ایمرجنسی 2014-2019

از:مدثراحمد
ایڈیٹر روزنامہ آج کاانقلاب،شیموگہ،کرناٹک:9986437327
1975 میں آنجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ملک پر اپنا کنٹرول حاصل کرنے اور ملک کے نظم و نسق کو درست کرنے کے نام پر ایمرجنسی کا اعلان کردیا تھا اور اس ایمر جنسی میں کیا کچھ ہوا اسکی تفصیلا ت ہمیں زیادہ تو معلوم نہیں البتہ کتابوں میں جومختصر تعریف ملتی ہے اس سے یہ بات تو طئے ہے کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد ملک پھر ایک دفعہ ہندوستانی حکمرانوں کا غلام بن چکا تھا اور قریب 18 مہینوں کے مختصر عرصے میں ہندوستانیوں کو غلاموں کی طرح زندگی گزار نی پڑی تھی ۔ 1975سے 1977 تک کی میعاد میں ہندوستانیوں نے مشکل ترین ایام گزارے تھے خاص طورپر مسلمانوں کو کافی مشکلات کاسامناکرناپڑا تھا کیونکہ اندراگاندھی نے ایمرجنسی کے نام پر مسلمانوں سے انکے بنیادی حقوق چھین لئے تھے اور نسبندی کے قانون کو عمل میں لاکر لاکھوں مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کیا تھا ۔ 18 مہینوں کے اعلانیہ ایمرجنسی پیریڈ نے طانا شاہی کے وہ تمام زاویہ ہندوستانیوں کے سامنے پیش کیے جسے ہٹلر نے جرمنی میں نافذ کیا تھا ۔
آج ہندوستان پھر ایک دفعہ ایمرجنسی دورسے گزر رہاہے اور یہ ایمرجنسی اندرا کے ایمرجنسی دور کی طرح اعلانیہ نہیں ہے بلکہ غیر اعلانیہ ایمرجنسی پیریڈ یعنی Undeclared Emergency Periodملک پر نافذ ہوچکاہے اور اس غیر اعلانیہ ایمرجنسی پیریڈ کو عام لوگ محسوس نہیں کررہے ہیں ، محسوس کریں تو بھی کیسے ؟ کیونکہ موجود بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے عام ہندوستانیوں کو اچھے دن کی بات کرتے ہوئے انکے ذہنوں کو ہپناٹائز اور ہائی جیک کردیاہے لیکن ان اچھے دنوں کی آڑ میں ہر ہندوستانی کے بنیادی حقو ق کو چھین لیا گیا ہے یا پھر چھینا جارہاہے ۔ ہندوستان 1975 کے ایمرجنسی پیریڈ کے بعد پھر ایک دفعہ 2014 سے 2019 تک کی ایمرجنسی کے دور میں ہے ۔مگر اندرا گاندھی کے ایمرجنسی دور اور موجود ہ ایمرجنسی دور میں کئی تبدیلیاں ہیں جو بظاہر عام لوگوں کو معمولی نظر آرہی ہیں لیکن یہ ہندوستان کے جمہوری نظام کے لئے خطرناک ہے اور اس کے مضر اثرات فی الوقت ظاہر تو ہورہے ہیں لیکن اسکے حل کےلئے اپوزیشن سیاسی جماعتیں سمیت ملک کی عدلیہ ، انتظامیہ اور میڈیا تینوں ہی ناکام ہوچکے ہیں ۔ عدلیہ و انتظامیہ پر ایسے لوگ مسلط ہوچکے ہیں جو خود بھی ہندوستان کو فاشزم کی راہ میں لے جانا چاہتے ہیں اور رہی بات میڈیاکی تو وہ حقائق کو جانتے ہوئے بھی محض پیڈ نیوز کے قائل ہوچکے ہیں اور ان تینوں شعبوں کو ہندوستان کے جمہوری نظام کی بقاء، انسانی حقوق ، اقلیتوں ، پسماندہ طبقات اور دلتوں کے تحفظ کی کوئی فکر نہیں ہے ۔
