گماں تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے‘ معروف خطیب حضرت مولانا مطلوب الرحمان مظاہری کا انتقال

مظفر احسن رحمانی
(معتمد رابطہ عامہ دارالعلوم سبیل الفلاح جالے)
جالے سے صرف پانچ کلو میٹر کی دوری پر مدھوبنی ضلع میں ایک گائوں ’مکیہ‘ پڑتا ہے۔ بہت چھوٹا سا یہ گائوں، پورے بہار میں اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے، اس گائوں کی شہرت کسی اوروجہ سے نہیں ؛ بلکہ ایک درویش اور قلندرانہ صفت کے مالک، اپنی ایک منفرد پہچان رکھنے والے، معروف خطیب، صاحب بصیرت عالم دین حضرت مولانا مطلوب الرحمان مظاہری کی وجہ سے تھی۔ طویل علالت کے بعد آج مولانا پٹنہ کے ای جی ایم ایس اسپتال میں دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا مطلوب الرحمان مظاہری صاحب ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے، ان کے والد جناب صادق حسین صاحب مرحوم کسان تھے اور سماج میں ان کی اپنی پکڑ تھی، نہایت ہی شریف النفس اور علماء نواز تھے، انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم تربیت پر خصوصی توجہ دی، یہی وجہ ہے ان کی تمام اولادیں عالم اور حافظ ہوئے۔ بڑے فرزند حافظ دائود صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے، دوسرے فرزند مولانا مطلوب الرحمان مظاہری صاحب ، تیسرے فرزند مولانا محبوب صاحب اور چوتھے فرزند حضرت مولانا خبیب ندوی صاحب ہیں۔
مولانا مطلوب الرحمان مظاہری ؒصاحب کی ابتدائی تعلیم بہار کے معروف و تعلیمی وتربیتی ادارہ مدرسہ اشرف العلوم کنہواں شمسی میں ہوئی، جہاں انہوں نے اکابر علماء اور اساتذہ سے علم دین حاصل کیا۔ مولانا مظاہری ہندوستان کے معروف عالم دین اور اپنے وقت کے قطب حضرت مولانا قاری صدیق احمد باندویؒ کے مدرسے میں ان سے خصوصی تربیت کے لیے داخل ہوئےجہاں انہوں نے مسلسل کئی برس تک حضرت باندویؒ کی صحبت میں رہ کر علوم ظاہری وباطنی میں مہارت حاصل کی۔ اس کے بعد مدرسہ مظاہرالعلوم تشریف لے گئے اور وہاں سے فراغت حاصل کی۔ فراغت کے بعد حضرت مولانا عبدالحنان صاحب (شیخ الحدیث ماٹلی والا بھڑوچ ) کی خواہش پر تعلیم تعلم اور درس وتدریس کے لیے اولاً مدرسہ جامعہ قاسمیہ دارالعلوم بالا ساتھ تشریف لائے، جہاں انہوں نے بہت دنوں تک بہ حیثیت صدر مدرس خدمات انجام دیں، اس کے بعد اترپردیش کے فتح پور تشریف لے گئے اور وہاں درس و تدریس سے منسلک ہوکر بڑی تعداد میں طالبان علوم نبویہ کو فیضیاب کیا۔ فتح پور میں طبیعت میں یکسوئی نہ ہونے کی وجہ سے دوبارہ دارالعلوم بالا ساتھ تشریف لائے، یہاں رہتے ہوئے اپنے گائوں ’مکیہ‘ کے لوگوں میں مدرسہ کے لیے ایک تحریک شروع کی اور اسی بنیاد پر مدرسہ مصباح العلوم قائم ہوا پھر اسی اپنے قائم کردہ ادارہ سے تاحیات منسلک رہ کر مکتب سے لے کر بڑے ادارہ میں تبدیل کردیا۔ جہاں اس وقت بڑی تعداد میں طلبہ دارالاقامہ میں مقیم ہیں وہیں گائوں کی بچیاں بھی زیور تعلیم سے آراستہ ہورہی ہیں۔
