بلڈوزر ظلم، جی ہاں! مسلمانوں کو معاشی طور پر ختم کرنا ہے

 

طہ جون پوری

_________________________________

 

 

اس بات کو کون نہیں جانتا، کہ آزادی کے بعد سے ہی مسلسل، مسلمانوں کو، ہر شعبہ زندگی میں، حاشیہ پر کھڑا کرنے کی *منظم کوشش* کی گئی. اس بات کے لیے تجزیے، رپورٹس، خبریں، حالات، شاہد عدل ہیں، کہ ملک کے گوشے گوشے میں فساد ہوئے اور ان فسادات میں مجموعی طور پر، مسلمانوں کا ہی نقصان ہوا. بچے مسلمانوں کے یتیم ہوئے، عورتیں مسلمانوں کی بیوہ ہوئیں.

 

اب تازہ صورت حال بس، *پرانا شکاری نیا جال لایا* والی ہے. جس میں مسلمانوں کو نقصان پہونچا یا جارہا ہے. چاہے ملک کے دار الحکومت، دہلی کا واقعہ ہو، صوبہ مدھیہ پردیش کے کھرگون کا معاملہ ہو، اور چاہے ہریانہ کے نوح کا کیس ہو وغیرہ، ہر جگہ صورت حال، کچھ ایسی ہے، کہ حکومت، نے *فسادیوں کو سزا دینے یا سرکاری زمین پر غیر قانونی قبضہ ہٹانے کے نام* پر، اربوں روپئے کی پراپرٹی کو لمحوں میں دھول بنادیا ہے. اس میں کوئی شک نہیں، چند لوگ اس طرح کے ہو سکتے ہیں، امکان کا انکار نہیں کیا جاسکتا. لیکن سوال یہ ہے، کہ کیا اس کے لیے بھی درست طریقہ کار (due process) پر عمل کیا گیا یا نہیں، یہ سب کے سامنے ہے. ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، صرف ہریانہ سرکار نے، 1200 سو سے زائد سٹرکچرز کو ڈھادیا ہے. حال ہی میں سوشل میڈیا پر، ایک خبر کے مطابق، اترپردیش کے ضلع *جون پور* کے *گودھنا، میر گنج، تھانے* کے حلقے کا واقعہ ہے، جہاں انتظامیہ نے، سرکاری زمین پر، قبضہ کے خلاف نوٹس دیا ہے. * کچھ تفصیلات مندرجہ ذیل لنک میں مل سکتی ہیں. ?

 

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=985580372751369&id=100068639721968&sfnsn=wiwspwa

 

*بلڈوزر ظلم* سے نہ صرف، ایک فرد کا نقصان ہوتا ہے، بلکہ پورے گھر گھرانے کی کمر توڑ دی جاتی ہے، اور اس کے پیچھے مقصد ہی یہی تاکہ، وہ معاشی طور پر کمزور ہی نہیں بلکہ ختم ہوجائے..

 

قابل ذکر بات یہ ہے، کہ انھیں مسلمانوں میں سے کتنے ایسے ہیں، جو ملی کاموں میں خدمات کے لیے بڑھ چڑھ کر، تعاون کرتے ہیں. ظاہر سی بات ہے، جب یہ خود کمزور ہوجائیں گے تو ان کا تعاون بھی بند ہوجائے گا اور دوسرے لوگ بھی متاثر ہوں گے.

 

کچھ نہ کچھ تو ضرور، کوششیں ہورہی ہیں، لیکن وہ قابل اعتناء ہی نہیں، اس لیے ظالم کے کان میں ابھی جوں نہیں رینگ رہی ہے، لہذا اس سلسلے میں علماء قائدین، ملی تنظیموں، اور مذھبی جماعتوں کو پوری مضبوطی سے قدم اٹھانا چاہیے. اپنے فطری اور جمہوری حقوق کے تحفظ کے لیے، *دستور ہند* نے بہت سے *راستے فراہم* کیے ہیں، اس لیے:

 

سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے،

دیکھنا ہے زور کتنا، بازوئے قاتل میں ہے،

 

کہ *جذبہ جنوں* ہی کہ لیا جائے، کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، ورنہ دشمن تو، باری باری سب کو اپنا نشانہ بنانے کے چکر میں ہے.

Comments are closed.