ہندوستان کے مسلمانوں کو اکثریت کے درمیان جینے کا ہنر اکابر کے طرز عمل سے سیکھنے کی ضرورت ہے

 

میرا مطالعہ

مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندوستان ایک بڑا ملک ہے ، اس میں مختلف قومیں رہتی اور بستی ہیں ، ان میں تعداد کے اعتبار سے سب سے زیادہ ہندو ، دوسرے نمبر پر مسلمان ،تیسرے نمبر پر سکھ اور چوتھے نمبر پر عیسائی ہیں ، اسی تعداد کے اعتبار سے اکثر کیا جاتا ہے ،
ہندو ،مسلم ، سکھ ، عیسائی
آپس میں ہیں بھائی بھائی
یہ سبھی قومیں برسوں سے ہندوستان میں رہتی آئی ہیں ، ان کے درمیان ہمیشہ بھائی چارہ اور میل و محبت کا ماحول رہا ،
موجودہ وقت میں اکثریت اور اقلیت کا معاملہ اٹھا کر اقلیت بالخصوص مسلم اقلیت کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کردیا گیا اور یہ سلسلہ جاری ہے ، جس کی وجہ سے مسلم قوم کے لوگ دشواری میں ہیں ،
جب ملک میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی تحریک جاری تھی ،اور بدقسمتی سے ملک تقسیم ہوگیا ، اس کے نتیجہ میں ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد کم ہوگئی ، اور مسلمان اقلیت میں آگئے ، اسی وقت ہمارے اکابر نے حالات کو سمجھ لیا تھا ، اور برادران وطن میں سے جو بڑے لیڈران تحریک آزادی میں شریک تھے ، انہوں نے ان سے سوال کرنا شروع کیا کہ جب ملک آزاد ہوگا ،تو ملک میں کیسی حکومت بنے گی ؟ برادران وطن میں سے تحریک آزادی کے لیڈران نے یقین دہانی کرائی کہ ملک آزاد ہوگا تو یہاں جمہوری نظام قائم ہوگا ، آئین کو بالا دستی حاصل ہوگی ، چنانچہ جب ملک آزاد ہوا ،تو ملک میں جمہوری نظام قائم ہوا اور آئین کی حکومت بنی ، موجودہ وقت میں ہندوستان میں آئین کی حکومت قائم ہے ،
ہمارے ملک کا آئین ہمیں آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے جان ،مال ،عزت و ابرو کی حفاظت کا حق عطا کرتا ہے ، مذہبی اور لسانی آزادی دیتا ہے ، اپنے پسند کے مطابق تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا حق دیتا ہے ، سب سے اہم یہ کہ ہمیں ووٹ دے کر اپنی پسند کا لیڈر منتخب کر کے پسندیدہ حکومت بنانے کا اختیار دیتا ہے ،
حکومت بنانے میں حصہ داری کسی کے لئے بھی نہایت ہی اہم ہے ، خاص طور پر اس کے لئے زیادہ اہم ہے جو لوگ کسی ملک میں اقلیت میں ہیں ، اقلیت کے لوگ اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کر کے اپنے پسند کی حکومت بناسکتے ہیں ، اگر خود اس پوزیشن میں نہیں ہیں ،تو اھون البلیتین کا خیال کرتے ہوئے کم نقصاندہ لوگوں کے ساتھ اشتراک کر کے اچھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوسکتے ہیں ،
ملک کے آزاد ہونے کے بعد ہمارے اکابر نے یہ دیکھا کہ مسلمان تعداد کے اعتبار سے اقلیت میں آگئے ہیں ، اتنی اقلیت میں ہیں کہ یہ اپنی قیادت اور سیادت قائم نہیں کرسکتے ہیں ، البتہ باوقار زندگی ہونی چاہیے ،چنانچہ ان حضرات نے مسلمانوں کو اس کی تعلیم دی کہ اس ملک میں باوقار زندگی گزارنے کا طریقہ یہ ہے کہ برادران وطن کی سیاسی پارٹیوں میں سے سیکولر کے ساتھ اتحاد بنائیں ،اور سب مل کر ایک سیکولر پارٹی کو ووٹ دے کر اس کی