میوات نشانہ۔ مسلم ریل مسافروں کی شہادت

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز، حیدرآباد۔ فون:9395381226
ٹرین میں فائرنگ اور ہریانہ کے ضلع میوات اور گرگاؤں میں ہونے والے بدترین مسلم کش فسادات نے ہندوستانی مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ پہلے بات کرتے ہیں میوات اور گرگاؤں کی۔
میوات ہریانہ کے 22اضلاع میں سے ایک ہے جس کا صدر مقام نوح ہے۔ جس کی 80فیصد آبادی مسلم ہے۔ اور میوات میں مجموعی طور پر مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ میوات ہر دور میں دشمنوں کی نظروں میں کھٹکتا رہا ہے۔ یہ بہادر میو قوم کا علاقہ ہے جنہوں نے کبھی کسی کے تسلط کو برداشت نہیں کیا۔ مغلوں، ترکوں اور انگریزوں کو انہوں نے شکست دی۔ انگریزوں نے ان سے اس قدر بھیانک انتقام لیا کہ مارچ 1858ء میں انہوں نے تین درجن سے زیادہ دیہاتوں کو جلادیا اور اس جنگ آزادی میں ہزاروں میو باشندوں نے جن میں بلاشبہ اکثریت مسلمانوں کی ہی تھی‘ جامِ شہادت نوش کیا۔ میو باشندوں نے کئی برطانوی فوجی جنرلوں کو ذبح کیا۔
آزادی سے پہلے بھی میوات انگریزوں کی نظروں کھٹکتا رہا اور آزادی کے بعد سے انگریزوں کے غلاموں کی نظروں میں کھٹک رہا ہے۔ اس لئے کہ یہ مسلم اکثریتی آبادی والا علاقہ ہے۔ جہاں سے تبلیغ اسلام کی تحریک شروع ہوئی اور برصغیر میں پھیل گئی۔ میو قوم سے میوات ہے‘ اور میو قوم پہلے آریائی نسل چھتری قوم تھی جس کی 36شاخیں تھیں۔ 1372ء میں سلطان فیروز شاہ تغلق نے یہاں حکومت قائم کی اور راجا ناہر خان کو میوات کا علاقہ حوالہ کیا جو پہلا میواتی حکمران تھا۔ اور حسن خان میواتی آخری حکمران تھا جو 1527ء میں شہید ہوا۔ فیروز شاہ تغلق کی دعوت پر یہاں کے لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ تقسیم وطن کے موقع پر اس علاقہ کی اکثریتی مسلم آبادی نے پاکستان کو ہجرت کی۔ گاندھی جی کی 19/دسمبر 1947ء کو میواتیوں سے کی گئی اپیل پریہاں کے 33فیصد مسلمانوں نے ملک نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ تاریخ میوات کے مصنف ”یونس علوی“ کے مطابق 19/دسمبر کو ہر سال یوم میوات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ آزادی سے پہلے میوات تین ہزاروں مواضعات پر مشتمل علاقہ تھا جس میں 4ہزار مساجد تھیں‘ جو سکڑ کر 1264 گاؤں پر محدود ہوگیا اور صرف 228 مساجد مسلمانوں کو واپس مل سکیں۔ مولانا الیاس کاندھلوی کی زیر نگرانی دو اگست 1934ء کو ایک پنچایت منعقد ہوئی تھی جس میں 107افراد نے شرکت کی تھی جس میں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا عہد کیا گیا تھا۔ یہ تبلیغی جماعت کی بنیاد تھی۔