مجھے حضرت مولانا مطلوب الرحمان مظاہری کے ساتھ کئی جلسوں میںشرکت کا موقع ملا، جہاں میں نے یہ دیکھا کہ مولانا ایک بہترین مقرر ہونے کے ساتھ ساتھ الفاظ کا جادو بکھیرتے تھے جس سے سامعین مبہوت ہوجاتے تھے، مولانا کی خاص خوبی یہ تھی کہ وہ کثرت سے قرآن کریم کی آیات اور حدیث پاک کی روشنی میں اپنی ’دیہاتی ‘ زبان میں خطاب فرماتے تھے، جس سے عوام وخاص میں خاصی مقبولیت حاصل ہوئی، مولانا جب اسٹیج پر ہوتے تو ہزاروں کا مجمع فجر تک ساکت و جامد اور ہمہ تن گوش ہوکر سسکیاں لے کر روتا اور بسا اوقات مولانا کسی بات پر وہی مجمع قہقہہ لگا کر محفل کو گلزار کردیتا۔ چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور انہیں آگے بڑھانا کوئی مولانا سے سیکھے،ہمیں یاد ہے کہ جب کبھی میں نظامت کرتا ہوا ہوتا ،تو وہ مجھے بلا کر حوصلہ افزا جملے کہتے۔ مولانا کی ایک خاص خوبی یہ تھی کہ وہ دعوتی پہلو پر زیادہ دھیان دیتے چھوٹے چھوٹے گائوں، قریے اور دیہاتی علاقوں کا دورہ کرکے مسلمانوں کی دینی بیداری کا جائزہ لیتے اور انہیں اسلام کے بنیادی مسائل سے جوڑنے کی سعی کرتے، اس ضمن میں مسلسل ان سے رابطہ رکھتے، سواری نہ ہونے کی صورت میں وہ سائیکل پر ہی سوار ہوکر ان علاقوں کے دوروں پر روانہ ہوجاتے تھے، سواری کا کبھی کوئی انتظار نہیں کرتے۔ مولانا جس دعوت کو قبول کرتے اس میں ضرور شرکت کرتے، بسا اوقات چھوٹے چھوٹے میلاد وغیرہ کے پروگراموں میں بھی حاضر ہوجاتے، جلسے میں جب کوئی مداح رسولﷺ شان رسالتﷺ میں نذرانہ عقیدت پیش کرتا تو آپ بہت متوجہ ہوکر سنتے اور عشق رسول ﷺمیں غرق ہوکر دادو تحسین پیش کرتے اور انہیں انعام واکرام سے نوازتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی گفتگو شروع کرنے سے پہلے بہت مترنم آواز میں حضور ﷺ کی شان اقدس میں نعت پڑھتےاور علامہ اقبال جیسے شعراء کے اشعار کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔ ان دنوں ملک کے معروف عالم دین آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم کی لکھی ہوئی ایک نظم قصر گہر سے بڑھ کر یہ آشیاں ہمارا
ہر گل ہے جس کا گلشن وہ گلستاں ہمارا
مشرق ہویا کہ مغرب منزل نہیں ہماری
سوئے حرم رواں ہے یہ کارواں ہمارا
ظاہر ہمارا سادہ باطن ہو خوب روشن
نور خدا سے پر ہو قلب نہاں ہمارا
ظلمت کی اب نہ ہوگی کوئی جگہ جہاں میں
پیغام ان سے کہہ دو باد صبا ہمارا
شعلوں سے کھیلنا ہو، موجو ں میں کودنا ہو
ہر گز نہ ہار مانے عزم جواں ہمارا
کیا کیا نہ کوششیں نہ کیں مٹ جائیں ہم جہاں سے
نقش کہن ہے اب تک لیکن عیاں ہمارا
جتنے جلیں نشیمن اتنے بنائیں گے ہم
کیا کرسکے گا آخر برق تپاں ہمارا
ہم علم سے کریں گے سارے جہاں کو روشن
اللہ سے یہی ہے عہد وفا ہمارا
مستقل پڑھتے اور لوگوں کو مدارس کے تئیں غور وفکر کی دعوت دیتے ہوئے ان کے حوصلے کو مہمیز کرتے۔ مولانا کے پسماندگان میں پانچ لڑکے، محمد انور، مولانا سلمان، مولانا انظر، مولانا عمران ندوی اور حافظ بلال کے علاوہ تین لڑکیاں چھوڑی ہیں۔ مولانا مظاہری کے اب نہیں ہونے کا غم مسلسل ستائے گا، ان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات اب یاد بن کر رہ جائیں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی بال بال مغفرت فرمائے اور اہل خانہ و لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے ۔ آمین۔
Comments are closed.