کانٹوں سےاپنادامن بچائیے

دبیر احمد قاسمی
مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ
زندگی میں کانٹےاپنی مخصوص معنویت اورخاص اہمیت رکھتے ہیں،یہ ہمت و حوصلے کو مہمیز بھی کرتے ہیں اور قدموں کی زنجیر بھی بنتے ہیں،یہ خوابیدہ جذبوں کو بیداربھی کرتے ہیں اورآہنی حوصلوں کو سرد بھی کرتے ہیں،اس کی دست درازیاں کسی کے دامن کوتارتار کردیتی ہیں اور کسی کو مشکلوں کے حصار میں جینا سکھا دیتی ہیں،اس کی خلش اور چبھن کسی کے لئے تریاق بن جاتی ہے اور کسی کے لئے زہرہلاہل ۔
*کانٹوں* کی ان متنوع اورمتضاد خوبیوں کی وجہ سے اردشاعروں اور ادیبوں نے ہمیشہ اس کو اپنے فکروتخیل کا موضوع بنایا ہے اور اس سے معانی کے بےشمار پھول کھلائے ہیں، کچھ مثالیں ملاحظہ کیجیے ۔
١۔ کانٹے راستے کی مشکلوں اور دشواریوں کی تعبیر کرتے ہیں جس کے بغیر کامیابی کا پھول ہاتھ نہیں آتا ، ادا جعفری کے اس شعر میں یہی بات بڑے خوبصورت اندازمیں کہی گئی ہے :
*ہاتھ کانٹوں سے کر لئے زخمی*
*پھول بالوں میں اک سجانے کو*
۲۔انسانی معاشرےکےمنفی کرداروں کی تعبیر بھی کانٹوں سے کی جاتی ہے ، جن سے گریزکرنا ہمیشہ اہلِ شرافت کا شیوہ رہا ہے۔
*گلوں نے کانٹوں کے چھیڑنے پر سوا خموشی کے دم نہ مارا*
*شریف الجھیں گے گر کسی سے تو پھر شرافت کہاں رہے گی*
٣۔دل کے بغض وعداوت اورحسد وکینہ کی تعبیر بھی اس لفظ سے کی جاتی ہے،استاذ داغ کا یہ شعر دیکھئے :
*خارِ حسرت بیان سے نکلا*
*دل کا کانٹا زبان سے نکلا*
بغض و کینہ تو دل کے اندر ہوتا ہے، زبان فقط اس کا اظہار کرتی ہے ، استاذ داغ کے اس شعر میں *دل کے کانٹے* سے مراد وہی دل کا بغض ہے، جودل میں کانٹے کی طرح چبھتا ہے اور زبان سے نکلتا ہے تو دوسروں کے قلب و جگر کو چاک کرتا ہے ۔
۴۔اگر پھول شرافت و محبت کا استعارہ ہے ، تو کانٹا خِسّت و رذالت کی تعبیر کرتا ہے ۔
فگار انّاوی کا یہ شعر اس معنی کی بڑی خوبصورت ترجمانی ہے :
*پھولوں کو گلستاں میں کب راس بہار آئی*
*کانٹوں کو ملا جب سے اعجازِ مسیحائی*
٥۔کسی کی تعمیر و ترقی کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کوبھی کانٹابونے سےتعبیر کیا جاتا ہے،مظفرحنفی کےاس شعر میں اسی معنی کی تعبیر ہے:
*کانٹے بونے والے سچ مچ تو بھی کتنا بھولا ہے*
*جیسے راہی رک جائیں گے تیرے کانٹے بونے سے*
٦۔معنوی لحاظ سے اِس کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ یہ دوہرے پن سے خالی ہوتا ہے ، اس کا کرداربالکل ظاہر ہوتا ہے،پھولوں کی طرح اس کا ظاہر پُر فریب نہیں ہوتا ہے ساغر صدیقی کا یہ شعر اسی کی غمازی کرتا ہے :
*کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ، اس کا گلہ ہی کیا*
*پھولوں کی واردات سے گھبرا گیا ہوں میں*
یا ظفر مراد آبادی کا یہ شعر
*کرم کے ساتھ ستم بھی بلا کے رکھے تھے*
*ہرایک پھول نے کانٹے چھپا کے رکھے تھے*
