جمعہ نامہ: شہید جاتے ہیں جنت کو گھر نہیں آتے

ڈاکٹر سلیم خان
ارشادِ ربانی ہے:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ رب کائنات نماز اور صبر واستقامت سے مدد لینے کی تلقین کے ساتھ یقین دہانی فرماتا ہے کہ کائناتِ ہستی میں صابرین اکیلے نہیں ہیں بلکہ ان کا پشت پناہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات ِ والا صفات ہے۔ ایسے میں یہ غلط فہمی ہوسکتی ہے کہ جب خالق کائنات ساتھ ہے تو مصائب و آزمائش قریب پھٹک ہی نہیں سکتے لیکن اس کے فوراً بعد یہ کہا گیا کہ : ’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں، مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا‘‘۔یعنی دین حق کی راہ میں گروگرام کےحافظ سعد کی طرح جامِ شہادت بھی نوش کرنا پڑ سکتا ہے ۔ ایسی صورتحال میں مومنین کو حکم دیا جارہا ہے کہ انہیں مردہ نہ کہا جائے کیونکہ وہ ایک ایسی حقیقی زندگی گزار رہے ہیں جن کا تمہیں شعور نہیں ہے۔ نبیٔ کریم ﷺ کا ارشادِ گرامی تو یہ بھی ہے کہ :’’ جو شخص صدق دل کے ساتھ اللہ سے شہادت طلب کرتا رہے گا تو چاہے اس کی موت بستر پر واقع ہو اللہ تعالیٰ اسے شہداء کے مراتب تک پہنچا دے گا‘‘.۔
اہل ایمان کو صبرو استقامت کی ضرورت کب اور کیوں پڑتی ہے اس کی وضاحت آگے کی آیت میں اس طرح ہے کہ:’’اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے‘‘۔ان حالات سے اگر سابقہ نہ پڑے تو صبر و استقامت کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی ۔ اس طرح کی آزمائش کے دوران مومنین سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ صبر کریں :’’ اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ: "ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘۔ مومنانہ شان تو مردانہ وار آزمائش سے بنرد آزما ہونے کی ہے مگر ہم رونے دھونے اور ماتم کرنے لگتے ہیں ۔ ایسے میں ہم رب کائنات کی یہ بشارت ہم بھول جاتے ہیں کہ :’’ انہیں خوش خبری دے دو ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں ‘‘۔
مسلمانوں کا ابتلاء و آزمائش سے دوچار ہوجانا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ نبیٔ کریم ﷺ نے شدید ترین حالات کے لیے اپنے صحابہ ٔ کرامؓ کی تربیت فرمائی یہی وجہ ہے کہ جب یہ قرآنی آیت ان کے رگ و پے میں گردش کر نے لگی کہ :’’ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو اِن سے پہلے گزرے ہیں .اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون ہیں‘‘، تو وہ ان سے بالکل بھی دل برداشتہ نہیں ہوئے۔ انہوں نے ہر امتحان کو سعادت سمجھ کر خود کو کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کیا ۔ ان پاکیزہ نفوس کو پتہ تھا کہ ہم سے پہلے بھی راہِ حق کے مسافروں کے ساتھ یہ معاملہ پیش آچکا ہے اور اس کے اندر جنت کا پروانہ ہے۔ ارشادِ حق ہے :’’پھرکیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت کا داخلہ تمہیں مل جائے گا‘ حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے جو تم سے پہلے ایمان والوں پر گزر چکا ہے؟ ان پر سختیاں گزریں‘ مصیبتیں آئیں‘ ہلا مارے گئے ‘ حتیٰ کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟اُس وقت انہیں تسلی دی گئی کہ ہاں اللہ کی مدد قریب ہے‘‘۔ یہ آیت اہل ایمان خود کو اللہ کی مددو نصرت کا مستحق بنانے میں معاون ہوتی ہے۔
ابھی حال میں یکے بعد دیگرے تین واقعات نے اہل ایمان کو تشویش میں مبتلا کردیا ۔ پہلا واقعہ ہریانہ کے نوح کا ہے جہاں فسادیوں نے جلوس نکال کر فسادکرنے کی کوشش کی ۔ مسلمانوں نے اپنی پیشگی تیاری سے اسے ناکام کردیا اور فسادی بھاگ کھڑے ہوئے ۔ نوح کے اندر جملہ۵؍افراد کی ہلاکت ہوئی جن میں دو ہوم گارڈ کے جوان بھی اپنی جان گنوا بیٹھے ۔ اس کا انتقام ان لوگوں نے گروگرام کےامجمن کی مسجد پر حملہ کرکے لیا ۔ اس میں حافظ سعد شہید ہوگئے ۔ اسی دوران جئے پور سے ممبئی آنے والی ریل گاڑی میں ایک سرپھرے حولدار نے پہلے اپنے افسر اور پھر چار مسلمانوں کو ہلاک کردیا۔ یہ سنگین حالات ہیں مگر قرآن حکیم میں غزوۂ احزاب کی جو منظر کشی کی ہے وہ اس سے بھی بھیانک ہے ۔ارشادِ قرآنی ہے:’’ جب وہ اُوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں، کلیجے منہ کو آ گئے، اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے‘‘۔ آج کل عام مسلمان اسی طرح اندیشوں کا شکار ہے مگر:’’ حقیقی اہل ایمان کا حال اُس وقت یہ تھا کہ جب انہوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا‘اور اللہ اور اس کے رسول کی بات بالکل سچی تھی . اور اس واقعہ نے ان کے ایمان اور تسلیم و رضا کی کیفیات میں مزید اضافہ کر دیا.‘‘۔یہ حالات پکے مسلمانوں کے ایمان میں اضافہ کا سبب بن کر انہیں آزمائشوں سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ عطا کرتے ہیں ۔ سید صادق حسین نے کیا خوب کہا ہے ؎
تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
Comments are closed.