تحریکِ عدم اعتماد پر گوگلی اور سکسر کا کھیل

ڈاکٹر سلیم خان
کرکٹ کے میدان میں مخالف ٹیم کو اگر ہلکا سمجھنے والی طاقتور ٹیم بھی ہار جاتی ہے۔ حال میں ہندوستانی ٹیم نےویسٹ انڈیز کو کمزور سمجھ کر بڑے کھلاڑیوں کو روک لیا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ صرف ایک دن کا بلکہ ٹی ٹوینٹی کا بھی ایک ایک میچ ہار گئی۔ تحریک عدم اعتماد کی تحریک میں راہل گاندھی کے چوکوں اور چھکوں سے بچنے کے لیے وزیر اعظم میدان میں نہیں اترے بلکہ ہلکے گیند باز ششی کانت دوبے کو گیند تھما دی ۔ کانگریس نے یہ دیکھا تو نائٹ واچ مین گوروو گوگوئی کو بلہ دے کر میدان میں اتار دیا یعنی جو تقریر راہل گاندھی کرنے والے تھے اس کا مسودہ تھما کر میدان میں اتار دیا۔ گورو گوگوئی اپنے چوکوں چھکوں سے بی جے پی کے چھکے چھڑا دئیے ۔ کل یگ کے چانکیہ امیت شاہ اپنی چانکیہ نیتی کو ناکام ہوتا دیکھ کر آگ بگولہ ہوگئے ۔ نائٹ واچ میں ہونے کے باوجود گورو گوگوئی ایسی زبردست سنچری لگائی کہ ان کے بعد میدان میں آنے والا بی جے پی بلہ باز ششی کانت دوبے بالکل بونا نظر آنے لگا۔ دوبے آڑے ترچھے شاٹس کھیل کر اپنی ٹیم کی خوب مٹی پلید کی اور جو کمی رہ گئی تھے سو نارائن رانے نے اپنے سڑک چھاپ انداز میں پوری کردی۔ اس طرح پہلے دن پہلی اننگز میں تو ہاتھ نے کمل کو چاروں خانے چت کردیا ۔
کانگریس اپنی بحث کی شروعات کس سے کرتی ہے یہ اس کا داخلی معاملہ ہے۔ اس پر اعتراض کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ گورو گوگوئی نے چونکہ تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی اس لیےیہ ان کا حق تھا ۔ وہ اگر اپنے قائد کے حق میں دستبردار ہوجاتے تو اور بات ہوتی اور یہی ارادہ بھی تھا لیکن اس فیصلے کو بدلنے کے جملہ حقوق محفوظ تھے۔ بی جے پی کے لیے یہ تبدیلی غیر متوقع تو تھی مگر اسے پریشان ہونے کے بجائے نئی حکمت عملی وضع کرنی چاہیے تھی۔ سنگھ پریوار کی شاکھا میں چونکہ صبر و تحمل کی تربیت نہیں جاتی اس لیے وہ لوگ بپھر جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی سے رہا نہیں گیا اور انہوں نے کہہ دیا ’جہاں تک میں جانتا ہوں ، صبح 11.15 پر چٹھی آئی تھی کہ راہل گاندھی بول رہے ہیں لیکن اس بیچ کیا ہوگیا؟ہم راہل گاندھی کو سننے کے لیے پرجوش تھے‘۔ سوال یہ ہے کہ کل تک تووہ لوگ پپو کہہ کر مذاق اڑاتے تھے مگرآج راہل گاندھی کی تقریر سننے کا اشتیاق کیوں پیدا ہوگیا؟ ویسے بھی ایک دو دن بعد تو ان کے ارمان پورے ہونے ہی والے تھےاس لیے پریشانی کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ فی الحال بی جے پی سمیت پورا ملک وزیر اعظم کے بجائے راہل گاندھی کو سننا چاہتا ہے۔پرہلاد جوشی نے اعتراف کرکے اس حقیقت پر مہر ثبت کردی ۔
