منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک

ڈاکٹر عابد الرحمن (چاندور بسوہ)
چیتن سنگھ نے جن لوگوں پر فائرنگ کی ان میں سے کم از کم ایک شہید اپنے پہناوے اور شباہت سے واضح طور پر شیعہ لگ رہے ہیں۔ ہم میں شیعہ اور سنی اتنے الگ ہیں کہ غیر وں کو بھی پہچاننے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی اور شاید چیتن سنگھ نے بھی بآسانی پہچان لیا ہوگا کہ وہ جن پر فائرنگ کررہا ہے ان میں شیعہ بھی ہے اور سنی بھی لیکن اس نے فائرنگ اس لئے کی کہ بقول خود اس کا مقصد مسلمانوں کو مارنا تھا یعنی وہ شیعہ سنی اور مسلمانوں کے باہم شدید اختلاف کرنے والے اور ایک دوسرے کو اسلام سے خارج اور دشمن قرار دینے والے فرقوں اور جماعتوں سب کو مسلمان ہی سمجھتا ہے۔ اور ہمارے متعلق یہی نظریہ چیتن سنگھ کی سی ذہنیت رکھنے والے ان سارے مخالفین کا بھی ہے جنہوں نے ہمارے خلاف منصوبہ سازی کی ہے جنہوں نے اکثریت کے اذہان میں ہمارے خلاف نفرت بھری ہے جو عوام کو ہمارے خلاف بھڑکاتے ہیں اور ان کی بھی جو اس بھڑکانے پر ہمارے خلاف نعرے بازی سے لے کر مارکاٹ تک کرتے ہیں ہمارے جوانوں کی لنچنگ کرتے ہیں۔ اور ان لوگوں کا بھی ہمارے متعلق یہی نظریہ ہے جو ہمارے خلاف قانون سازی کررہے ہیں اور قانون کا غیر واجبی استعمال بھی کررہے ہیں بھلے ہی وہ ہمیں شیعہ سنی صوفی اور وہابی میں بانٹ کر کسی کو سیاسی اسلام کسی کو قدامت پرست اور متشدد اسلام اور کسی کو وطن دوست اسلام قرار دے رہے ہوں لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ ہم سب کو مجموعی طورر پر دشمن سمجھتے ہیں، ہم بلا تفریق مسلک و جماعت ان کے نشانے پر ہیں اور جب کسی ورغلائے ہوئے کی ذہنی حالت بگڑتی ہے یا جب کبھی کہیں ہمارے خلاف فساد برپا کیا جاتا ہے تو اس میں کسی سنی و صوفی مسلم سے رعایت کی جاتی ہے اور نہ کسی شیعہ مسلم سے۔ اسی طرح وہ بھی ان کی نظر میں دشمن ہی ہیں جو سماجی تنظیمی یا سیاسی طور پر کھلے یا چھپے ان سے جڑے ہوئے ہیں یا جو اپنے کسی قسم کے مفادکے لئے ان کی چمچہ گری کرتے ہیں مسلمانوں کے خلاف ان کے اقدامات کو خوش کن بنا کر پیش کرتے ہیں۔ یا جو ان کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے یا اپنے آپ کو مسلمانوں سے الگ ظاہر کرنے کے لئے قرآن و سنت اور مسلم اقدار کے متعلق دریدہ دہنی کرتے ہیں لیکن یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ ایسے لوگ اگر اسلام کو چھوڑ بھی دیں یا ہندو بھی ہوجائیں تو ان کی دوستی نہیں حاصل کرسکتے ۔ خبر ہے کہ ابھی ہریانہ میں فسادات کے بعد وہاں کے تین ضلعوں کی زائد از پچاس پنچایتوں نے مسلم تاجروں کو اپنے گاؤوں میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے ایک مکتوب جاری کیا ہے نیز ان گاؤوں میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے لازمی قرار دیا ہے کہ وہ اپنے کاغذات پولس کے پاس جمع کروادیں۔ یہ مکتوب مسلمانوں کے خلاف عام ہے اس میں مسلمانوں کے کسی فرقے جماعت یا گروہ کو کوئی رعایت نہیں دی گئی ہے ، ان گاؤں میں مسلمان رہتے ہیں تو وہاں ایسے بھی ضرور ہوں گے جو کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے جڑے ہوئے ہوں گے یاان پارٹیوں میں بھی ضرور ہوں گے جن کو یہ مکتوب جاری کرنے والے اپنی پارٹی سمجھتے ہوں گے لیکن انہیںبھی کوئی رعایت نہیں دی گئی۔ سو ان حالات میں بھی اگر ہم متحد نہیں ہوتے اور اس مسلسل بگڑتی ہوئی صورت حال سے نمٹنے کے لئے کوئی لائحہء عمل ترتیب نہیں دیتے تو شاید ہم سے بڑا احمق روئے زمین پر کوئی نہیں۔

Comments are closed.