ظلم کے خلاف چیخنا ، شور مچانا ،احتجاج کرنا انسان کا فطری تقاضا ہے

 

عمر فراہی

سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیوں میں بنگال کی خاتون ممبر پارلیمنٹ مہوا مترا چیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں کہ ” سوال یہ نہیں ہے کہ بستیاں کس نے جلائی ۔سوال یہ ہے کہ پاگل کے ہاتھ میں ماچس کس نے دی ”
دی وائر کی معروف خاتون صحافی عارفہ خانم کے ٹوئیٹ کے الفاظ ہیں کہ
” بحیثیت مسلمان اور ایک صحافی کے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنے انجام کا دستاویز تیار کر رہے ہیں ”
صرف عارفہ خانم ہی نہیں خاتون صحافی رعنا ایوب ،ساکشی جوشی نے بھی جئیے پور سے آرہی ٹرین میں تین مسلمان اور ایک ہندو پولیس آفیسر اور گڑگام میں ایک مسجد کے امام کی شہادت پر اپنے اپنے طور پر احتجاج درج کروایا ہے ۔
مسلمانوں میں کچھ لبرل اور سیکولر قسم کے لوگ ایسے موقعوں پر بھی گیان بانٹنا شروع کر دیتے ہیں کہ بھارت میں ہم پر جتنا بھی ظلم ہو ہم پھر بھی پاکستان سے تو اچھے ہیں اور ہمیں ہر سہولت مہیا ہے آخر ہم چیخ پکار کر کے مایوسی کیوں پھیلا رہے ہیں ۔
چلئے تھوڑی دیر کے لئے بے چارے اردو اور مسلمان صحافیوں اور سوشل میڈیا پر متحرک مولوی حضرات کو چپ کرا بھی دیا جاۓ تو بھی مہوا مترا ، رعنا ایوب ، عارفہ خانم ، رویش کمار ، ابھیسار شرما ، اپوروا نند اور فلم ایکٹر سورا بھاسکر اور دلی کی خاتون وکیل اور سوشل ورکر سواتی کھنا کو کیسے چپ کرایا جاسکتا ہے جو مسلسل اپنے سوشل میڈیا سے چیخ پکار کر کے مسلمانوں میں خوف و ہراس اور مایوسی پھیلا رہے ہیں ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ جتنی شخصیات کا ہم نے تذکرہ کیا ہے یہ ذہنی بیمار ہیں یا انہیں مودی فوبیا ہو گیا ہے یا پھر یہ مسلمانوں میں مایوسی پھیلانے کی سازش کر رہے ہیں اور جو مسلمان رہنما اور ممبئی کی زبان میں سیانے قسم کے دانشور ہیں وہ قوم کے حق میں خاموش ہیں !
بات اتنی سی ہے کہ جس طرح گودی میڈیا کو یہ الہام ہو گیا کہ جئے پور کی ٹرین میں چار لوگوں کو قتل کرنے والا پولیس آفیسر ذہنی طور پر بیمار تھا تو آخر یہی بات یہ میڈیا اس وقت کیوں نہیں کہتا جب کوئی جرم کسی مسلمان سے ہو جاتا ہے ۔اس وقت یہی گودی میڈیا اسلامی دہشت گردی کا یوں پروپگنڈہ کرنا شروع کر دیتا ہے گویا سارے فساد کی جڑ مسلمانوں کی مذہبی تعلیمات میں ہے ۔سوال یہ ہے کہ آخر یہ ذہنی بیماری مسلم نوجوانوں میں کیوں نہیں ہوتی ۔آخر کیوں مسلم نوجوانوں کی بھیڑ کسی معصوم کو تشدد کا نشانہ نہیں بناتے ۔کیا کبھی مسلمانوں کی بستی میں مسلمانوں کی بھیڑ نے کسی غیر مذہب کی خاتون کو برہنہ گھمایا ہے ،کسی غیر مسلم کی لانچنگ کی ہے یا کبھی کسی وجہ سے کسی مسلمان کے ہاتھوں کسی ہندو کا قتل ہو بھی گیا تو اس وقت مسلمانوں کی بھیڑ نے اسے اللہ اکبر کہنے کے لئے مجبور کیا ؟
دیکھئے اس طرح کے مسلسل ہو رہے واقعات سے صرف مسلمان ہی نہیں غیر مسلموں کے انصاف پسند طبقات میں بھی بے چینی کی کیفیت پائی جاتی ہے اور وہ چیخ رہے ہیں ۔اب ہم کس کس کی زبان بند کریں گے کہ تمہارے چیخنے سے مسلمانوں میں مایوسی پھیل رہی ہے !
