جمعہ نامہ : ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا

 

ڈاکٹر سلیم خان

ارشادِ ربانی ہے: ’’اللہ وہی تو ہے جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ‘‘۔ اس کائنات ہستی کا واحد خالق و مالک  اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذاتِ والا صفات ہے۔ کائنات کا نظم و انصرام بھی وہی رب ِ ذوالجلال کررہا ہے ۔ارشادِ قرآنی ہے:’’ اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعہ سے تمہاری رزق رسانی کے لیے طرح طرح کے پھل پیدا کیے‘‘۔ ان لوازماتِ حیات سے نوازنے کے بعد ربِ کائنات نے دیگر سہولیات بھی مرحمت فرمائیں مثلاً: ’’ جس نے کشتی کو تمہارے لیے مسخر کیا کہ سمندر میں اُس کے حکم سے چلے اور دریاؤں کو تمہارے لیے مسخر کیا‘‘ ۔ کشتی کے بنانے کا علم و سامان اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے عطا کردہ ہے اور سمندروں و دریاوں کو طغیانی شاہد ہے کہ اگر اس کو بیشتر اوقات مسخر نہیں کیا جاتا تو انسانوں کے لیے جہاز رانی ممکن نہیں ہوتی ۔ اسی طرح رب کائنات  نے:’’ سورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخر کیا کہ لگاتار چلے جا رہے ہیں اور رات اور دن کو تمہارے لیے مسخر کیا‘‘ ۔  گردشِ لیل و نہار  اور اس میں شمس و قمر کی کا کردار اللہ تعالیٰ متعین کردہ ہے ۔ چاند تک پہنچے  بغیر  بھی ہر نفس سلسلۂ روزو شب سے استفاد ہ توکرتا ہے مگر اس انعامِ الٰہی کا اعتراف نہیں کرتا  کیونکہ عقل نے سانپ کی مانند عشق کو ڈس لیا ہے اس لیے وہ فرمانِ نظر کی اتباع  کرنے سے قاصر ہے  ؎

‘عشق ناپيد و خرد ميگزدش صورت مار’                  عقل کو تابع فرمان نظر کر نہ سکا

وطن عزیز  نے اپنے خلائی جہازچندرایان  کے ذریعہ چاند پر اپنا نشان قائم کیا یہ پوری قوم کے لیے فخرو انبساط کا موقع ہے کیونکہ دنیا کے فقط چار ممالک  اس اعزاز سے سرفراز ہوئے ہیں نیز جنوبی حصے میں اترنے والا ہندوستان پہلا ملک بن گیا ہے۔ برسوں کی عرق ریزی   کے بعدیہ کارنامہ انجام دینے والے  سائنسداں  یقیناً مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ چاند کی سطح سے معلومات رسانی کا سلسلہ جاری و ساری ہے لیکن وہ وہاں موجودپہلے سے موجود  ہے کسی نے چاند کو بنایا نہیں ہے۔ خالق کائنات چاند کو بھی سورج کی طرح گرم بنادیتا تو انسان وہاں جانے کا خیال بھی نہیں کرتااور نہ دنیا کے چار ممالک نے وہاں  کاسفر کرکے  تصاویر روانہ کرتے ۔ ایسے میں عالمِ انسانیت سے قرآن  استفسار کرتا ہے:’’اگر تم اِن لوگوں سے پُوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے اور چاند اور سُورج کو کس نے مسخّر کر رکھا ہے تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، پھر یہ کدھر سے دھوکا کھا رہے ہیں؟ ‘‘چندرا یان ۳  سے موصول ہونے والی  تصاویر میں کھوئی ہوئی دنیا اس مصور سے بے خبر ہوگئی ہے کہ جس نے چاند کو یہ صورت بخشی ۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے؎

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا                             اپنے افکار کی دنيا ميں سفر کر نہ سکا

