جدید ذراٸع ابلاغ کا استعمال اورہماری ذمہ داریاں

 

مفتی احمدنادرالقاسمی

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

 

”اللھم الھمنی رشدی۔وأعذنی من شرنفسی“

”دل سے جوبات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے۔“

 

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

آپ حضرات اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ آج دنیا میں شرپھیلانے والوں کی کمی نہیں ہے اور پوراملٹی میڈیا شر سے بھراہواہے ۔سوشل میڈیا میں خاص طور سے فیس بک اورانسٹاگرام کا استعمال عورتیں زیادہ کرتی ہیں، مردبھی کرتے ہیں مگرکم، جن میں بڑی تعداد ایسی خواتین کی ہے جولایعنی بلکہ مخرب اخلاق پیغامات دنیا میں پھیلانے کےلٸے اسے استعمال کرتی ہیں۔ ان میں غیرمسلم خواتین زیادہ ہیں اورمسلم کم ہیں۔ جو غیرمسلم ہیں یاجن کے نام مسلمانوں جیسے ہیں یامسلم گھرانوں میں پیدا تو ضرور ہوٸی ہیں مگر اسلامی اوراخلاقی تعلیمات سے ان کا دور دورتک کابھی واسطہ نہیں رہا ہے۔ ظاہرہے ان سے اخلاقیات اوررشدوہدایت پرمبنی مواد کی نشر واشاعت کی توتوقع نہیں کی جاسکتی۔ ان کامقصد تو صرف اورصرف فالوورس اورسبسکراٸبر بڑھاکر پیسے کماناہے یاپھر ان کا تعلق دنیاکے ان گروپوں سے ہے جودنیا میں بے حیاٸی پھیلاکر شیاطین کو خوش کرنا اورعام انسانوں کو بےحیاٸی اورعریانیت کی دلدل میں ڈھکیلنا اورحرام وحلال اورانسانی اخلاق واقدار کی قیدسے آزاد مغرب کے بےمہابا جنس پرستانہ ایجنڈے کودنیا میں عام کرناہے اور بدقسمتی سےذراٸع ابلاغ پر انھیں کا قبضہ بھی ہے وہ تو وہی کریں گے، مگر جومسلم خواتین ہیں اورباحجاب ہیں اورملٹی میڈیا کے استعمال کی بھرپورصلاحیت رکھتی ہیں ان کو تو کم از کم میڈیاکی آزادی کا فاٸدہ اٹھاکر اوران میں گھس کر خیر اورانسانی وایمانی باتوں کو دنیا میں عام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔یہ ذمہ داری مردوں کی بھی ہے اورخواتین کی بھی کہ دنیا سے اورمعاشرے سے بےحیاٸی کے خاتمے اورخیر کے غلبہ کی جدوجہد کریں، بلکہ معاشرے کو اخلاق واقدار پر باقی رکھنے میں مردوں کے مقابلے خواتین زیادہ موثر ہوسکتی ہیں، کیونکہ انسانی نسل انھیں کی آغوش میں پروان چڑھتی ہے۔آج ذراٸع ابلاغ کی ترقی نے ہمیں دنیاتک اپنی بات پہونچانے کے بہترین مواقع فراہم کٸے ہیں ۔۔مگر موباٸل اورانٹر نیٹ سے ہمیں فاٸدہ اٹھانے کی بجاٸے اسی فیصد ہمارا وقت یوٹیوب اورفیس بک پر موجود دنیا کی لایعنی باتوں کے دیکھنے میں گزرتاہے۔ ہم بحیثیت مسلمان اس بات کو یاد نہیں رکھتے یا ہمیں اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں ہے یا ہمارے عقل وشعورپر غفلت کا اتنا دبیز پردہ پڑا ہے کہ ہماری سوچ کو مثبت رخ تک پہونچنے ہی نہیں دیتا۔ ہم ہمیشہ دنیا کو اس دستی آلہ کے ذریعہ یاتو صرف تصویریں یامحض مزاحیہ یاایسی چیزیں دکھانے اورشییر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کا نہ دنیا میں فاٸدہ ہے اورنہ آخرت میں ان سے کوٸی فاٸدہ ملنے والاہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نٸی نسل کو صحیح ٹریک پر لانے کے لٸے اسکول کے اساتذہ اوروالدین اگر بچپن سے بچوں کو تربیت دینے کی کوشش کریں کہ یہ ذراٸع ابلاغ محض ہمارے تفریح طبع اورانٹرٹینمنٹ یا ٹک ٹاک دیکھنے کے لٸے نہیں ہیں بلکہ اللہ نے انسان کو یہ سہولت خیرکے کام، اچھی تعلیمی صلاحیت پیداکرنے اوردنیا تک دین متین کا پیغام پہونچانے کے لٸے دی ہے تو ضرور ہمارے بچوں اوربچیوں اورعورتوں کامزاج بھی بنے گا اوران کے ذریعہ رشدوہدایت بھی عام ہوگی۔

اللہ تعالی ہم سب کو دنیاتک بھلاٸی اوررشدوہدایت کی باتیں پہونچانے کی توفیق عطافرماٸے ۔آمین

Comments are closed.