پھانسی کے تختے پر بھی طاغوت کے آگے سر نا جھکانے والا سید قطب شہید

 

سیّد عمران

 

سید قطب شہید کو اخوان المسلمین مصر کے اہم رہنماوٴں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ وہ ایک ادیب لبیب کے حثیت سے ابھرے اور بلآخر اسلام کے عظیم مفکر اور داعی حق اور مفسر قرآن کے روپ میں جامہ شہادت پہنے رُخصت ہوئے۔ قطب شہید کو ایک عظیم اسلامی شخصیت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جو اپنے عقائد اور اصولوں کی دفاع میں آخری لمحے تک جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی تصانیف اور تفکرات آج بھی دنیا بھر کی اسلامی تحریکات پر اثرانداز ہیں۔ قطب شہید کی پیدائش 9 اکتوبر 1906 میں ہوئی اور شہادت 29 اگست 1966 میں پائی۔ سیّد قطب شہید کا اصل نام سید تھا قطب انکا خاندانی نام ہے ابا و اجداد اصلاً جزرۃالعرب کے رہنے والے تھے بعد میں انکے خاندان کے بزرگ بالائی مصر میں آکر آباد ہوگئے تھے والد کا نام حاجی ابراہیم قطب تھا ابرہیم صاحب کو دو لڑکے تھے سید قطب اور محمد قطب اور 3 لڑکیاں تھی حمیدہ قطب امینہ قطب اور تیسری بہن کا نام معلوم نا ہوسکا بس اتنا معلوم ہوا کے انھونے اپنا لختِ جگر سیّد رفعت نامی لڑکا راہ حق قربان کیا تھا۔

 

ابتدائی تعلیم گاؤں کے سادہ محدود ماحول میں ہوئی تھی مگر 10 سال کی کم سن عمر ہی میں حافظِ قران ہوگئے تھے جس کے پیچھے انکے والدہ ( فاطمہ حسین عثمان) اور والد کی کوششیں تھی ادھر آپکی ابتدائی تعلیم مکمل ہوئی اور والد کو اتفاقاً گاؤں چُھوڑ کر قاہرہ انا پڑا اور یو آپکی مزید تعلیم حاصل کرنے کے راستے کھل گئے 1929 میں اپنے دارلعلوم ( موجودہ قاہرہ یونیورسٹی) میں داخلہ حاصل کرلیا اور 1933 میں ( بی – اے ایجوکیشن ) ہوئے اور اپنی ذہانت کی وجہ سے اسی کالج میں پروفیسر بنا دیئے گئے۔

 