یہی بات کچھ سال پہلے میں نے ایک وہاٹس گروپ پر کسی بحث کے دوران ایک اہل تشیع سے جو نہیں کہنا چاہئے تھا لیکن کہنے کی بیوقوفی کر گیا کہ محترم حضرات جو واقعہ چودہ سو سال پہلے کربلا میں پیش آیا آپ لوگ اسے یاد کرکے اب تک غم کیوں منا رہے ہیں ۔کیا اس طرح سے چیخنے چلانے سے آپ کی قوم میں مایوسی نہیں پھیل رہی ہے ۔حالانکہ یہ بندہ ایک پڑھا لکھا صحافی تھا پھر بھی اس نے مجھے صرف ماں کی گالی نہیں دی باقی اس نے جو گالیاں دیں وہ میرے لئے ناقابل برداشت تھیں لیکن پھر بھی میں نے اپنے لہجے کو مولانا مودودی اور علامہ اقبال کے صحیح شاگرد ہونے کی حیثیت سے تلخ نہیں ہونے دیا اور اپنے مہذب ہونے کا ثبوت دیتا رہا ۔
اس نے میری بات سمجھنے کی بجائے پہلے تو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو گالیاں دینا شروع کی اور مجھے ناصبی کہا اور پھر نہ صرف حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو کیا کیا کہا میں سن نہیں سکا ۔پھر اس نے مجھ پر اور میرے والدین پر بھی لعنت بھیجی اور کہا کہ اگر تمہارے والدین پڑھے لکھے ہوتے تو تمہارا نام عمر نہ رکھتے ۔وہ اپنی اس بھڑاس سے بھی مطمئن نہیں ہوا تو میرے فراہی کے لاحقے کی وجہ سے حمیدالدین فراہی رحمت اللہ علیہ کو سعودی حکومت کا اس لئے ایجنٹ کہا کیوں کہ لارڈ کرزن جب پہلی بار ہندوستان آیا اور یہاں سے اسے سعودی عرب جانے کے لئے کسی معتبر ترجمان کی ضرورت ہوئی جو انگلش اور عربی زبان پر عبور رکھتا ہو تو سر سید اور مولانا شبلی نے حمیدالدین فراہی کا نام تجویز کیا ۔
حالانکہ وہ جھوٹا تھا ۔سچ تو یہ ہے کہ علامہ حمیدالدین فراہی رحمت اللہ علیہ لارڈ کرزن کے ساتھ اس دورے کیلئے راضی ہی نہیں تھے مگر علامہ شبلی کے کہنے پر تیار ہو گئے ۔کوئی اور عالم ہوتا تو وہ فخر کرتا کہ وہ لارڈ کرزن کا ترجمان رہ چکا ہے اور وہ نہ صرف لارڈ کرزن سے سعودی حکمراں سے بھی فائدہ اٹھا سکتا تھا ۔اس کے برعکس حمیدالدین فراہی رحمت اللہ علیہ نے کہیں پر کسی مضمون یا تحریر میں اس کا تذکرہ کرنا بھی گوارہ نہیں کیا کہ انہیں سعودی حکمراں اور لارڈ کرزن کی قربت حاصل رہی ہے ۔خیر میری بحث کی وجہ سے مسلمانوں کے امیرالمومنین ایک خلیفہ میرے والدین اور ایک معروف عالم دین کو بھی نہیں بخشا گیا ۔لیکن اس بحث کے بعد مجھے بعد میں یہ احساس ہوا کہ اگر آپ پر ظلم ہو رہا ہے اور آپ کچھ نہیں کر سکتے اور آپ چیخ چلا بھی نہیں رہے ہیں تو اس کا مطلب صاف ہے کہ آپ ایک دم سے مردہ قوم ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ دشمن کو آپ کے رونے اور چلانے سے بھی تکلیف پہنچتی ہے ۔کم سے کم اس طرح سے سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے انصاف پسند حلقوں تک تو آپ کی بات پہنچ رہی ہے کہ آپ مظلوم ہیں اور ظالم کو کچھ تو ضرور پشیمانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔فیکٹ فائنڈنگ کے جرنلسٹ زبیر کی گرفتاری اسی چلانے کی وجہ سے اس لئے ہوئی کہ اس وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بی جے پی کی ایک خاتون لیڈر نے جو گستاخی کی تھی زبیر کے چیخنے کی وجہ سے اس کی چیخ کچھ غیرت مند مسلم حکمرانوں تک بھی پہنچی اور جب ان کے تیور بدلے تو حکومت کو دفاعی حالت میں آنا پڑا تھا ۔چیخنا چلانا اور ماتم کرنا بھی انسانی فطرت میں ہے ۔میں نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ چودہ سو سال سے چیخ چلا رہے اہل تشیع حضرات میں مایوسی پھیلی ہو بلکہ ایران آج بھی اپنے سخت تیور کی وجہ سے اسلام دشمن طاقتوں کے نشانے پر ہے اور توحید پر قائم ہونے والی ریاست کے سربراہان آج اپنی بقاء کیلئے اسلام دشمن طاقتوں کے آلہ کار بنے ہوۓ ہیں ۔

Comments are closed.