حکومت بنانے میں تعاون کریں ، اس سے ملک کے مسلمان بہت سے شر اور فتنہ سے محفوظ رہیں گے ، چنانچہ آزادی کے بعد سے تقریبا تین دہائیوں تک اھون البلیتین کے مطابق مسلم سماج کے لوگ ایک سیکولر پارٹی کے ساتھ وابستہ رہے ، جس کا فائدہ یہ ھوا کہ بہت حد تک مسلمانوں کو مذہبی آزادی ، جان و مال کی حفاظت اور بہت سے مراعات حاصل ہوتے رہے ، یہ کیا کم تھا کہ کبھی شریعت میں ، مدارس میں مداخلت ہوئی ،تو قانون تک کو بدلوادیا ، جب کوئی فساد ہوا ، وفد لے کر ملنے چلے گئے ، ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کا حوصلہ تھا ، آئین کی روشنی احتجاج کا حق تھا ، مگر افسوس کے مسلمانوں نے اس حقیقت پر غور نہیں کیا ، اور جذبات میں آکر اپنے اکابر کی نصیحت کو بھول گئے ، سیکولر کا مطلب غلط سمجھا ، اور صد فیصد سیکولر کی تلاش کرنے لگے ، جمہوریت میں ووٹ کی سیاست ہے ، فرقہ پرست طاقتوں نے نفرت کا ماحول پیدا کردیا ، ملک کو ہندو اور مسلمان میں تقسیم کردیا ، مسلمان اپنے ووٹ سے جیت نہیں سکتے ہیں ، اس نفرت کی وجہ سے ملک میں فرقہ پرست طاقتوں کا غلبہ ہوگیا ، جس کا نتیجہ آج ہم سب کے سامنے ہے ، آج مآب لنچنگ ہورہی ہے ، پہلے سے زیادہ فرقہ وارانہ فسادات ہورہے ہیں ، مساجد و مدارس پر حملے ہورہے ہیں ، مذہبی آزادی سلب ہورہی ہے ، ہم نے اپنے طرز عمل سے اپنے قائدین کو ہمت نہیں دی کہ ہمارے قائدین حکومت سے بات کر سکیں ، یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ ہم نے اصول کو چھوڑ دیا کہ اقلیت کو اکثریت کے درمیان کس طرح زندگی گزارنا چاہیے ، جو اصول ہمارے اکابر نے ہمیں بتایا تھا ، اس کو ہم بھول گئے
موجودہ وقت دقت اور پریشانیوں کا ہے ، فرقہ پرست طاقتوں سے نجات کے طریقہ پر غور کرنے کا ہے ، مگر اس ملک میں سب سے بےحس اور نا سمجھ قوم مسلمان ہے ، اس کو کچھ فکر نہیں ھے ، آج بھی اس کا پسندیدہ موضوع مسلکی اختلاف ہے ، ذات برادری پر فخر ہے ، رنگ اور نسل میں امتیاز ہے ، آپسی لڑائی جھگڑے سے فرصت نہیں ہے ، آپسی اتحاد اور میل محبت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ، نام و نمود سے فرصت نہیں ، الیکشن کے موقع پر ووٹ دینے کے لیے فرصت نہیں ہے ، جبکہ موجودہ وقت آپس میں متحد ہونے کا ہے ، سیاسی سوجھ سے کام لینے کا ہے ، ایک کلمہ کی بنیاد پر اتحاد بنانے کا ہے ، مگر ہم اس سے دور ہیں
میرے مطالعہ کے مطابق اگر ملک کے مسلمان باعزت زندگی گزارنا چاہتے ہیں ،تو پھر ان کو اس تعلیم سے سبق حاصل کرنا پڑے گا کہ اکثریت کے درمیان اقلیت کو کس طرح رہنا چاہیے ، ؟ وہ ہمارے اکابر کی تعلیم میں موجود ہے ،وہ یہ کہ آج ملک کے تمام مسلمان ذات برادری ،رنگ نسل ، مسلک و مشرب کو بھول کر سیاسی اتحاد بنائیں ، اور متحد ہوکر ملک کے سیکولر اتحاد کو ووٹ دینے کو یقینی بنائیں ، اور اپنے پسند کی حکومت بنائیں ، تاکہ آپ کو حوصلہ ملے کہ آپ حکومت کے سامنے اپنی بات پیش کر سکیں ، آپ کو کوئی ڈر اور خوب نہ ہو ، اور ہر قسم کے شر و فتنہ سے محفوظ رہیں ، اللہ تعالیٰ ہماری رہنمائی کرے ، ملک میں امن و امان قائم کرے، اور شر و فتنہ سے حفاظت فرمائے ،

Comments are closed.