قاہرہ یونیورسٹی میں پروفیسر کو خدمات انجام دینے کے بعد بہت ہی کم وقت میں آپکو مصر کے منسٹری آف ایجوکیشن میں انسپکٹر آف اسکولز بنا دیا گیا پھر حکومت مصر کی طرف سے تعلیمی نظام پر تحقیق کے لیے امریکہ بھیجا گیا دو سال امریکہ میں قیام کرکے جدید نظام تعلیم کا مطالع کیا اس مختصر قیام میں آپ نے امریکہ کے جدید معاشرہ اور جدید تہذیب کی ظاہری چمک دمک کے پیچھے تاریک حیوانی زندگی کا اصلی چہرے کا مشاہدہ کیا اور اسکی اصلیت کو جان گئے اسی اثناء میں آپکو احیاء اسلام کی تڑپ دل میں محسوس ہوئی امریکہ کے بعد انگلستان, اٹلی اور سوئیزر لینڈ کا بھی دورہ کیا اس دوران مصر میں اخوان المسلمین کے چرچے تھے اپ نے اس جماعت کا تحقیقی مطالعہ شروع کیا بلاخر 1945 میں اخوان سے وابستہ ہوگئے یہ و دور تھا جب دوسری عالمی جنگ ختم ہوچکی تھی شاہی استبداد ( شاہ فاروق کی حکومت) اور انگریزی استعمار کے خلاف آزادی کی تحریک زوروں پر چل رہی تھی دوران جنگ انگریزوں نے آزادی مصر کا جو وعدہ کیا تھا اخوان نے اسے فوری طور پر پورا کرنے کا مطالبہ کر رکھا تھا اخوان ملک میں سیاسی اور دینی شعور کی بیداری میں سرگرم حصہ کے رہی تھی اور عوّام میں اس کو مقبولیت عروج پر پہنچ چکی تھی اسی لیے شاہ فاروق اور انگریز دونوں اخوان کے دشمن تھے اخوان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کے 2 سال میں کارکنوں کی تعداد 25 لاکھ تک پہنچ گئی تھی- خائف انگریز و شاہی خاندان نے اس بڑھتی تحریک کہ راستہ روکنے کے لیے سازش کے تحت 1949 میں اخوان کے مرشد عام حسن البناء کو شہید کروادیا, ساتھ اخوان پر پابندی بھی لگا دی ہزاروں کارکنان کو قید کردیا گیا ہزاروں پر ظلم کیا گیا 1952 میں مصر میں فوجی انقلاب برپا ہوا جس میں فوجی جنتا نے شاہ فاروق کی حکومت کا تختہ الٹ دیا – فوجی انقلاب کے بعد اخوان کے ایک آزمائش کا دور ختم ہوا تو دوسری آزمائش و امتحان کا دور شروع ہوا, اخوان سے پابندی اٹھا لی گئی ڈاکٹر حسن الہضیبی مرشد عام منتخب ہوئے ڈاکٹر عبدالقادر عودہ سیکریٹری جنرل مقرر ہوئے سیّد قطب اب تک ایک عام کارکن کی حثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے جماعت کے مرکزی دفتر میں ان کو شعبہ توسیع و دعوت کا انچارج مقرر کیا گیا سیّد نے اپنی زندگی ہم تن دعوت و جہاد کے لیے وقف کردی مختلف طریقوں سے تحریک اسلامی کی خدمت کی مارچ 1953 میں مصر کے معاشرتی بہبود کے سرکل نے سیّد کو معاشرتی بہبود کی کانفرنس میں شرکت کے لیے دمشق بھیجا سیّد نے اس کانفرنس میں کئی لیکچرز دیے جن میں قابلِ ذکر لیکچر ( اخلاقی تربیت اجتماعی کفالت کو بروئے کار لانے کا ایک ذریعہ ہے) تھا, 1953 میں اخوان کے مکتب الارشاد کی طرف سے بیت المقدس میں منعقد ہونے والی اسلامی کانفرنس میں بھیجا گیا,

 

رسالہ اخوان المسلمون اور اینگلو مصری پیکٹ:

سیّد قطب کو 1954 میں اخوان کے رسالہ ( اخوان المسلمون) کے چیف ایڈیٹر بنايا گیا صرف 2 ماہ تک اس رسالہ کی ایڈیٹری کی ذمےداری ادا کر پائے تھے کی جمال عبدالناصر اور اخوان کی بیچ کش مکش کا آغاز ہوا اور 10 ستمبر 1954 کو یہ رسالہ کرنل ناصر کی حکومت نے بند کروادیا, اس کی وجہ جمال عبدالناصر اور انگریزوں کے درمیان کا وہ اینگلو مصری معاہده بنا, اخوان اس پیکٹ کو قومی اور ملکی مفاد کے خلاف سمجھتے تھے اور ماہنامہ اخون المسلمون میں اس پر شدید تنقید کی گئی تھی, اس رسالہ کی پابندی کے بعد اخوان پر دوبارہ ایک نئے آزمائش کا دور شروع ہوا اخوان کو دوبارہ خلاف قانون قرار دیا گیا اس بار اخوان پر مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اس کے رہنماؤں سمیت 50 ہزار کارکنان گرفتار کرلیے گئے ( کتاب جمال عبدالناصر) 6 نامور اخوان رہنماؤں کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا جس میں سرکاری عدالت کے جج رح چکے عبدالقادر عودہ بھی تھے

 

پابند سلاسل:

