ملک میں ایک سچی ہندو خاتون نے کھولی محبت کی دکان

جاوید جمال الدین
ملک کے موجودہ حالات انتہائی دل برداشتہ ہیں اور اس کااظہار جامع مسجد کے شاہی امام سید احمد بخاری نے کیا ہے،بلکہ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ سے اپیل بھی کی ہےکہ وہ اپنی مداخلت کے ذریعے ملک میں جاری تشدد اور منافرت کے ماحول کو ختم کرائیں۔
جس ملک میں منافرت اور تشددکا ماحول اس قدر پھیل جائے کہ وہاں کے لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہونے لگ جائیں، وہ ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتا اور وہاں کی جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ امام بخاری نے منی پور، ہریانہ کے نوح ، گڑگاوں اور مہاراشٹرمیں ٹرین کے اندر اجتماعی قتل کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی اپیل کی ہے کہ وہ اس بات کی پہل کریں کہ ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور تشدد پیدا کرنے والے لوگوں کے مذہبی رہنماوں کو ایک ساتھ بٹھا کر ان کے درمیان مفاہمت پیدا کر کے اس خوفناک ماحول سے ملک کے عوام کو نجات دلائیں۔
میں شاہی امام کی مذکورہ اپیل سے متفق ہوں کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے اسلاف نے اپنی جانوں کی قربانی دی اور اس کا مقصدملک کو آزاد رکھنے کے ساتھ ساتھ ہمارا مستقبل محفوظ کرنا تھا اور ہماری آئندہ نسل کا مستقبل محفوظ نظر آئے۔
ملک سیکولر، اس کا آئین سیکولر اور اس میں رہنے والے لوگ سیکولر ہیں ۔ مگر مٹھی بھر لوگ ایسے ہیں،جنہوں نے ملک کے سیکولر تانے بانے کو بکھیر کر اس میں زہر گھول دیا ہے۔
مودی دنیا بھرمیں مسلم ممالک سے پینگیں بڑھانے کا کام کرہے ہیں اور دبئی اور مصر جیسے ممالک انہیں اعزاز سے بھی نواز رہے ہیں لیکن ان کی کوشش کبھی ایسی نہیں رہی کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے حالات پر غور کریں جبکہ جن ملکوں سے دوستانہ تعلقات استوار کررہے ہیں،ان۔ملکوں میںسبھی مذاہبِ کے لوگ جن میں ہندو مسلم سکھ ، عیسائی وغیرہ شامل ہیں اورایک دوسرے کے ہمراہ کاروبار، ملازمتیں ، لین دین اور کھان پان کرتے ہیں اور اپنے مذہبی عقائد پر آزادی سے عمل بھی کرتے ہیں۔ اور کسی طرح کا خوف صدر نہیں ہے،مگر ہندوستان میں ہر کوئی پریشان حال نظر آرہاہے۔
منی پور سے لیکر آسام تک سنگین صورتحال ہے۔آسام کا بے لگام وزیراعلی سرما برابری اور غیر جانبداری کا حلف لینے کے باوجود ایک مخصوص فرقے کے خلاف زہر اگلتا ہےاور اعلیٰ لیڈرشپ کوئی ڈانٹ ڈپٹ کے بجائے خاموش تماشائی بن جاتی ہے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ چند برس سے ہندوستانی انتظامیہ اور برسر اقتدار بھگوا دھاری گروہ سرگرم عمل ہے اور اسرائیل کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور جس انداز میں اسرائیلی حکام کی حکومت فلسطینی علاقوں پر راکٹ مارکر اور بم برسانے کے ساتھ ان کے گھروں کو بلڈوزرچلاکرمسمار کررہے ہیں ،یہی اسٹائل پہلے اتر پردیش میں یوگی نےیہ پہلے کیات ،آسام کے میں سرما ،مدھیہ پردیش کے ماما جی یعنی شیوراج سنگھ چوان نے اس طریقہ کو اپنالیا۔اس کڑی میں ہریانہ کے وزیراعلی بھی شامل ہوگئے جن کے بلڈوزرں نے ایک دو نہیں بلکہ چھ سات سو جھونپڑوں کو زمین بوس کردیاہے۔وہ تو بھلا ہو ہریانہ اور پنجاب ہائی کورٹ کا کہ ازخودقدم اٹھاکر عدالت نے اس غیر انسانی حرکت پر اسٹے لگا ہے،ورنہ ظالم حکمراں نوح س ظلم اور بربریت کا کھل ننگا ناچ ناچ رہے ہیں۔
نوح،منی پور اور دیگر علاقوں تشدد اور منافرت کا بازار گرم ہے۔اا کے باوجود میں ناامید نہیں ہوں،کیونکہ ہریانہ میں جب شرپسندوں نے اقلیتی فرقے کو نشانہ بنایا اور ان کے گھر اور دکانیں برباد اور نذرآتش کردی۔ اوراسی ملبہ اور راکھ سے ایک ہندوخاتون بلاخوفوخطر باہر نکل کرنہ صرف ایک مسلمان ضعیف کی دکان دوبارہ بنواتی ہے بلکہ اس کا سامان دکان میں بھروادیتی ہے۔ہریانہ کے تشدد میں ہندواور مسلمان ایک دوسرے کو بچاتے اور مدد کرتے نظرآئے ہیں۔اصل محبت کی دکان جس کا اعلان راہل گاندھی نے کیا ہے،سن خاتون جیسے لوگوں نے کھولی ہے۔لیکن منی پور پر زمین آسمان ایک کردینے والی کانگریس اور اپوزیشن لیڈر شپ ہریانہ کے تشدد پر منہ بند کیے ہوئے ہیں۔پھر وہ وہ کس محبت کی دکان کی بات کرتے ہیں،میں محبت کی دکان اور مکان بنانے کے حق میں ہوں ،لیکن اس دوڑ میں سب کا خیال رکھتے ہوئے سبھی کو شامل کرنا چاہئیے تب ہی بہتر نتائج سامنے آئیں گے ،ورنہ یہ نعرہ بھی کھوکھلا ثابت ہوجائے گا۔
Comments are closed.