گلزار احمد اعظمی: ہے بوریا اداس کہ سلطاں چلا گیا

دانش ریاض،معیشت،ممبئی
ممبئی کے مرین لائن قبرستان میں یوں تو کئی ہستیاں زیر خاک ہیں لیکن کل جس نے 91برس کی عمر گذار کر بڑے قبرستان میں اپنی ابدی جگہ محفوظ کی اسے دنیا گلزار احمد اعظمی کے نام سے جانتی ہے۔ گلزار احمد اعظمی نہ مولوی تھے اور نہ ہی علمی دسترس کا استحقاق رکھتے تھے لیکن ہزاروں مولوی اور علمی دسترس رکھنے والے ان کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کرنا اپنی سعادت سمجھتے تھے۔ گورا رنگ،درمیانہ قد، لنگی،کرتا اور اصلاحی ٹوپی پہنے وہ صبح دس بجے سے دیر شام تک جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے دفتر میں بیٹھے رہتے اور پھر مغرب بعد سے عشاء تک صابو صدیق اسپتال کے سامنے پتنگ کی دکان پر موجود رہتے۔جب میں ممبئی آیا اور ابتدائی دنوں میں ان کو قریب سے دیکھاتو مجھے سمجھ نہیں آیا کہ آخر یہ کرتے کیا ہیں۔چونکہ بھنڈی بازار میں میں ان کے دفتر کا پڑوسی تھا اور صبح سے شام تک ان کے معمولات کو دیکھتا رہتا تھا لہذا ایک دن میں نے اپنے محسن و مربی مرحوم ہارون موزہ والا صاحب سے پوچھا کہ ’’چاچاگلزار صاحب پائجامہ کب پہنتے ہیں ؟‘‘ چاچا نے کہا کہ جب بھنڈی بازار سے باہر جانا ہو یا کسی منسٹر یا کمشنر سے ملاقات ہو تو گلزار صاحب پائجامہ پہنتے ہیں‘‘۔ لہذا جب کبھی صبح انہیںپائجامہ پہنے دیکھتا تو میں شام کو پتنگ کی دکان پر ایک اسٹول لےکر بیٹھ جاتا ،سلام دعا کے بعد جب دن کی کارگذاری پر کوئی سوال پوچھتا تو معلوم ہوتا کہ آج سواری کہاں گئی تھی۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب مولانا محمود اسعد مدنی نے جمعیۃ علماء ہند پر شب خون مارا تھااورذاتی جاہ و منصب کے حصول کےلئے اسے دودھڑوں میں تقسیم کردیاتھا تو ممبئی میں جن لوگوں کو سب سے زیادہ فکر منداور محمود مدنی کے خلاف مشتعل دیکھا ان میں سر فہرست گلزار احمد اعظمی ہی تھے۔یہ انہیں دنوں کی بات ہے کہ جب جمعیۃ علماء کی تقسیم پر میں نے ممبئی کے ایک روزنامہ میں مضمون لکھا اور محمود مدنی جن ہاتھوں کا کھلونا بنے ہوئے ہیں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کے آقائوں کے چہرہ سے پردہ اٹھایاتھا تو گلزار احمد اعظمی صاحب نے دفتر فون کرکے مجھے اپنےآفس بلوایا اور کہا کہ جو کچھ تم نے لکھا ہے اس کی دلیل کیا ہے؟
میں نے تفصیلاً جب تمام نکات کو بیان کیا تو کہنے لگے کہ تم ایک مضمون اور لکھو اور ان پوائنٹس کو بھی ڈالو جو میں تمہیں بتاتا ہوں۔دفتر آکر میں نے ان کے پوائنٹس کی روشنی میں دوسرا مضمون تحریر کرنے کا آغاز ہی کیا تھا کہ اس وقت کے سینئر رپورٹر جو اب اخبار کے ایڈیٹر بھی بن چکے ہیں مجھے کام کرتا دیکھ پوچھنے لگے کہ’’ کیا کر رہےہو‘‘۔ میںنے ان سے کہا کہ میں کیا لکھ رہا ہوں ۔کہنے لگے ،’’مت لکھو ،کوئی فائدہ نہیں ہے ،ڈیل ہوچکی ہے ۔تمہارے مضمون کے خلاف میرا مضمون شائع ہونے جا رہا ہے‘‘۔ اور جب دوسرے روز ان کا مضمون شائع ہوا تو میں مذکورہ اخبار کے ساتھ گلزار احمد اعظمی صاحب کے پاس بیٹھا تھا۔ ان کا غصہ آسمان چھو رہا تھا کہنے لگے ’’بتائو !یہ ملت کے سرمایہ کی بربادی نہیں ہے ،یہ لوگ کیا منہ دکھائیں گےــ‘‘۔
جب میں نے خاص فکر کے تحت معیشت میڈیا ڈائریکٹری اردو زبان میں تیار کی تو سوائے گلزار اعظمی صاحب کے کوئی اوراس کا خریدار نہیں تھا۔موصوف نے دس کاپیاں یہ کہتے ہوئے خریدیں کہ ’’تم نے بڑی محنت کی ہے۔یہ بڑا کام ہے لیکن لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئے گا ،فی الحال مجھے دس کاپیاں دے دو،میں اپنے دوسرےدفاتر میں بھی بھیجوا دیتا ہوں‘‘ ۔