گرفتار شدگان میں سیّد قطب بھی شامل تھے جنہیں گرفتار کرنے کی داستان کافی کرب گداز ہے فوجی افسر جب سیّد قطب کو گرفتار کرنے گھر پُہنچے تو آپ انتہائی شدید بخار میں مبتلا تھے اسی حالت میں بیڑیاں پہنا کر پیدل سجن حربی فوجی جیل کی طرف لیجایا گیا راستے میں شدّت کرب کی وجہ سے بیہوش ہوکر گرجاتے ظالم پانی کے چھینٹے مارکر دوبارہ ہوش میں لاتے ہوش میں آتے ہی اللہُ اکبر وللہ الحمد ( اخوان کا نعرہ) زبان پر بیساختہ جاری ہوجاتا, جیل کے دروازہ پر غدار حمزہ بسونی کھڑا تھا جو جیل کا کمانڈر تھا جیسے ہی آپ اندر داخل ہوئے جیل کے کارندے آپ پر ٹوٹ پڑے اور مسلسل 2 گھنٹے زد و کوب کیا جیل میں آپ پر مختلف طریقوں سے اذیتیں دی گئی ایک ٹرینڈ فوجی کتا آپ پر چھوڑا گیا جو ان کی ران کو منہ میں پکڑ کر جیل میں گھسیٹتا, کبھی سر پر ٹھنڈا اور کبھی گرم پانی ڈالا جاتا, غلیظ گالیاں اور فحش اشاروں سے ان کی توہین کی جاتی لیکن سیّد قطب ہر وقت اللہُ اکبر وللہ الحمد زبان پر جاری رکھتے, رات میں کوٹھری میں ڈال دیا جاتا اور صبح بیلا ناغا پریڈ کرائی جاتی آپ سے سوال و جواب کا سلسلہ بھی کئی کئی گھنٹے چلتا ان مشقتوں کا یہ نتیجہ نکلا کے آپ متعدد بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے اور فوجی ہسپتال میں داخل کردیئے جاتے یہاں تک کہ جب آپکو 13 جولائی 1955 میں 15 سال کی سزا سنائی گئی آپکی غیر حاضری میں سنائی گئی کیوں کہ جب آپ بیماری کو وجہ سے اس قدر کمزور ہوگئے تھے کے عدالت میں حاضر تک نا ہوسکے تھے-

 

جمال عبدالناصر کی پیش کش:

ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کے عبدالناصر کی طرف سے ایک نمائندہ بھیجا گیا پیش کش کی گئی کے اگر آپ چند سطریں معافی نامہ کی لکھ کر دیدیں جنہیں اخبارات میں شائع کیا جاسکے تو آپ کو رہا کردیا جائے گا اس کے جواب میں اس مردِ مومن نے جو جواب دیا اُسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کریگی ” مجھے ان لوگوں پر تعجب اتا ہے کے جو مظلوم کو کہتے ہیں کے ظالم سے معافی مانگ لے خدا کی قسم اگر معافی کے چند الفاظ مجھے پھانسی سے بھی نجات سے سکتے ہوں تو میں تن بھی کہنے کے لیے تیار نا ہوں گا, اور میں اپنے رب کے حضور اس حال میں پیش ہونا پسند کروں گا کے میں اس سے خوش ہو اور وہ مجھ سے خوش ہو”

جیل میں جب کبھی اُن سے اس پیش کش کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے ہمیشہ یہی کہا ” اگر میرا قید کیا جانا برحق ہے تو میں حق کے فیصلہ پر راضی ہوں اگر باطل نے مجھے گرفتار کر رکھا ہے تو باطل سے کبھی رحم کی بھیک نہیں مانگوگا”۔

 

سید قطب کو حکومت کی طرف سے وزارتِ تعلیم کو پیش کش کی گئی لیکن انہوں نے یہ کہکر معذرت کردی کے "وزارت کا قبول کرنا اس وقت تک لا حاصل ہے جب تک مصر کے پورے نظام کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کا اختیار نہ ہو”