میوات کثیر مسلم آبادی کے باوجود بی جے پی کے زیر تسلط ہے۔ راؤ اندرجیت سنگھ یہاں کے رکن پارلیمنٹ ہیں جبکہ کانگریس کے آفتاب احمد نوح کے رکن اسمبلی ہیں۔ میوات کے مسلمانوں سے نہ صرف فرقہ پرستوں کو بلکہ گودی میڈیا کو بھی اِلرجی ہے یا خوف ہے۔ کووڈ کے دوران میوات کو خاص طور پر نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی بلکہ گزشتہ الیکشن سے پہلے یہ افواہ پھیلائی گئی تھی کہ میوات سے غیر مسلم شہری ملک کے دوسرے مقامات کو نقل مقام کررہے ہیں۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ وہاں برسوں سے ہندومسلم مل جل کر رہتے ہیں۔ بی جے پی کے اقتدار کے بعد اسکی اہم خیال فرقہ پرست تنظیموں نے مختلف بہانوں سے یہاں کے ماحول کو متاثر کرنا شروع کیا۔ 2023ء ہی میں فروری کے مہینے میں دو نوجوانوں ناصر اور جنید کو گاؤ رکھشکوں نے بھرت پور میں اغوا کرکے بلیرو کار میں زندہ جلادیا تھا۔ یہ علاقہ راجستھان میں ہے۔ واضح رہے کہ میوات کے 7علاقوں میں سے دو راجستھان میں بھی ہیں۔ راجستھان اور یوپی پولیس کے درمیان جنید اور ناصر کے افواہ، قتل اور مجرم کی گرفتاری کے مسئلہ پر ٹکراؤ ہے۔ جس کا فائدہ بجرنگ دل کا ریاستی سربراہ اٹھارہا ہے۔
حال ہی میں تبلیغی جماعت کے اجتماع کے بعد بجرنگ دل نے دھرم سنسد کا اعلان کیا تھا جس میں جنید اور ناصر کے مبینہ قاتل نے شرکت کا سوشیل میڈیا کے ذریعہ اعلان کیا اور فرقہ پرستوں کو مشورہ دیا کہ وہ اس کے استقبال کے لئے پھولوں کے ہار لے کر آئیں۔ مقامی افراد کی نمائندگی پر دھرم سنسند کی اجازت نہیں دی گئی۔ جس پر انہوں نے شوبھا یاترا نکالی۔ جس علی الاعلان ہتھیار لے کر فرقہ پرستوں نے اقلیتی فرقہ کے مکانات، کاروباری اداروں اور عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا۔
نوح میں بدترین واقعات پیش آئے۔ جس کے بعد پُرتشدد واقعات کا سلسلہ گرگاؤں تک پھیل گیا جہاں ایک ہزار سے زائد افراد پر مشتمل ہجوم نے مسجد پر حملہ کرکے وہاں کے امام کو شہید کیا۔ چن چن کر مسلم دکانات اور مکانات کو نشانہ بنایا۔ یہ سب ایک منصوبہ بند طریقہ سے کیا گیا۔ کیوں کہ گاؤ رکھشک کے نام پر فرقہ پرست تنظیموں سے تعلق رکھنے والوں کو ہتھیاروں کے لائسنس دیئے گئے جس کا وہ بے دریغ استعمال کررہے ہیں اور وہ ہتھیار بھی اپنے ساتھ رکھتے ہیں جن پر پابندی ہے۔
خود میوات کے ایم پی راؤ اندرجیت نے بھی شوبھا یاتر کے دوران ہتھیاروں کو ساتھ رکھنے پر اعتراض کیا ہے۔ نوح کے رکن پارلیمنٹ جناب آفتاب احمد نے دوٹوک لہجہ میں بتایا کہ جو بھی ہوا اس کے لئے منوہر لال کٹھر حکومت ذمہ دار ہے۔ انہوں نے بجرنگ دل کے مونومانیسر کو اصل تشدد کے لئے اُکسانے کا ذمہ دار قرار دیا۔ دوسری طرف ہریانہ کے وزیر داخلہ انیل وج نے مونومانیسر کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ انسٹا گرام پر اس کا پیغام تشدد بھڑکانے کے لئے نہیں تھا جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح سے حکومت ہریانہ کٹر فرقہ پرستوں کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ ہریانہ کی آگ بجھ تو جائے گی مگر اس نے اس ریاست میں نظم و نسق، جمہوری اقدار، سیکولر تانے بانوں کو جلاکر راکھ کردیا ہے۔ بالکل اُسی طرح جس طرح سے مونومانیسر اور اس کے سنگ دل ساتھیوں نے جنید اور ناصر کو زندہ جلاکر راکھ کردیا تھا۔ بعض ریاستوں میں عنقریب ہونے والے انتخابات کے لئے فرقہ وارانہ فسادات اور زہرآلود ماحول بی جے پی کے لئے ضروری ہے۔ نوح واقعات سپریم کورٹ تک پہنچ گئے ہیں جس کی سماعت 4/اگست کو ہوگی۔ جسٹس کھنہ نے سماعت کے دوران معاملگی کی نوعیت سے واقفیت حاصل کی اور پھر سپریم کورٹ نے حکومت سے کہا کہ نفرت انگیز تقاریر سے متعلق سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کرے۔ حکومت کو خبردار کیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ تشدد یا نفرت انگیز تقریر نہ ہو۔ فوری حفاظتی اقدامات کئے جائیں۔ حساس علاقوں میں اضافی احتیاطی تدابیر کے ساتھ پولیس کی اضافی فورس تعینات کئے جائیں۔ سی سی ٹی وی اور ویڈیو گرافی کی جائے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گروگرام واقعہ کے بعد دہلی این سی آر میں فرقہ پرست عناصر ریالیاں منظم کررہے ہیں۔
ہریانہ کے فسادات، امام کی شہادت اور ساتھ ہی ساتھ بمبئی سنٹرل جئے پور ایکسپریس میں آر پی ایف کے مودی یوگی زدہ کانسٹبل چیتن سنگھ کے ہاتھوں تین مسلم مسافروں کی شہادت اور سب انسپکٹر ٹکارام کی ہلاکت کے واقعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے مسلمانوں کے خلاف ہونے والے کاروائیوں کے پیچھے ایک مخصوص ذہنیت کام کررہی ہے۔ چیتن سنگھ نے عینی شاہدین کے مطابق گولی مارنے سے پہلے اور بعد مودی اور یوگی کے حق میں کچھ کلمات کہے تھے۔ اس کانسٹبل کو بچانے کی فوری طور پر کوشش کی گئی کہ یہ ڈپریشن کا شکار تھا۔ بلکہ آر پی ایف کے سربراہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ گرم مزاج کا تھا۔ چیتن کے ارکان خاندان کا کہنا ہے کہ اس کی تھراپی ہورہی تھی۔ سوال یہ ہے کہ میڈیکلی اَن فٹ چیتن سنگھ کو وردی کے ساتھ ڈیوٹی کی اجازت کیسے دی گئی؟ جب اس کے دماغی حالات سے آر پی ایف واقف تھی تو پھر اُسے لوڈیڈ گن کے ساتھ ٹرین میں کیوں بھیجا گیا؟ ویسے جب کبھی کوئی غیر مسلم اِن حالات میں گرفتار کیا جاتا ہے تو فوری اس کے ذہنی توازن کے بگڑنے کی سند دے دی جاتی ہے۔ اس کے برعکس کسی مسلمان کے قبضہ سے پیاز کاٹنے کی چھری بھی مل جاتی ہے تو اس کا تعلق کسی دہشت گرد تنظیم سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ چیتن سنگھ کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرنے والے تینوں مسافرین بے ضرر تھے۔ ان کا قصور یہی تھا کہ یہ مسلمان تھے۔ چیتن سنگھ اس مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہے جو مسلم دشمنی کا درس دیتے رہے ہیں۔ ارباب اقتدار کی نفرت انگیز تقاریر نے اس کے ذہن کو زہرآلود کیا اور مودی یوگی کا نام لے کر اس نے بھیانک جرم کرکے اپنے اطراف ایک حفاظتی خول چڑھالیا ہے۔ اُسے گرفتار تو کیا گیا‘ مقدمہ بھی چلایا جائے گا یہ اور بات ہے کہ جیل میں اس کے ساتھ ویسا سلوک نہیں ہوگا جیسا مسلم قیدیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ بلکہ وہ اپنے ہم خیال قیدیوں کا جیل میں بھی لیڈر ہوگا اور جب ضمانت پر رہا ہوگا تو کسی فرقہ پرست جماعت سے ایوان مقننہ میں داخل ہوجائے گا۔ اگر اُسے ضمانت نہ بھی ملے تب بھی وہ جیل میں رہ کر الیکشن لڑے گا اور بھاری اکثریت سے اُسے کامیابی دلائی جائے گی۔
ٹرین میں فائرنگ یا مسلمانوں کے قتل کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ آزادیئ ہند سے لے کر آج تک کئی ایسے واقعات پیش آچکے ہیں۔ ستمبر 1947ء میں پاکستان سے ہندوستان آنے والی ٹرین میں قتل عام ہو یا 22/جون 2017ء کو عید منانے کے لئے دہلی سے متھرا کا سفر کرنے والے 15سالہ حافظ قرآن جنید ہو‘ جسے رامیشور، پردیپ، گورو اور چندر پرکاش نامی چار افراد نے پہلے اسے اور اس کے بھائی ہاشم دو دوستوں معین اور موسم کو زدوکوب کیا اور پھر جنید کو چاقو گھونپ کر ٹرین سے باہر پھینک دیاتھا۔ ٹرین کے مسافر اور پلیٹ فارم پر 200 افراد کی بھیڑ ہجڑوں کی طرح بے بسی سے دم توڑتے ہوئے جنید دیکھتی رہی۔ یوں تو چاروں کو گرفتار کیا گیا مگر سبھی ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں۔ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے یہ جھوٹا بیان دیاتھا کہ جنید کے ارکان خاندان ملزمین سے دو کروڑ روپئے اور تین ایکر اراضی کے عوض سمجھوتہ کے لئے تیار ہے جسے جنید کے ارکان خاندان نے غلط قرار دیا۔ مقدمہ جاری ہے۔ کووڈ۔19 کی وجہ سے عدالتیں بند ہوگئی تھیں‘ اور پھر دوبارہ کھلی ہیں تو دیکھنا ہے کہ قطعی فیصلہ کب ہوگا!
ایک ایسے وقت جبکہ سویڈن میں قرآن سوزی کے واقعات پر مسلمانوں کا عالمی ردعمل ہورہا ہے‘ خلیجی ممالک ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر سے بہتر بنارہے ہیں‘ وزیر اعظم کو اپنے اپنے ملک کا باوقار ایوارڈ پیش کیا جارہا ہے۔ خود وزیر اعظم نے اپنے ارکان کو ہدایت دی ہے کہ وہ رکشابندھن پر مسلم بہنوں تک پہنچیں۔ مسلم خواتین کی فلاح و بہبود کیلئے من کی بات بھی کہی گئی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ من کی بات کے ساتھ زمینی حقائق کی بات بھی ہو۔ فرقہ پرست عناصر کی کاروائیوں سے مسلم خواتین کی گود اُجڑ رہی ہے۔ مانگ سونی ہورہی ہے۔ گھر تباہ ہورہے ہیں۔ مسلمان ہیں‘ صبر ان کے ایمان کا حصہ ہے۔ آج نہیں تو کل سنبھل جائیں گے مگر عالمی سطح پر ایک سیکولر ملک کی جو ساکھ ہے‘ وہ متاثر ہو تو پھر بحال کرنے کیلئے بہت زیادہ وقت لگ جائے گا!
Comments are closed.