 تخلیق اپنے خالق کی معرفت کرواتی ہے لیکن  مخلوق سے مبہوت ظاہر پرست لوگ  اپنے مادی سفر میں اس طرح  غرق ہیں  کہ  افکار کی دنیا  بےبہرہ ہوچکے ہیں   ۔ یہی وجہ ہے کہ اس بڑی کامیابی کے بعد بھی ان خالق حقیقی سے غافل  لوگوں کے اندر  شکر و احسان کے جذبات پیدا نہیں ہوتے  ۔اس فکری پراگندگی  کے نتیجے میں   ٹیلی ویژن  کے پردے پر لوگ باگ کامیابی کے ساتھ چاند پر لینڈنگ کے لیے  ہون پوجن  اورمختلف دیوی دیوتاوں کی عبادت کرتے ہوئے  بھی دکھائی دئیے۔ ایسی زبردست  سائنسی ترقی کے باوجوداس عظیم گمراہی کا مظاہرہ حیران  کن تھا ۔ فرمانِ ربانی ہے:’’اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں یہ رات اور دن اور سورج اور چاند سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اُس خدا کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے اگر فی الواقع تم اُسی کی عبادت کرنے والے ہو‘‘۔جن کی عقل پر شرک کا دبیز پردہ پڑاہوتا ہے ان  کے آگے ساری سائنسی ترقی بے معنیٰ ہو کر رہ جاتی ہے۔حکیم الامت فرماتے ہیں ؎

اپنی حکمت کے خم و پيچ ميں الجھا ايسا                            آج تک فيصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا

شیطانِ لعین کو یہ گمان ہے کہ وہ حضرت ِ آدم ؑ کے آگے سجدہ نہیں کرنے کے نتیجے میں راندۂ درگاہ ٹھہرا ۔  اس لیے وہ انتقاماً انسان کو  کو خدائے واحد  کے سوا ہر کس و ناکس کے آگے  سجدہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور لوگ اس کی چکر میں پھنس کر خود کو بھی جہنم کا ایندھن بنانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں ۔ اس گمراہی کےضرر  سے بچنے  کے لیے ضروری ہے کہ انسان یاد رکھے :’’وہ (اللہ) ہی ہے جس نے سُورج کو اجیالا بنایا اور چاند کو چمک دی اور چاند کے گھٹنے بڑھنے کی منزلیں ٹھیک ٹھیک مقرر کر دیں تاکہ تم اُس سے برسوں اور تاریخوں کے حساب معلوم کرو اللہ نے یہ سب کچھ (کھیل کے طور پر نہیں بلکہ) بامقصد ہی بنایا ہے وہ اپنی نشانیوں کو کھول کھول کر پیش کر رہا ہے اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں‘‘ ۔ انسان کو چاہیے کہ وہ سوچے اگر اس کائنات میں ہر شئے با مقصد ہے تو اشرف المخلوقات بے مقصدکیونکر  ہوسکتا ہے؟ آفاق و انفس کی یہ نشانیاں بنی نوع  انسانی کو اپنے مقصدِ وجود پر غوروفکر کرکے اصلاحِ عمل  کی دعوت دیتی ہیں ۔ ارشادِ حق ہے:’’    یقیناً رات اور دن کے الٹ پھیر میں اور ہر اُس چیز میں جو اللہ نے زمین اور آسمانوں میں پیدا کی ہے، نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو (غلط بینی و غلط روی سے) بچنا چاہتے ہیں‘‘۔ انسان جب اس حقیقت کو بھول جاتا ہے دیگر لوگوں لوگوں کی حق تلفی کرنے لگتا ہے۔کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ  چندرا یان پر وجیکٹ کے لیے کام کرنے والی رانچی کی ہیوی انجینرنگ کمپنی کے تین ہزار سے زیادہ ملازمین  کو 14 ماہ   تک تنخواہ نہیں ملی ۔  اس طرح گویا اس عظیم مشن پر چاند کی مانند ایک داغ لگ گیا ۔ ہندوستان چاند جنوبی کرہ ّ میں اپنا جہاز بھیجنے والا پہلا ملک تو بن گیا مگر دنیا بھر میں بھکمری کا شکار لوگوں کی تعداد کے معاملے میں بھی وہ پہلے نمبر پر ہے۔  علامہ اقبال نے  گویا اسی صورتحال پر تبصرہ فرمایاہے؎

جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کيا                         زندگی کی شب تاريک سحر کر نہ سکا!

Comments are closed.