اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

 

ڈاکٹر سلیم خان

تحریک عدم اعتماد  کی بحث نے ملک کے سامنےسرکار اور  حزب اختلاف کے فرق کو کھول کر پیش کردیا ۔لوگوں نے دیکھا کہ  منی پور کے تشدد کو جھیلنے والوں کا درد کون محسوس کررہا ہے؟ کون چاہتا ہے کہ ملک میں امن و امان قائم رہے اور اس طرح کے انسانیت سوز واقعات رونما نہیں ہوں  ۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی سامنے آگئی کہ وہ کون لوگ ہیں جنھیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ مظلوم انسانوں پر کیا بیت رہی ہے؟ اقتدار کے نشے میں مست ان لوگوں کو اپنی خودستائی اور مخالفین کی تضحیک  کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ یہ لوگ اس قدر بڑی تباہی پر لطیفے سناتے ہیں ، قہقہے لگاتے ہیں اور شور وغل مچاتے ہیں ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ایسی اوچھی حرکت کرنے والوں میں سرِ فہرست ملک کے وزیر اعظم کا نامِ نامی ہے۔  جیسا سپہ سالار ویسی ہی ان کی فوج  کا رویہ  تھا ۔ حیرت کا مقام ہے کہ اپنے  اقتدار کے خمار میں ان لوگوں نے تحریک کا جواب دینے کے لیے  کوئی علمی یا عملی تیاری  کی ہی نہیں ۔ اس کے برعکس  دوران اجلاس چھٹی کے دن  حزبِ اختلاف کے ارکانِ پارلیمان کا ایک وفد دو روز ہ  دورے پر دورافتادہ شمال مشرقی ریاست منی پور کا دورہ کیا  ۔ یہ اقدام دراصل اس حکمت عملی کا اہم ترین حصہ تھا جس پر حزب اختلاف بحث کرنا چاہتا تھا اور اس سے ماحول سازی بھی ہوگئی۔

 اس  دورے کا  ایک بنیادی  مقصد  زمینی صورت حال کا جائزہ  لے کرریاست میں تین ماہ  سے جاری تشدد کے خلاف کارروائی کے لیے مودی سرکار پر دباؤ ڈالنا تھا ۔’انڈیا‘ نامی اپوزیشن کے اس  نئے اتحاد میں شامل 15سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 20 پارلیمانی ارکان نے مانسون  اجلاس کے دوران تشدد زدہ ریاست  کا دورہ کرکے  تشدد اور خونریزی سے متاثر ہونے والے  ہزاروں بے گھر افراد کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا  ۔ ریاست کی راجدھانی امپھال پہنچنے کے بعد اس وفد کے ارکان  نے چورا چند پور ضلع کے  دو امدادی کیمپوں کا دورہ کیا اور نقلِ مکانی پر مجبور ہونے والے لوگوں کے علاوہ مقامی  رہنماؤں سے بھی  گفت و شنید کی۔ حزب اختلاف کے  وفد میں شامل کانگریس پارٹی کے رکن پارلیمان  ادھیر رنجن چودھری نے دورے کے بعد  کہا کہ منی پور میں تنازع تشدد کے پیمانے کی وجہ سے ایک عالمی مسئلہ بن گیا ہے۔

یہ وفد  مشکل کی اس گھڑی میں منی پور عوام کے ساتھ اظہارِ ہمدردی  کے لیے وہاں گیا تھا  اوراس کی اوّلین ترجیح جلد از جلد حالات کو معمول پر لانا تھا۔ارکان پارلیمان نے مذکورہ بالا اس مقصد کے حصول  کی خاطر    راحتی  کیمپوں میں متاثرین سے ملنے  کے بعد   اور دوسرے روز  امپھال کے اندر  راج بھون جاکر منی پور کی گورنر انوسویا اوئیکے سے بھی  ملاقات کی ۔ انڈیا نامی وفاق کے وفد  میں شامل  کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ادھیر رنجن چودھری نے  گورنر سے ملاقات کے بعد میڈیا کو بتایا کہ  ’’تمام 21؍ ارکان پارلیمنٹ نے گورنر کو مکتوب پیش کیا‘‘۔موصوف کے مطابق گورنر نے ان  لوگوں سے بات  چیت  کے دوران  خود اپنے درد اور دکھ کا  بھی اظہار کیا۔ اس دو روزہ دورے کے دوران وفد نے جو مشاہدہ کیا وہ اس سے متفق تھیں۔ گورنر نے مل  جل کر تمام برادریوں کے مشورے سے  مسئلہ  کا حل تلاش کرنے کا مشورہ دیا ۔ محترمہ انوسویا  نے اپوزیشن  کے ساتھ حکمراں پارٹی کے مشترکہ  کل جماعتی وفد کی تجویز پیش  کی تاکہ  لوگوں میں عدم اعتماد کے احساس کو دور کیا جاسکے۔ ادھیر رنجن چودھری نے بھی  گورنر کو  منی پور کی صورتحال کو معمول پر لانے  کے لیے سب کو مل کر کام کرنے کا مشورہ دیا۔   

