نظر آتا ہے اب کچھ اورہی رنگ جہاں ساقی

 

از ۔ محمدشاہد الناصری الحنفی

مدیر ادارہ دعوۃ السنتہ ویلفیرٹرسٹ کاندیولی ممبئ

 

برصغیر کے ممتاز اور روشن ضمیر عالم دین بلند پایہ مفکر اور عظیم داعی حضرت مولانا سید ابوالاعلی مودودی علیہ الرحمتہ نے ۲۵/دسمبر 1947ء کو (انجمن)اتحاد المسلمین حیدر آباد دکن کے قائدین کے نام ایک مکتوب (خط) تحریر فرمایا تھا، یہ مکتوب مولانا مرحوم کی علمی و فکری بلندی،سیاسی بصیرت اور بر عظیم کے حالات پر ان کی گرفت کا آئینہ دار ہے ۔ان کے تجزیے کے ایک حصہ کامتن بلاتبصرہ ممتاز ومشہور مخلص زودنویس محبی فی اللہ حضرت مولانا محمد قمرالزمان ندوی استاذ مدرسہ نورالاسلام کنڈہ پرتابگڑھ کے مضمون سے مستعار لے کر ملت اسلامیہ کے ارباب فکرودانش کی بصارتوں کے حوالہ کررہاہوں کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے فااعتبرو یااولی الابصار ۔

مولانا مرحوم نے جو مفید اور انتہائی اہم اور قیمتی مشورے اس وقت کی حیدر آباد کی مسلم حکومت و قیادت کو دئیے تھے ،ان کو اس قیادت نے در خور اعتنا نہ سمجھا (توجہ کے لائق نہیں سمجھا ) اور چند ماہ بعد ہی سلطنت آصفیہ (آصف جاہی) کی پوری عمارت دھڑام سے زمین دوز ہوگئ ۔

مولانا مرحوم لکھتے ہیں :

” ہندوستان کے مسلمانوں نے ابھی ابھی اپنا جو انجام دیکھا ہے اور دیکھ رہے ہیں، وہ در اصل خمیازہ ہے ،ان کوتاہیوں کا جو پچھلی صدیوں میں ہمارے حکمران ،ہمارے امراء ،ہمارے مذہبی پیشواؤں کا ایک بڑا گروہ اور باستثنا چند ،ہمارے عام اہل ملت اپنے اس فرض کی ادائی میں برتتے رہے ہیں،جو مسلمانوں کی حیثیت سے ان پر عائد تھا ۔ اگر وہ اسلام کی صحیح نمائندگی کرتے،اگر وہ اپنے اخلاق اور معاملات اور اپنی سیرتوں میں اسلام کا صحیح نمونہ پیش کرتے، اور اگر اپنی سیاست اور حکمرانی میں عدل و انصاف پر قائم رہتے ،اور اپنی طاقتوں کو اسلام کی سچائی پھیلانے میں صرف کرتے تو آج دہلی اور مغربی یوپی اور مشرقی پنجاب سے مسلمان اس طرح بیک بیتی و دو گوش نہ نکال دئے جاتے، جیسے اس وقت نکالے گئے ہیں، اور یوپی ،بہار اور وسط ہند میں ان کے سر پر اس طرح تباہی منڈلا رہی نہ ہوتی ، جیسی آج منڈلا رہی ہے ۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں سات آٹھ سو سال تک مسلمانوں کا اقتدار رہا ہے،جہاں مسلمانوں کی بڑی بڑی عظیم الشان جاگیریں ،حیدر آباد کی پائے گاہوں سے کئی کئی زیادہ بڑی جاگیریں قائم رہی ہیں اور جہاں مسلمانوں کی تہذیب اور ان کے علوم و فنون کے عظیم الشان مرکز موجود رہے ہیں ۔ لیکن عیش دنیا میں انہماک، فوجی طاقت اور سیاسی اقتدار پر انحصار ،اسلام کی دعوت پھیلانے سے تغافل اور انفرادی سیرتوں اور اجتماعی طرز عمل میں اسلام کے اخلاقی اصولوں سے انحراف کا یہ نتیجہ ہوا ،کہ ان علاقوں کی عام آبادی غیر مسلم رہی ،مسلمان ان کے درمیان آٹے میں نمک کے برابر رہے اور دلوں کو مسخر کرنے کی بجائے معاشی اور سیاسی دباؤ سے گردنیں اپنے سامنے جھکوانے پر اکتفا کرتے رہے ۔ پھر جب سیاسی اقتدار ان سے چھنا اور ایک غیر ملکی قوم ان پر مسلط ہوئی ،تب بھی انھوں نے اور ان کے رہنماؤں نے ان اسباب کو سمجھنے کی کوشش نہ کی،جن کی بنا پر وہ حاکم سے محکوم بن کر رہ گئے تھے،بلکہ انہوں نے غیر ملکی حکمرانوں کے بل پر جینے کی کوشش کی اور اپنے سیاسی مطالبے اور دعوے کو ہمسایہ اکثریت کے مقابلے میں اس تیسری طاقت سے،جس کے اقتدار کو بہر حال عارضی ہی ہونا تھا ،منواتے رہے ۔ اس تمام مدت میں زندگی کی جو مہلت مسلمانوں کو ملی تھی ،اس میں اپنی اخلاقی اصلاح کرنے اور اپنے بزرگوں کی غلطیوں کی تلافی کرنے کے بجائے ، مسلمان محض معاشی اور سیاسی فائدوں کے لئے غیر مسلم اکثریت کے ساتھ کشمکش کرکے بظاہر یہ سمجھتے رہے ، کہ وہ اپنے جینے کا سامان کر رہے ہیں، لیکن در اصل اپنی قبر کھود رہے تھے ۔ آخر کار آج ہماری بد قسمت آنکھوں نے دیکھ لیا کہ بہت سے اس قبر میں دفن ہوگئے اور بہت سے زندہ درگور ہیں ” ( ترجمان القرآن جون ۱۹۹۶ ء)

Comments are closed.