یہ چند مثالیں ہیں ورنہ اس لفظ سے اردو شاعروں نے معانی کے جتنے پھول کھلائے ہیں ،اگر اس کا احاطہ کیا جائے تو ایک اچھی خاصی کتاب تیار ہو جائے گی ۔
*اسلامی ادب* میں اس لفظ کا اطلاق بالعموم ایسے لوگوں پر ہوتا ہے جو *منفی ذہن وفکر* کے حامل ہوتے ہیں۔
عام نقطۂ نظر یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے الجھنے کے بجائے ،ان سے صرفِ نظر کرنا چاہئے ،ان کو ان کی سرشت کے سلسلے میں کسی قدر معذور خیال کرنا چاہئے،اگر ان سے الجھا جائے یا ان کی حرکتوں کا محاسبہ کیا جائے تو انسان کا وقت ،قوت وتوانائی اور روپیہ پیسہ سب ضائع ہوگا اور اس کے عوض صرف بےسکونی اوربے اطمینانی ہاتھ آئے گی ،اس لئے زندگی کے سردو گرم کا تجربہ رکھنے والے،زمانہ شناس اور ذی ہوش افراد ایسے لوگوں کو کبھی خاطر نہیں لاتے ہیں۔
*بانئ پاکستان * *مولانا ابو الکلام آزاد* کی راہ میں ہمیشہ کانٹے بوتے رہےاوران کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے رہے ، مگر مولانا نےاپنی سطح سے "نیچے اتر کر کبھی ان کے ” *بونے پن* ” کی داد نہیں دی ۔
*موصوف* کی بے جا تنقیدات کےبارے میں ایک موقعے پر مولانا آزاد سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب میں صرف اتنا کہا کہ ہر شخص اپنے لب و لہجے کے بارے میں آزاد ہوتا ہے۔
حالانکہ انسان کا لب و لہجہ اس کی شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے ،اس کی زبان اس کی شخصیت کی ترجمان ہوتی ہے ، عربی کی مشہور کہاوت *كل إناء يترشح بمافيه* کا مفہوم بھی یہی ہے، اس لئے اگرکوئی آزادانہ دوسروں پر تنقید کرتا پھرے تو اس سے خود اس کی شخصیت مجروح ہوگی۔
اسلامی تعلیمات کو کھنگالئے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک اچھے مومن کی شان یہ ہونی چاہئے کہ وہ معاشرے کےمنفی کرداروں سے گریز کرے ، سورۃ الفرقان میں اللہ پاک کا ارشاد ہے :
وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا
(سورۃ الفرقان الآية ٦٣)
ترجمہ:
اور رحمٰن کے (خاص) بندے وہ ہیں جو زمین میں عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب ان سے جہالت والے لوگ (جہالت کی) بات (چیت) کرتے ہیں تو وہ رفع شر کی بات کرتے ہیں۔
*اس آیت پاک میں* اللہ کے مخصوص بندوں کی شان یہ بتائی گئی ہے کہ اگر کوئی ان سے جاہلانہ انداز سے گفتگو کرتاہے تو وہ اس سے الجھنے کے بجائے خیروبھلائی کی بات کرتے ہیں،اگر کوئی شراورفتنے کی بات کرتا ہے تو وہ رفعِ شر کی بات کرتے ہیں،کوئی جہالت اورسفاہت کا مظاہرہ کرتا ہے تووہ تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔
لفظ *سلام* کا معنی تحیۃ، سلامتی، اورقول حسن(اچھی بات) ہے ، آیت بالا میں تیسرا معنی مراد ہے ۔
*آپﷺکا* طریقہ یہ تھا کہ کفارو مشرکین جتنی جہالت اور سفاہت کا مظاہرہ کرتے،آپﷺاسی قدرتحمل اور بردباری سے پیش آتے ۔
حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ حلیم الطبع آدمی جاہلانہ بات چیت نہیں کرتا اور اگرکوئی اس سے جاہلانہ انداز سے گفتگو کرے یا نامعقولیت سےپیش آئے تو وہ تحمل اور عفو و درگزر سے کام لیتا ہے۔
آپﷺکے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ طعن وتشنیع اور سب و شتم کے جواب میں خیروسلامتی کی بات کہتے ہیں فرشتے ان کو رحمت و سلامتی کی دعائیں دیتے ہیں ۔
اسی سورت میں چند آیتوں کے بعد یہ بات دوبارہ کہی گئی ہے کہ ایمان والے بندےفسق،جھوٹ،غیبت،بہتان،لغو،اور باطل کی محفلوں سے دوررہتے ہیں اوراگراتفاقاً ایسی محفلوں سے ان کا گزر ہوتا ہے تو وہ اس کی آلائشوں سے بچ کر گزرتے ہیں ۔
وَٱلَّذِینَ لَا یَشهَدُونَ ٱلزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا۟ بِاللَّغوِ مَرُّوا۟ كِرَامًا (۷۲)
ترجمہ:
اور وہ بیہودہ باتوں میں شامل نہیں ہوتے اور اگر (اتفاقاً) بیہودہ مشغلوں کے پاس سے ہو کر گزریں تو سنجیدگی کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایسی ہی ایک محفل سے گزر ہوا تو وہ سنجیدگی اوراحتیاط کے ساتھ وہاں سے نکل گئے اورتھوڑی دیر کے لیے بھی وہاں نہیں رکے،آپﷺکو اس کی اطلاع ملی تو آپﷺنے ان کی تعریف کرتےہوئے کہا کہ ابن مسعود کریم النفس اور شریف الطبع آدمی ہیں۔
نبیﷺکا ارشاد ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وقَالَ: حَسَنٌ.
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺنے فرمایا: آدمی کےایمان کےاچھا ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ لایعنی چیزوں کوترک کردے۔
اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ منفی کرداروں سے گریز اورلغو اورفضول چیزوں سےاجتناب کمالِ ایمان کی علامت ہے، کیونکہ لایعنی امورمیں مداخلت کرنا اورغیرمثبت کرداروں سے الجھنا بسااوقات تشویش اور فتنوں کا باعث ہوتا ہے۔
یہ بڑی اہم ہدایت ہے ، انسان اگر اپنی زندگی میں کوئی مثبت اورتعمیری کام کرنا چاہتا ہےتو اس کےلئے بیحدضروری ہے کہ وہ ایسی چیزوں میں الجھ کرخودکوضائع نہ کرے۔
ظاہر ہے کہ اگر آپ کیچڑ سے بچنے کیلئے اپنے پائنچے نہیں چڑھائیں گےتو اس کے چھینٹوں سے آپ کا دامن آلودہ ہو گا ۔
جہالت وسفاہت کے مقابلے میں تحمل اورعفوودرگذرسے کام لینا نہ صرف کامیابی کے نقطۂ نظر سےضروری ہے بلکہ یہ انسان کےاخلاقی اورروحانی جوہر کا امتحان بھی ہے،ایسے موقعے پرآپ کی شرافت ومروت،متانت وسنجیدگی ،خوش فکری اور خوش مزاجی ، وسعت ذہنی اورعالی ظرفی کا سخت امتحان ہوتا ہے۔
*اگر آپ نے کانٹوں سے دامن بچاکر پھولوں کی طرح مہکنا سیکھ لیا تو سرخ روئی اور کامیابی ہمیشہ آپ کے قدموں میں ہوگی ۔*
*اُس در سےجا ملیں گےیہ جتنےراستے ہیں*
*کانٹے ہٹاتے جاؤ، کلیاں بچھاتے جاؤ*
Comments are closed.