1964 تک سیّد قطب کو مصر کے مختلف جیل خانوں میں رکھا گیا شروعات کے 3 سال کافی اذیّت اور تشدّد میں گزرے پھر دھیرے دھیرے تشدد ہلکا ہوا ملاقاتوں کی اجازت اور علمی مشاغل جاری رکھنے کی سہولت دی گئی اسی دوران انہوں نے اپنی تفسیر "فی ظلال القرآن” کی تکمل کی, کچھ وقت کے لیے برائے نام رہا کیا گیا اور پھر دوبارہ گرفتار کرلیا گیا اور اس بار آپکے بھائ محمد قطب اور بہنوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا تشدد کا نشانہ بنایا گیا بہنوں کو بھی 7 سال با مشقت کی سزا سنائی گئی اس بار جمال عبدالناصر اخوان کا مکمل صفایا چاہتا تھا دوبارہ سے پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہوا 20 ہزار اخوان جس میں 700 عورتیں بھی شامل تھی جیلوں میں ٹھوس دیئے گئے تشدّد کو بھٹیاں گرم کردی گئی ملزمین کی طرف سے کسی کو بھی مقدمے کی پیروی کرنے کی اجازت نہیں دی گئی بیرون ملکوں سے مشہور وکلاء نے پیروی کرنی چاہی کسی کو اجازت نہیں دی گئی جو پُہنچا اُسے بےعزت کرکے واپس کردیا گیا ملزمین کا کہنا تھا کہ ٹارچر کرکے زبردستی اقبال نامے لیے گئے یہاں تک کہ ٹریبونل کے سامنے سماعت کے وقت ملزمین کُچھ کہنا چاہے تو انکا مہ بند کردیا جاتا سیّد قطب کی سماعت تو اس قدر مضحکہ قیز ہوتی کے ٹریبونل آپکو سوال کرتا اور سیّد صاحب کے جواب دینے سے پہلے خود ہی جواب دے دیتا کئی بار آپ جواب دینے کی کوشش کرتے مگر فوجی ٹریبونل اُنہیں موقع نا دیتا گویا وہ آپ کی جانب سے کچھ سننا ہی نہیں چاہتے تھے بس برائے نام پیش کیے جاتے۔

 

تختہ دار اور جامع شہادت:

سیّد قطب اور اُن کے 2 ساتھیوں کو فوجی ٹریبونل کی طرف سے موت کو سزا سنائی گئی, سزا کی سنوائی سے پہلے جمال عبدالناصر نے پھر ایک بار معافی پر دستخط کروانی چاہی سیّد کی بہن کو سمجھا بجھا کر جیل میں بھیجا گیا اور کہلوایا گیا کے ہم ایک انٹیلیکچوئل پرسنلٹی (سیّد قطب) کو کھونا نہیں چاہتے سیّد ایک بار کہدو کے ہماری تحریک کا تعلق کسی نہ معلوم گروپ سے ہے! اس مردِ مجاہد نے جواب دیا ” جس انگلی سے میں نماز میں اللہ کی شہادت کہتا ہو رب کی وحدانیت اور رسول کی رسالت کا اقرار کرتا ہو اس انگلی سے معافی نامہ پر دستخط کرتے ہوئے مجھے اللّٰہ سے حیا اتی ہے”

 

اگست 1966 کو سزا سنا دی گئی ان سزاؤں پر پوری دنیا کے اندر شدید ردِّ عمل ہوا دینی رہنماؤں, سیاسی شخصیتوں, مذہبی اور اصلاحی تنظیموں اور اخبارات و رسائل کو طرف سے سزاؤں میں تبدیلی کی درخواست کی گئی مگر ان کی شنوائی نہ ہوسکی, جب سیّد قطب کو تختہ دار پر لٹکایا جارہا تھا تو جیل میں موجود پولیس عملہ نے کلمہ کی تلقین کی اس پر سید قطب نے کہا کے ” جس کلمہ کی تم روٹی کھاتے ہو ہم اس کلمہ پر جانیں دے رہیں ہیں” اور تختہ دار کو چوم لیا بلاخر 29 اگست 1966 کی صبح کو یہ سزا نافذ کردی گئی! اور اس طرح عالم اسلام کا یہ بطل جلیل مفکر پورے صبر و استقلال کے ساتھ دس گیارہ سال تک قید و بند کے مصائب جھیلنے کے بعد راہ حق میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اپنے خالقِ حیقی سے جا ملا ( إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّآ إِلَيْهِ رَٰجِعُونَ)

 

یہ شہادت گہ اُلفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا۔

Comments are closed.