سال2014 میں ہندوستان پر حکومت کرنے کیلئے منتخب ہونے والی بی جے پی جب سے اقتدار پرآئی ہے اس روز سے ہندوستان کے حالات روز بروز بدلتے جارہے ہیں۔جمہوریت کاکھلے عام مذاق اڑ رہا ہے۔جس ملک کی بنیادیں جمہوریت اور حقوق انسانی پر مبنی ہیں،اُس ملک میں جمہوریت کا کھلا مذاق اڑایا جارہا ہے۔بی جے پی جوآر ایس ایس کی سیاسی جماعت ہے اور آر ایس ایس ایک ہندو شدت پسند تنظیم ہے،اس تنظیم کا ایجنڈا ہی ملک سے سیکولرزم کو ختم کرتے ہوئے ہندتوا کو نافذ کرنا ہے،اسی ایجنڈے کے مطابق آج ابتدائی مرحلے میں ہندوستانیوں کے بنیادی حقو ق چھینے جارہے ہیں۔نوٹ بندی کے ذریعے سے ہندوستان کی معیشت کو کھوکھلا تو کردیا گیا ہے اور یہاں کی عوام کو اس بات کو سوچنے پر مجبور کردیا گیا ہے کہ حکومت چاہے تو کچھ بھی کرسکتی ہے اور اس کے قوانین پارلیمنٹ یا عدالتوں کے منتظر نہیں ہوتے بلکہ وہ راتوں رات کہیں بھی بیٹھ کر اپنے قوانین کو ہندوستانیوں پر نافذ کرسکتے ہیں۔اسی طرح سے ملک میں لوجہاد،گاؤکشی،مساجدو مدارس کے نام پر یہاں کے اقلیتی مسلمانوں کو کمزور کرنا حکومت کا ایجنڈا بن چکا ہے اور انہیںایجنڈو کوسامنے رکھتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں میں دہشت و خوف کاماحول پیدا کررکھا ہے۔پچھلے چارسالوں سے ہندوستان میں سینکڑوں مسلمانوں کو محض گاؤکشی کے نا م پر موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے،جبکہ اس سے کہیں زیادہ مسلمانوں کو اسی گاؤکشی کے مدعے پر ہی ظلم سہنے پڑے ہیں۔بیف کے نام پر نہ صرف مسلمان متاثر ہورہے ہیں بلکہ دلت و پسماندہ طبقات بھی اس کی آگ میں جل رہے ہیں۔عا م ہندوستانیوںسے اظہار ِحق کو چھینا جارہا ہے تاکہ کوئی اس ظالم حکومت کے خلاف آواز بلند نہ کرسکے،اگر کوئی مسلمان اس تانا شا حکومت کے خلاف آواز بلندکرتا ہے تو وہ ٹریریسٹ کہلا رہا ہے اور کوئی دلت حکومت کی پالیسیوں پر آوازبلند کرتا ہے تو اسے نکسالائٹ کی فہرست سے جوڑ دیا جاتا ہے،یعنی کہ کوئی حکومت کے خلاف کچھ بیان بازی ہی نہ کرے اورحکومت کے سامنے حب الوطنی کا ثبوت پیش کرنا ہو تو اس کیلئے حکومت کی تاریخ گن گانے ہونگے یا پھر خاموشی اختیا رکرنی ہوگی،جوچپ رہا وہی دیش بھگت کہلا رہا ہے اور جس نے آواز اٹھائی وہ غدار کہلاتا ہے۔اندراگاندھی نے تو اپنے ایمرجنسی کے وقت میںصرف ملک کی ترقی کا حوالہ دیتے ہوئے ہندوستانیوں کے بنیادی حقو کو سلب کرلئے تھے،لیکن بی جے پی کی حکومت نے ہندوستانیوں کے بنیادی حقوق صرف اور صرف اپنی فاشسٹ پالیسیوں کو نافذ کرنے کیلئے چھین رہی ہے۔اس ایمرجنسی کے دورمیں نہ صرف عوام اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہورہی ہے بلکہ ہندوستان کی معیشت اور اقتصادیات بھی بُری طرح سے متاثر ہورہی ہے۔