پرہلاد جوشی کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے گورو گوگوئی پوچھا کیا ہم بتائیں کہ وزیراعظم نے آپ کے دفتر میں کیا کہا؟ اس پر وزیر داخلہ غصے سے پاگل ہوکر چلانے لگے ۔ انہوں نے کہا یہ اسپیکر اور وزیر اعظم کی سنگین توہین ہے۔ اس پر اوم برلا نے سمجھایا کہ ایسے تبصرے نہ کیے جائیں جن کی کوئی حقیقت نہ ہو۔ پرہلاد جوشی نہیں مانے اوربولے ’ ہم نے وہی کہا جو عوام میں اور پریس میں ہے۔ اس کے جواب میں گورو گوگوئی دھمکی آمیز انداز میں بولے ’’ دفتر میں جو کچھ ہوتا ہے، اگر آپ اسے باہر اجاگر کرنا چاہتے ہیں، تو ہم بھی اسے باہر رکھیں گے‘‘۔ اس جھڑپ نے بی جے پی کے ہوش ٹھکانے لگا دئیے اور انہیں صبرو سکون کے ساتھ گورو کی تقریر سننے پر مجبور کردیا۔ پہلی اننگز کے خاتمہ تک گورو ناٹ آوٹ رہے اور ان کا بہترین کھلاڑی اب بھی پویلین کے اندر اپنی باری کا منتظرتھا ۔ راہل کے التواء نے بی جے پی پر دباو بنا دیا کہ اگر وہ نریندر مودی سے پہلے بولیں تو سیدھا موازنہ ہوجائے گا ۔ اس سے بچنے کے لیے اگروزیر اعظم نے بولنے کا ارادہ ترک کردیا تو اگلے پارلیمانی انتخاب میں انہیں جھولا اٹھا کر گھر جانے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں بچے گا۔
گورو گوگوئی نے منی پور کے نوجوان، بیٹیوں، کسانوں اور طلبا کے لیے انصاف کی دہائی دیتے ہوئےمارٹن لوتھر کنگ کا قول دوہرایا کہ اگر کہیں بھی ناانصافی ہوتی ہے تو وہ ہر جگہ انصاف کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی وجہ بتاتے ہوئے وہ بولے ملک کا سربراہ ہونے کے ناطے وزیراعظم کو ایوان میں آکر اپنی بات رکھنی چاہیے تھی ۔ لوگوں کی حمایت کرکے تعزیت کا پیغام دینا چاہیے تھا مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ وزیر اعظم نے چپی سادھ لی ۔ ایوانِ زیریں اور بالہ دونوں میں خاموش رہے اس لیے تحریک عدم اعتماد لا نی پڑی ۔ انہوں نے کہایہ تحریک تعداد کے بارے میں نہیں بلکہ منی پور کے انصاف کے بابت ہے۔ سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم منی پور کیوں نہیں گئے؟ وزیر اعظم کو منی پور پر بولنے میں 80 دن کیوں لگے اور وہ بھی صرف 20 سیکنڈ! اس میں نہ تعزیت کا لفظ تھا اور نہ امن و آشتی کی اپیل تھی۔ وزیر اعظم مودی کے الفاظ کا اثر ہے، وہ وزیر اعظم ہیں لیکن وہ چپ رہے۔ گوگوئی نہیں جانتے کہ وزیر اعظم اپنے بول بچن انتخابی فائدے کے سوا کسی اور کام میں استعمال کرکے ضائع نہیں کرتے۔
وزیر اعظم کی ذاتِ والا صفات کے بعد گورو گوگوئی کا دوسرا ہدف منی پور کے وزیر اعلیٰ تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ آخر بیرین سنگھ کو کیوں برطرف نہیں کیا جاتا؟ سیاسی مفاد کی خاطر گجرات ،اتراکھنڈ اور تریپورہ میں سی ایم کو بدلاجاتا مگر منی پور میں انٹیلی جنس کی ناکامی کا اعتراف کرنے والے اور منشیات مافیا کی حفاظت کرنے والے وزیر اعلیٰ کوتحفظ دیا جاتا ہے۔ گورو گوگوئی نے ڈبل انجن والی حکومت کی ناکامی کے ثبوت منی پور کی تباہی و بربادی کو تفصیل سے بیان کیا۔ اس ابتر صورتحال کے لیے گزشتہ 2-3 سالوں میں وزیر اعلیٰ کےان اقدامات کوذمہ دار ٹھہرایا جن سے معاشرے میں تناؤ پیدا ہوا ہے۔ گوگوئی نے بی جے پی پر منی پور کو دوحصوں تقسیم کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ایک دوسرے انتقام کی زبان بولنے والے طبقات اب آسام رائفلز سے بھی برسرِ پیکار ہیں۔ انہوں نے ایک مجاہدِ آزادی اور کارگل میں لڑنے والے فوجی کے اہل خانہ کے قتل کے ذکرسے سرکار کو شرمندہ کیا۔