یہ عجیب صورتحال تھی  کہ  بی جے پی کی گورنر اور اپوزیشن تو تعاون و اشتراک کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں مگر سرکار اس کے لیے تیار نہیں تھی ۔ اس کے لیے  ’انا‘ کی اہمیت عوام کے جان و مال سے زیادہ ہے۔ پچھلے ماہ  سونیا گاندھی کے بیان  نے  بڑی مشکل سے امیت شاہ کل جماعتی میٹنگ کے لیے راضی کیا تھا لیکن اس میں کوئی ٹھوس اقدام نہیں طے ہوا۔ اس نشست میں اگر مشترکہ وفد کا منصوبہ بنتا تو اس کی قیادت خو بی جے پی کرتی اور بہت اچھا پیغام جاتا مگر بے حس حکومت نے وہ موقع گنوادیا۔ وزیر داخلہ نےاپنے واحد دورے کے بعد  دورے کے بعد پندرہ دن بعد واپس جانے کا وعدہ کرکے آئے تھے مگر وہ کھوکھلا جمہ نکلا۔اس دورے سے   اپوزیشن کے وفد کے لیے  مرکزی اور ریاستی حکومت کی کوتاہیوں  کو اجاگر کرنے کا نادر موقع ہاتھ آ گیا۔ ادھیر رنجن نے مرکزی حکومت سے  بلا تاخیر  تحریک عدم اعتماد کو قبول کرنے اور منی پور مسئلہ پر بحث کرنے کی اپیل کردی۔ ان کے مطابق  صورتحال بگڑنے سے  قومی سلامتی کے خدشات بڑھ رہے تھے ۔اس مقصدکی خاطر  موقع ملنے پرایوانِ  پارلیمان میں مرکزی حکومت پر عوام کےمسائل  کو اٹھا  کر حکومت  دباؤ ڈالنے کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا۔

کانگریس رہنما جے رام رمیش نے گورنر کو پیش کیے گئے میمورنڈم کی  کاپی شیئر کرکے  ٹویٹ کیا کہ  ’’منی پوری عوام  کے غصے، پریشانی، درد، تکلیف اور دکھ سے وزیر اعظم کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ کروڑوں ہندوستانیوں پر اپنے ‘من کی بات’ مسلط کرنے میں مصروف ہیں، جبکہ ٹیم انڈیا کے 21 ؍ارکان پارلیمنٹ کے وفد نے منی پور کی گورنر سے ملاقات  کر کے انہیں مکتوب پیش کیا ۔‘‘ ریلیف کیمپ کی حالتِ زار بیان کرتے ہوئے کانگریس کی رکن پارلیمنٹ پھولو دیوی نیتام نے کہا کہ  ’’400-500 لوگ ایک ہال میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ریاستی حکومت انہیں صرف دال چاول فراہم کر رہی ہے، بچوں کو دن بھر کھانے کے لیے اور کچھ نہیں مل رہا ہے، نہ بیت الخلا اور نہ ہی باتھ روم کی سہولت۔  جئے رام رمیش نے بتایا کہ کیمپوں میں لوگ دل دہلا دینے والی کیفیت  میں  رہ رہے ہیں ۔  ان بیانات کے بعد منی پور کی  سنگین صورتحال کا جائزہ لے کر اس سےنمٹنے کی خاطر بی جے پی کو سرکاری یا پارٹی وفد وہاں بھیجنا چاہیے تھا لیکن اسے اس کی توفیق نہیں ہوئی ۔  اس سے یہ فرق پڑا کہ حزب اختلاف کی جانب سے بولنے والےکئی  رہنما چونکہ دورہ کرچکے تھے اس لیے اپنا مشاہدہ اور تجربہ بیان کررہے تھے جبکہ بی جے پی والوں کے پاس  غیر متعلق بکواس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں تھا۔