بی جے پی حکومت نے اقتدار پر آنے کے بعد ہندوستان کی معیشت کومضبوط کرنے کیلئے کالے دھن کو بیرونی ممالک سے واپس لانے کا اعلان کیا تھا،لیکن کالا دھن تو واپس نہیں آیا ہے ،پر ہندوستان کی عوام کے پاس اپنی گاڑھی کمائیاںحکومت کودینے پر مجبو ر ہوگئی ہیں۔مختلف قسم کے ٹیکسوں کو نافذ کرتے ہوئے حکومت عوام کوکھلے عام لوٹ رہی ہے۔ملک میں نفسی نفسی کا عالم ہے لیکن بی جے پی حکومت اس سب کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی پالیسیوں کو زبردستی نافذ کرنے اٹل فیصلہ لے رہی ہے،جس سے یہ بات واضح ہے کہ بی جے پی کو عوام کی نہیں بلکہ اپنی پالیسیوں کی زیادہ فکر ہے۔بی جے پی کے اس ایمرجنسی پیریڈ میں سب سے زیادہ حقوق انسانی کی پامالی ہورہی ہے،ہر وقت کسی نہ کسی شکل میں بی جے پی انسانوںکی موت کا فرمان جاری کررہی ہے۔
حب الوطنی کا سوال پیدا کرتے ہوئے آج بی جے پی حکومت اس قدر اپنی فاشسٹ سوچ کو عام ہندوستانیوں پر ٹھوکنے کی کوشش کررہی ہے کہ اس سے اس کا جواب دینا عام ہندوستانیوںکیلئے مشکل ہوگیا ہے۔پہلے وہ مساجد ومدارس کو کھلے عام شہید کردیا کرتے تھے،لیکن اب عمارتوں کوبچا کر وہاں پیدا ہونے والی فکروں کو ختم کرنے کی سازش کررہے ہیں۔حال ہی میں اتر پردیش کی حکومت نے مدارس اسلامیہ میں زیر تعلیم طلباءکو آر ٹی ای کا حوالہ دیتے ہوئے مدارس سے نکال کر عصری تعلیم کے مدارس میں داخلہ دلوانے کافرمان جاری کیا ہے۔ابھی یہ فرمان مسلم دانشوران کے درمیان زیر بحث تھا ہی کہ اور ایک فرمان جاری ہواکہ مدارس اسلامیہ میں ہندوستان کی یوم آزادی کے موقع پر پرچم کشائی کی تقاریب منعقد ہوتی ہے یا نہیں؟اسے ظاہر کرنے کیلئے ہر مدرسے میں ویڈیو گرافی کی جائے۔اس سے قبل شادی کے رجسٹریشن کو لازمی قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو بھی اپنی شادیوں کا رجسٹریشن کروانے کا حکم دیا گیا ہے۔اندراگاندھی کے ایمرجنسی پیریڈ اور بی جے پی کے ایمرجنسی پیریڈ میں بس یہی فرق ہے کہ اندراگاندھی نے زبردستی مسلمانوں کی نسبندیاں کروائی تھیں اور آج بی جے پی حکومت مدارس ومساجد پر لگام کستے ہوئے دینی افکارکی نسبندی کرنے کی کوشش کررہی ہے۔موجودہ وقت میں ہندوستانی مسلمانوں کو اپنے تحفظ کیلئے پھر ایک تحریک شروع کرنے کی ضرورت ہے اور یہ تحریک غدر اور تحریک ریشمی رومال سے بڑی تحریک ہونی چاہےے۔جس طرح سے1942 میں کوئٹ انڈیا مونٹ کی شروعات ہوئی تھی ،اسی طرح سے آج ہندوستانی مسلمان بی جے پی حکومت کو اقتدار چھوڑنے کیلئے کوئٹ انڈیا مومنٹ شروع کرتے ہیں تو یقینا اس ملک کی سالمیت بحال رہے گی اور آنے والی نسلیں ہندوستان میں بلاخوف و دہشت کے زندگیاں گذارسکیں گے۔
Comments are closed.