کانگریس رکن پارلیمان کہا کہ فی الحال منی پور میں عوام کے پاس 5000 سے زیادہ پولیس اور سیکورٹی فورسز سے چھینے ہوئے ہتھیار ہیں۔ ہجوم تھانوں اور پولیس ٹریننگ کالج میں جا کر مشین گن، مارٹر، دستی بم، 6 لاکھ گولیاں لوٹ چکا ہے۔ یہ گولیاں منی پور کے سیکورٹی اہلکاروں، پولیس اور غیر مسلح لوگوں پر استعمال کی جائیں گی ۔ آج یہ اسلحہ منی پور میں ہے، کل ملک کے مختلف حصوں میں پہنچ جائے گا ۔ انہوں سرکار سے پوچھا کہ اس قومی سلامتی کے مسئلہ سے کیسے نمٹا جائے گا؟ انہوں نے سوال کیا کہ معاشرے پر الزام لگانے والے وزیراعلیٰ کے کہنے پرمرکزی حکومت آسام رائفلز کو کیوں ہٹا رہی ہے؟ منی پور پولیس کو محکمہ داخلہ کے تحت کام کرنے والی آسام رائفلز سے پوچھ گچھ کا کیا حق ہے؟ گوگوئی نے پی ایم کی خاموشی کو ریاستی حکومت کی شبیہ بچانے کی کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ صرف امیج سے محبت کرتے ہیں، عوام پر ہونے والے مظالم سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
اس مدلل اور سنجیدہ خطاب کا جواب دینے کے لیے بی جے پی نے اپنے ایک نہایت گھامڑ اور کندۂ ناتراش رکن پارلیمان نشی کانت دوبے کو میدان میں اتارا۔ وہ منی پور پر اپنی حکومت کا دفاع کرنے کے بجائے راہل اور سونیا گاندھی کے پیچھے پڑ گئے۔ دوبے بولے کہ عدالت عارضی فیصلہ آیا ہے حتمی نہیں آیا گویا انہیں امید ہے کہ آخری فیصلے میں صورتحال بدل جائےگی ۔ راہل کے بعد وہ سونیا گاندھی پر طنز کستے ہوئے بولے کہ وہ ایک اچھی بھارتیہ ناری کی مانند اپنے بیٹے کو سیٹ اور داماد کو گفٹ کرنا چاہتی ہیں۔ دوبے کے اس حمقانہ تبصرے پر سونیا گاندھی کو غصہ آنے کے بجائے ہنسی آگئی کیونکہ ان جاہلوں سے کوئی اور توقع ہی نہیں ہے۔ مودی جی کے بارے میں دوبے نے کہا کہ یہ تحریک ایک غریب کے بیٹے کے خلاف ہے۔ مودی جی غریب کے بیٹے تو ہیں مگر غریب نہیں ہیں اس لیے کہ ملک کا غریب ڈھائی لاکھ کی عینک اور دس لاکھ کا سوٹ نہیں پہنتا۔ یہ ہمدردی کا ٹوٹکا اب نہیں چلے گا۔
نشی کانت دوبے کے مطابق حزب اختلاف کے لوگ انڈیا الحاق کا پورا نام بھی نہیں جانتے مگر اس تحریک نے اپوزیشن اتحاد کو مضبوطی عطا کی ہے۔ اس کا ثبوت سپریا سولے اور ڈمپل یادو کی تقریر اور راگھو چڈھا کا یہ اعلان ہے کہ ہم نے ماضی کے ساے اختلافات کو کوڑے دان کی نذر کردیا ہے۔ دوبے جی چونکہ براہمن ہیں اس لیے انہوں نے مہا بھارت کی یاد دلاتے ہوئے کہا جب دروپدی کا چیرہرن ہو رہا تھا تب سبھی خاموشی تھے۔ اس لیے دھرتراشٹر یا یدھشٹرکی کوئی نہیں بچے گا۔ نشی کانت نے یہ کہہ کر کل یگ کے دھرتراشٹر کا انجام بتا دیا۔ اس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں اور یہی ان کی بحث کا حاصل ہے۔ ملک کو راہل کےجس باونسر کا انتظار تھا و ہ انہوں نے پھینک دی اس کے جواب وزیر داخلہ کی آئیں بائیں شائین اور مودی جی کی کائیں کا موازنہ ان شاء اللہ کل ہوگا۔ وزیر اعظم اس پر سکسر مارنے کی امید تو کم ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہا کلین بولڈ ہوتے یا زخمی ہوکر پویلین میں لوٹ آتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)
Comments are closed.