جب میرے اوپر سرکاری افتاد پڑی اور لمبے عرصہ کے بعد ان سے ملاقات ہوئی تو میرے قانونی معاملات پر استفسار کیا اور جب میں نے اطمینان کا اظہار کیا اور اپنے محسن ایڈوکیٹوں کے بارے میں بتایا تو کہنے لگے کہ’’یہ خدا کا شکر ہے کہ تمہیں تم سے محبت کرنے والے وکلاء مل گئے جو بغیر کسی فیس کے مطالبہ کے تمہارے معاملات دیکھ رہے ہیں ویسے جب کبھی ضرورت محسوس ہوکہ تمہیں ہمارے وکلاء کی ضرورت ہے تو بس ایک عرضی لکھ کر دے دینا ان شاء اللہ ہم تمہارا ساتھ دیں گے‘‘۔جب کانگریس کا دور دورہ تھا اور کانگریسی وزراء جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے دفتر کا چکر کاٹا کرتے تھے ۔میں نے ایک روز کہا کہ ’’حکومت کانگریس کی ہے اور اسی حکومت میں بے گناہ مسلم نوجوانوں کو پابند سلاسل کیا جارہا ہے ۔آپ لوگ ان سے دوٹوک بات کیوںنہیں کرتے ؟ کہنے لگے کہ ’’ہم لوگ اب ایک دوسری کوشش پر عمل آوری کی تیاری کررہے ہیں ۔ہم ان افسران کے خلاف مقدمات درج کروانا چاہتے ہیں جنہوں نے جھوٹے مقدمات میں ہمارے نوجوانوں کو پھنسایا ہے تاکہ ان کے اندر بھی خوف پیدا ہو اور وہ کسی کو بے گناہ پھنسانے کی جرات نہ کرسکیں‘‘۔میں نہیں جانتا کہ اس معاملے پر جمعیۃ نے کیا کچھ کیا لیکن یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ سنگین سے سنگین معاملات میں بھی اگر پیروی کے لئے کسی نے پہل کی ہے تو وہ گلزار احمد اعظمی ہی تھے۔میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ گلزار صاحب نے ذاتی طور پر بھی اس کی قیمت ادا کی تھی کہ جب ان کے بچوں کو بھی پولس نے ہراساں کیا اور سرکاری عتاب کا شکار بنایا۔
گلزار صاحب کی صاف گوئی اچھے اچھوں کو اچھی نہیں لگتی تھی۔ جب کہ ان کی کڑکدار آواز سے اچھے خاصے لوگوں کی بولتی بند ہوجاتی تھی۔ ممبئی میں مولویوں کے جس گروہ کو وہ سنبھالے ہوئے تھے یہ انہیں کا کارنامہ تھا،رمضان میں دور دراز سے مدارس کے سفراء آتے اور سند توثیق یا تصدیق لے کر جاتے ،بیشتر مدارس کے ذمہ داران کو مرحوم جانتے تھے جن کے بارے میں ان کے سفراء سے خیرخیریت دریافت کرتے۔ اسی طرح وہ کس سے کیا کام لینا ہے اس کی بھی خبر رکھتے تھے۔ ایک روز مجھے دوپہر میں پتنگ کی دکان پر بلوایا (جبکہ وہ دوپہر میں پتنگ کی دکان پر نہیں بیٹھا کرتے تھے) ایک صاحب کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگے ’’دیکھو اسے ذاکر نائک کی آفس میں نگرانی والاکام چاہئے ۔مقامی ہے تو یہ کام بخوبی کرسکتا ہے ،تم ڈاکٹر عبد الکریم نائک کے توسط سے بات کرو اور اسے ملازمت دلوائو۔ میں نےبغیر چوں چرا کئے حامی بھرلی ۔اب میں سوچتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ کس حد تک اپنے آس پاس کے لوگوں سے باخبر رہتے تھے۔ کیونکہ ان دنوں صبح کا بیشتر وقت میں ڈاکٹر عبد الکریم نائک صاحب کی آفس میں گذارتا تھا اور ان سے خاص قربت رکھتا تھا۔
بھنڈی بازار میں جباری ہوٹل کے سامنے جب جنازہ رکھا گیا تو سفید پوشوں کا ایک ازدہام تھا جو آخری نماز میں شرکت کے لئے دور دراز کا سفر کرکے حاضر ہوا تھا،ہزارہا محبت کرنے والے نماز میں شامل تھے ۔ایک بڑی تعداد تو ایسوں کی بھی تھی کہ جو ذرا تاخیر سے پہنچے تو نماز مکمل ہوچکی تھی۔ کندھا دینے والے ایسے اچک اچک کرکندھا دے رہے تھے کہ کہیں اس ثواب سے محروم نہ ہوجائیں ۔
بجا فرمایا ہے شہزاد احمد نے کہ
رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا
وہ کیوں گیا ہے یہ بھی بتا کر نہیں گیا
یوں لگ رہا ہے جیسے ابھی لوٹ آئے گا
جاتے ہوئے چراغ بجھا کر نہیں گیا
اللہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔آمین
Comments are closed.