیکھ کر کوئی ظلم و جبر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی جرأت نہ کرسکے ۔ میڈیا اس فتنہ و فساد کا آلۂ کار بن جاتا ہے۔ گجرات سے سیکھے ہوئے سبق کو دہلی میں دوہرایا جاتا ہے۔ وہاں پر سرکار کی سرپرستی میں فساد برپا کرنے والےکپل مشرا جیسے فسادیوں کو سرکاری تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ۔اس کے بہانے سی اے اے و این آر سی کے خلاف جدوجہد کرنے والے عمر خالد و شرجیل امام کو فساد کے جھوٹے الزامات میں جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ عزم و حوصلہ کی ان داستانوں میں یہ پیغام بھی ہے کہ حق کی راہ میں اپنا سب کچھ داوں پر لگانے والے ان ہتھکنڈوں سے نہیں ڈرتے اور تاریخ گواہ ہے کہ کہ کامیابی انہیں کے قدم چومتی ہے۔ تیستا سیتلواد جیسے لوگوں کا عزم و حوصلہ مجروح سلطانپوری کے اس شعر کی مصداق ہے؎
سنتے ہیں کہ کانٹے سے گل تک ہیں راہ میں لاکھوں ویرانے کہتا ہے مگر یہ عزم جنوں صحرا سے گلستاں دور نہیں
Comments are closed.