عدالت سنجیدگی سے سوچے!

شکیل رشید
( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
نوح اور گروگرام میں فرقہ وارانہ تشدد اور کشیدگی کے ضمن میں ، وشوا ہندو پریشد ( وی ایچ پی ) کی ریلیوں پر پابندی لگانے کی ایک درخواست پر شنوائی کرتے ہوئے ، سپریم کورٹ نے یہ کہا ہے کہ ریلیوں پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی ، اور اپنے پہلے کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے ہریانہ ، یوپی ، دہلی کی حکومتوں کو یہ ہدایت دی ہے کہ ’ نہ تشدد ہونے دیا جائے ، نہ ہیٹ اسپیچ ہونے دی جائے ‘ ، نیز اس سلسلے میں یہ واضح ہدایت بھی دی کہ پولیس کسی شکایت کے درج کرائے جانے کا انتظار نہ کرے ’ ازخود ‘ کارروائی کرے ، ویڈیو ریکارڈنگ کرے ، اور اس ریکارڈنگ کو محفوظ رکھے ؛ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عدالتِ عظمیٰ کی مذکورہ ہدایات سے تشدد رُک جائے گا ؟ یہ سوال عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے پر نہ تبصرہ ہے اور نہ ہی تنقید ، اس سوال کے پسِ پشت ملک کے تشویش ناک حالات ہیں ۔ فروری میں سپریم کورٹ نے پولیس کو ہیٹ اسپیچ کرنے والوں کے خلاف ازخود کارروائی کرنے کی ہدایت دی تھی ، لیکن فروری کے بعد بھی نہ ہی تو ہیٹ اسپیچ کا سلسلہ رُکا ہے ، اور نہ ہی پولیس نے ازخود کارروائی ہی کی ہے ۔ مہاراشٹر میں کاجل ہندوستانی سے لے کر ٹی راجہ اور سریش چوہانکے تک فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والے افراد ’ ہندو سکّل سماج ‘ کے بینر تلے ’ نفرت ‘ پھلاتے رہے ہیں ، اور ان کی ہیٹ اسپیچ ہی کے نتیجے میں کولہاپور جیسے ضلع میں ، جو بھائی چارہ کا گہوارہ رہا ہے ، فرقہ وارانہ جھڑپ ہوئی ، اورنگ آباد اور احمد نگر میں تشدد ہوا ، کشیدگی پھیلی ، لیکن اب تک نفرت پھیلانے والے کسی بھی فردکے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے ۔ سوال یہی ہے کہ جب سپریم کورٹ کی ہدایات پر بھی عمل نہیں کیا جاتا ، تو کیسے یہ یقین کر لیا جائے کہ وی ایچ پی کی جو ریلیاں نکل رہی ہیں ، اور پورے ملک میں نکل رہی ہیں ، اور سات دن تک یہ ریلیاں نکلیں گی ، اُن میں اگر ہیٹ اسپیچ کی گئی تو پولیس اور انتظامیہ ازخود کارروائی کرے گی ؟ انتظامیہ کی بےعملی کا بیّن ثبوت گروگرام اور نوح کے تشدد ہیں ۔ بٹّو بجرنگی نے خود کو میوات والوں کا ’ بہنوئی ‘ کہہ کر شرانگیزی کی ، مونو مانیسر نے میوات پہنچنے کا ’ اعلان ‘ کیا ، یہ اعلان شرانگیز اس لیے تھا کہ مونو مانیسر میوات کے رہنے والے ناصر اور جنید کا مبینہ قاتل ہے ، اور اس اعلان کا صاف صاف مطلب یہ تھا کہ ’ میں آ رہا ہوں روک سکو تو روک لو ‘۔ لیکن ہریانہ کی حکومت مونو مانیسر کے دفاع میں اُتر آئی ہے ، ریاستی وزیرداخلہ انِل وج اُسے ’ کلین چٹ ‘ دے رہے ہیں کہ ’’ مونو مانیسر نے ہنگامہ کے لیے نہیں اُکسایا ۔‘‘ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مونو مانیسر اب تک گرفتار کر لیا جاتا ، اس پر قتل کا مقدمہ چل رہا ہوتا ، لیکن وہ کھلے عام گھوم رہا ہے ، اور دھمکی بھرے بیانات بھی دے رہا ہے ! کیا انِل وج کا بیان مونو مانیسر کی سرکاری پشت پناہی کاثبوت نہیں ہے ؟ اور کیا وج کا یہ بیان جانبدارانہ نہیں ہے ؟ اور جب اس طرح کے جانبدارانہ بیان کسی وزیر کی طرف سے آئیں گے ، تو کیا کوئی یہ یقین کرنے پر تیار ہوگا کہ سپریم کورٹ کی ہدایات پر عمل کیا جائے گا ؟ یہ بات صد فیصد درست ہے کہ امن و امان کی برقراری کا کام حکومتوں کا ہے ، چاہے وہ ریاستی حکومتیں ہوں کہ مرکزی حکومت ، یہ کام عدالت کا نہیں ہے ، اسی لیے عدالتیں اس کام میں دخل نہیں دیتی ہیں ، لیکن جب واضح طور پر جانبداری برتی جا رہی ہو ، اور ایک فرقے کو یہ لگ رہا ہو کہ اس کے ساتھ ناانصافی کی جا رہی ہے ، یا ناانصافی کی جا سکتی ہے ، تب ضروری ہو جاتا ہے کہ عدالت یا عدالتیں اقدام کریں ۔ منی پور کا شرم ناک تشدد سامنے ہے ، سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تھا ، لیکن اس وقت عدالت نے ریاستی حکومت پر یقین کرنے کی بات کہی تھی ، اور منی پور تباہ کر دیا گیا ۔ اگر سپریم کورٹ نے اُسی وقت کوئی فیصلہ کر لیا ہوتا تو شاید منی پور کے حالات آج کچھ اور ہوتے ۔ اب تو سارا ملک کشیدہ ہے ، وی ایچ پی کے ایک لیڈر وجئے کانت پانڈے نے ریلی کے پہلے ہی دن یہ کہا ہے کہ ’’ اگر انتظامیہ ہماری بات نہیں مانتی یا کارروائی نہیں کرتی ہے تو اگلے سات دنوں میں احتجاج بڑھے گا اور خطرناک شکل اختیار کر لے گا ۔ ودھرمیوں کی طرف سے ہندوؤں پر یہ پرتشدد حملہ برداشت نہیں کیا جائے گا ۔ تمام متاثرین ہندو ہیں ، ہندو جاگ چکا ہے ۔‘‘ یہ ایک خطرناک بیان بلکہ دھمکی ہے ۔ اسے ہیٹ اسپیچ بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں ’ ہندو جاگ چکا ہے ‘ اور ’ ہندوؤں پر یہ پُرتشدد حملہ برداشت نہیں کیا جائے گا ‘ کہہ کر سارے میوات کے تشدد کو ہندو – مسلم بنانے کی ، اور سارا الزام مسلمانوں کے سر منڈھ کر ، عام ہندوؤں کے دلوں میں اُن کے خلاف نفرت بھرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ کیا اس بیان پر کوئی کارروائی کی گئی ؟ شاید نہیں ؛ اسی لیے عدالتِ عظمیٰ کو چاہیے کہ وہ اس معاملہ پر سنجیدگی سے غور کرے ، نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کو یقینی بنائے اور انتظامیہ کی نکیل اپنے ہاتھ میں لے ، تاکہ اِن ریلیوں کے دوران کوئی جانی و مالی نقصان نہ ہو ۔
Comments are closed.