مسلمان یکساں سول کوڈ کو سیاسی مدا نہ بننے دیں

ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
سابق وائس چیئرمین، بہار انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کونسل

اس وقت یونیفارم سول کوڈ پر معرکہ آرائی چل رہی ہے۔ کچھ لوگ اس کے حق میں ہیں اور کچھ اس کے خلاف ہیں۔ مگر کسی کو یہ نہیں پتہ ہے کہ یہ کیا بلا ہے۔ مودی حکومت کے ذریعے بنائے گئے اکیسویں لاء کمیشن نے اس معاملہ پر بہت سنجیدہ کوشش کی اور وسیع الاطراف سوال نامہ بنایا اور تمام امور پر تمام لوگوں سے رائیں لیں اور وہ بالآخر اس نتیجہ پر پہنچی کہ ایسا کوئی قانون ہندوستان جیسے متنوع ملک کے لیے نہ ضروری ہے نہ ممکن ہے اور نہ پسندیدہ ہے بلکہ اس کی رائے تھی کہ ایسا کوئی قانون بنانے کے بجائے مختلف سماج میں جو جنسی نا انصافیاں ہیں اس کے ازالے پر زور دیا جائے۔ مگر حکومت نے اس مسودے کو پارلیمنٹ میں نہیں رکھا اور نہ اس پر کوئی بحث ہوئی۔ ایسا محسوس ہوا کہ اب حکومت کے سامنے ایک ماہرانہ مسودہ آچکا ہے تو حکومت اس بے وقوفانہ عمل سے گریز کرے گی۔ مگر حکومت کی نیت میں کھوٹ تھا اور وہ اس قانونی مسئلہ کو خالص سیاسی رنگ دے کر کسی نہ کسی طرح اس بحث کو زندہ رکھنا چاہتی ہے تاکہ 2024 کے الیکشن میں لوگوں کے سامنے ایک جذباتی مدا کے ذریعہ ایسے لوگوں کو گول بند کیا جائے جو محض اس وجہ سے کہ یہ مسلمان کو کچھ نقصان پہنچا سکتی ہے وہ اس بنیاد پر مودی حکومت کی حمایت کریں گے اور اس کی تمام تر ناکامیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جھولی بھر بھر کر اس کو ووٹ دیں گے۔
22 ویں لاء کمیشن نے اس مدا کو پھر سے اٹھایا ہے مگر اس بار نہ تو اس نے کوئی سوال نامہ جاری کیا اور نہ کوئی مسودہ عوام کے سامنے بلکہ وہ لوگوں سے رائے مانگ رہے ہیں کہ کیا یکساں سول کو ہونا چاہیے یا نہیں ہونا چاہیے اور اگر ہو تو کیسا ہو۔ گویا لوگ ہاں یا نا میں جواب دیں اور اپنے خیال سے اس کے روپ ریکھا کے سلسلے میں مشورہ دیں۔ گویا حکومت اس مسئلہ پر ایک ریفرنڈم کرانا چاہتی ہے اور یہ بتانا چاہتی ہے کہ اتنے لوگ اس کے حق میں ہیں اور اتنے لوگ اس کی مخالفت میں ہیں۔
مسلمانوں کا شروع سے یہ موقف رہا ہے کہ یہ ایک فضول سی کوشش ہے جس کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ مسلمان ایک لمبے عرصے سے ریاست کے رہنما اصول کی دفعہ 44 کی منسوخی کی مانگ کرتے رہے ہیں۔ جب کسی مسئلہ پر بحث چلتی ہے تو بہت سے لوگ دانش وری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی رائے میں مسلم پرسنل لاء شریعت اسلامیہ سے لیا گیا قانون نہیں ہے بلکہ یہ اینگلو محمڈن لاء سے جو انگریزوں نے بہت ناقص طریقے سے نافذ کیا تھا۔ لہٰذا اس میں اصلاح ضروری ہے۔ دوسرے مسلمان سماج نے خود اپنی شریعت پر عمل چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے مسلمان سماجی میں عورتوں اور پس ماندہ برادریوں کی حق ماری ہورہی ہے۔ مسلمان علماء یا تو اس معاملے سے غافل ہیں یا عوام نے ان کی بات ماننے سے انکار کردیا ہے۔