حزب اختلاف کے لیے بحث سے قبل راہل گاندھی کی رکنیت کا بحال ہوجانا  نہایت حوصلہ بخش  خوشخبری تھی۔ دوران بحث حزب اختلاف اپنی حکمت عملی بدل کر این ڈی اے کو جھٹکے پر جھٹکا دیتا رہا۔ راہل گاندھی کو پہلے دن کے بجائے دوسرے دن موقع دے کر ان لوگوں نے بی جے پی کی فیلڈنگ کو خاک ملا دیا۔ وہ صحیح معنیٰ میں گوگلی تھی اور بی جے پی کے اس اعتراض کا جواب تھا کہ کانگریس میں گاندھی خاندان کے سوا کسی کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ ملک ارجن کھرگے کا پارٹی صدر بنانا بھی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔  گورو گوگوئی کے اعتراضات اور سوالات نہایت  معقول تھے۔ نشی کانت  دوبے اس کے سامنے ٹک نہیں  سکے۔ راہل گاندھی نے بی جے پی کی قوم پرستی کو نشانہ بناتے ہوئے اسے بھارت ماتا کا قاتل قرار دے دیا ۔ اس سے آگے بڑھ کر راہل نے مودی کو راون کا ہم پلہ بنادیا ۔  امیت شاہ کے پاس ان کا کوئی جواب نہیں تھا اس لیے وہ  چاروں خانے چت ہوگئے۔امیت شاہ نے جب کہاکہ  نرسمھا راو اور منموہن نے دولت کے زور پر حکومت بچائی جبکہ اٹل بہاری نے اصول پر قائم رہتے ہوئے اقتدار کو گنوادیا تو لوگ پیٹ پکڑ کر ہنسنے لگے کیونکہ نو سالوں میں ای ڈی کے خوف اور رشوت کی مدد سے خود امیت شاہ نو ریاستی سرکاریں گرا چکے ہیں۔

وزیر داخلہ  نے راہل گاندھی  کو بدنام کرنے کے لیے کلاوتی کا حوالہ دیا اور اسے بندیل کھنڈ کی بتایا جبکہ وہ امراوتی کی خاتون ہے۔  کلاوتی کے  ویڈیو پر اعتراف   نے وزیر داخلہ کو پوری طرح برہنہ کردیا اور سنسد ٹی وی نے  اس ویڈیوبنالی ۔ اب امیت شاہ کا یہ جھوٹ اور کلاوتی کے ذریعہ اس جواب راہل نے تو ان کی مدد کی مگر مودی سرکار نے کچھ نہیں کیا  ان کا پیچھا کرتا رہے گا۔    امیت شاہ کو لگنے والے   اس جھٹکے سے اپنی پارٹی کو ابھارنے کے لیے سمرتی ایرانی کو ایک فرضی بوسے کا سہارا کے کر عوام کی توجہ  بھٹکانے پر مجبور ہونا پڑا لیکن وہ داوں بھی الٹا پڑگیا ۔ ہرکوئی سوال کرنے لگا کہ خواتین و اطفال کے فلاح و بہبود کی وزیر کو اپنے پیچھے بیٹھنے والا برج بھوشن سرن سنگھ نظر کیوں نہیں آتا ؟ وہ بلقیس بانو  پر مظالم ڈھانے والوں کی رہائی پر کیوں خاموش رہتی ہیں اور ہاتھرس کی بیٹی پر کیوں کچھ نہیں بولتیں ؟ اس طرح وہ بوسے کا جھوٹ ایک کرارہ طمانچہ بن گیا۔  بھارتیہ جنتا پارٹی کے لوگ اگر منی پور میں امن کی بحالی کے لیے کوئی ٹھوس اقدام کرتے؟ وہاں جاکر مظلوموں کے آنسو پونچھتے  تو ان پر اس طرح جھوٹی کہانیاں سنا کر  بیجا الزامات لگانے کی نوبت نہیں آتی۔ سچ تو یہ ہے کہ وزیر داخلہ اور ان کے فوج کی  بیجا خود اعتمادی    اور تکبر نے انہیں ذلیل کردیا ۔ راہل نے صحیح کہا راون کو رام نے نہیں اس کے غرور نے مارا۔ مودی جن کی مدد سے یہ جنگ جیتنا چاہتے تھے انہیں کی حماقتوں سے وہ ایوان میں کامیاب تو کامیاب ہوئے مگر عوام کی نظر میں ہار گئے  ان لوگوں پر مہتاب رائے تاباں کا یہ شعر صادق آتا ہے؎

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے                    اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

(۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)

Comments are closed.