مسلمانوں میں ایک جدت پسند طبقہ ہے جس کو ہندوؤں اور دیگراقوام سے زیادہ اسلام سے تکلیف ہے لہٰذا وہ اس تکلیف سے باہر نکلنا چاہتے ہیں۔ حکومت مسلمانوں کی بھلائی کے لیے کوئی کام چاہے نہ کرے ان کو نقصان پہنچانے کے کسی کوشش سے باز نہیں آنا چاہتی ہے۔ آخر یہ کیسے معلوم ہوگا کہ یہ ہندو ہتیشی سرکار ہے۔ مولانا آزاد کے نام پر مسلمان بچوں کو ملنے والا تعلیمی وظیفہ بند کردیا گیا۔ کرناٹک میں برسوں سے جاری 4%فیصد تعلیم میں ریزرویشن ختم کردیا۔ یہ وہ فلاحی کام ہیں جو مسلمانوں کی بھلائی کے لیے کیے گئے ہیں۔ جس طرح مسلمانوں کے گھر، مساجد توڑے جارہے ہیں وہ حکومت کے یکساں قانون کے نفاذ کا کھلا مذاق ہے۔ اس ماحول میں یکساں سول کوڈ کی بات ایک کومیڈی کے سوا اور کیا ہے۔
اس وقت مسلمانوں میں بڑی سرگرمی پائی جارہی ہے کہ کس طرح اس کوشش کو روکا جائے، اس کے لیے دستخطی مہم جاری ہے اور جگہ جگہ لوگ اپنے اپنے طور پر مہم چلا رہے ہیں۔ میری رائے میں یہ ایک سیاسی ہتھ کنڈا ہے جس کا مقصد 2024 کے الیکشن کو پھر سے ہندومسلمان کرکے لوگوں کے جذبات کو بھڑکانا ہے۔ ٹی وی پر جس طرح کے ڈبیٹ ہورہے ہیں اور کچھ بے وقوف مسلمان جس طرح کچھ پیسوں کے لیے اپنی اور پوری قوم کی رسوائی کا سامان بن رہے ہیں وہ عبرت ناک ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے؟ یہ بات واضح ہے کہ مسلمان ایسی کسی کوشش کے خلاف ہیں اور اس کو ایک فضول عمل مانتے ہیں اور مسلمان اس کو قبول نہیں کریں گے۔ تھوڑا انتظار کیجیے اور دیکھئے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اگر حکومت کوئی مسودہ لاتی ہے اور پارلیمنٹ میں پیش کرتی ہے ، اس پر بحث ہوگی اگر وہ اس کو پاس بھی کرالیتی ہے تو ہمارا جو جمہوری حق ہے ہم اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے اور جمہوری عمل کے ذریعہ اس کو روکنے کی کوشش کریں گے۔ پہلے جن بوتل سے باہر تو آئے پھر کیسے دوبارہ بوتل میں ڈال کر اس کا منہ بند کیا جائے گا اس پر سوچا جائے گا۔ اس درمیان میں لوگوں کو اسلامی شریعت سے واقف کرانے اور اس پر عمل کی ترغیب کی مہم جاری رکھنی چاہیے کیونکہ مسلمان عوام کی بڑی تعداد اس سے ناواقف ہے اور اپنی جہالت کی وجہ سے حق ماری ہورہی ہے۔

Website: abuzarkamaluddin.com
کالم نگار اردو کی بیسٹ سیلر بک’اکیسویں صدی کا چیلنج اور ہندوستانی مسلمان- بند گلی سے آگے کی راہ‘ کے مصنف ہیں۔

 

Comments are closed.